بلاگز

ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ

ون بیلٹ ون روڈ  کانفرنس مئی چودہ اور پندرہ کو چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے وزیر آعظم چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ سمیت شریک ہوئے۔اگرچہ گلگت بلتستان  جو ایک صوبائی سیٹ اپ رکھتا ہے لیکن  متنازعہ خطہ ہونے کے باعث  اسے اب تک  وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی ہے جو کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی ہے یا وہ اختیارات گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو حاصل نہیں  جو پاکستان کے دیگر وزیر اعلیٰ  رکھتے ہیں ایسا کیوں ہے؟۔اس کی وجوہات سے قانونی اور آئینی ماہرین بخوبی آگاہ ہیں ۔اس کالم میں  اس بارے اتنا ہی کافی ۔گلگت بلتستان میں  ون بیلٹ ون روڈ کے حوالے سے اب تک جوتبصرے   کئے جا رہے ہیں ان میں صرف اس بات کی فکر لوگوں کو کھائے جا رہی ہے کہ اس کانفرنس میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا گیا ۔اس پہ لعن طعن  جاری ہے موجودہ مسلم لیگ کی قیادت نے اپنے وزیر اعلی کو اس اہم کانفرنس سے کیوں دور رکھا اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں کئی لوگ  اس میں گلگت بلتستان کی وزیر اعلی کی نا اہلی اور اس کی کمزوری سمجھتے ہیں ۔کئی ایک اس کو وفاقی حکومت کی ایک سوچی سمجھی سازش قرار دے رہے ہیں۔اب یہ وفاق کی سازش ہے یا قانونی اور آئینی پیچیدگیاں اس بارے کچھ کہنا  قبل از وقت ہے ۔لیکن ایک بات  ہے کہ جو لوگ اسے وزیر اعلیٰ کی کمزوری یا نا اہلی سمجھتے ہیں  وہ شائد یہ بات بھول رہے ہیں کہ مانگے تانگے کی نوکری میں اپنی مرضی نہیں چلتی ہے  یہاں وہی کچھ کرنا پرٹا ہے جو مالک کی مرضی ہوتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت کے بجائے گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ہوتی  تو وہ بھی یہی کچھ کرتے جو موجودہ حکومت کے یہ مانگے تانگے وزیر کرتے ہیں یا کر رہے ہیں ۔ اس موضوع کو بھی یہی چھوڑ دیتے ہیں آئیں دیکھیں یہ ون بلیٹ ون روڈ کس بلا کا نام ہے اور اس کے ثمرات سے  کون سے ممالک فیضیاب ہونگے اس بارے تھوڑی جانکاری حاصل کریں ۔

سلک روٹ کی اصطلاح کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی بار ۱۸۷۷ میں منظر عام پر آگئی تھی لیکن سلک روٹ کی دریافت کے بارے یہ مشہور ہے کہ  آج سے دو ہزار سال قبل چین کے بادشاہ کے ایلچی زانگ کین جو سیر و سیاحت کا بڑا شوقین تھا  اس کے سر جاتا ہے آج اسی دریافت سلک روٹ  کو چین کے موجودہ صدر شی پنگ کے وژن کے مطابق ون بیلٹ ون روڈ  منصوبے کو عملی شکل دی جا رہی ہے۔اس منصوبے کے تحت  چین سنٹرل ایشیا ویسٹ ایشیا، جنوبی ایشیا اور عرب علاقوں تک اپنی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے سڑکوں، ریلوں، پائپ لائنز اور توانائی گرڈز کو قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس منصوبے کے دو حصے  ہیں جنہیں  سلک روڈ اکنامک بیلٹ  اور اکیسویں صدی میری ٹائم کا نام دیا گیا ہے ۔اکنامک بیلٹ کے تین روٹس ہیں  جن کے ذریعے چین کا یورپ سے رابطہ ہوگا ۔ایک روڈ سنٹرل ایشیا سے دوسرا ویسٹ ایشیا اور تیسرا سائوتھ ایشیا کے ذریعے۔ بحرہند، خلیج فارس اور بحیرہ اوقیانوس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے چین ون بیلٹ ون روڈ کے ساتھ میری ٹائم سلک روڈ کو بھی تعمیر کر رہا ہے اور پاکستان اس ون بیلٹ ون روڈ منصوبے  کے تحت بیک وقت ان لینڈ اور میری لینڈ دونوں کا ایک اہم ملک بن رہا ہے ۔ایک تو سی پیک اور دوسرا گوادر پورٹ کے  ذریعے۔ چین کے اس منصوبے کے تحت دنیا کے 60سے زائد ممالک کے درمیان سڑک، ریل کے علاوہ سمندری راستوں کے ذریعے بھی تجارتی سرگرمیوں  کے فروغ اور بھڑوتری میں مدد ملے گی   اور یہی میری ٹائم روڈ ہی ہوگی جس کے باعث چین اپنے ساحل سے سنگاپور،ہندوستان اور بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک رسائی حاصل  کرے گا۔اب  تک کی اطلاع کے مطابق جو ساٹھ ممالک  اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں ان کا  جی ڈی پی کا حجم اکیس ٹرلین ڈالرز سے زائد  بتایا جا رہا ہے  ۔اگرچہ ہندوستان بھی اپنی تیسری قیادت کے ساتھ بیجنگ کانفرنس میں شریک تھا لیکن  اس نے ابھی تک اپنے کو اس منصوبے سے دور رکھا ہوا ہے اس کی وجہ شائد یہی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان  کے درمیان کشمیر  ایک متنازعہ خطہ کے طور پر انیس سو سینتالیس سے چلا  آرہا ہے اور بھارت  گلگت بلتستان  کو ریاست جموں و کشمیر کا  حصہ تسلیم کرتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ سی پیک کوریڈور کی سڑکیں  آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان  سے گزریں  وہ ان متنازعہ خطوں کو اپنا حصہ گردانتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں سی پیک اور  ون روڈ ون ورلڈ  کے خلاف پروپنگڈہ  اور منفی بیانات  دینے والوں  کو بھارت کا ہمنوا سمجھا جا تا ہے ۔اور کہا یہ جا تا ہے کہ وہ  دانستہ یا نا دانستہ  ملک دشمن عناصر کے  آلہ کار بن جاتے ہیں ۔بحر الحال صورت حال جو بھی ہے  اس منصوبے کے خد و خال کی طرف دیکھا جائے تو  اندازہ  یہ ہوجاتا ہے کہ ابتدائی طور پر  اس کا تجارتی حجم چار ٹریلین  ہے جو مستقبل مین آٹھ ٹرلین تک پہنچ سکتا ہے    معلومات کے مطابق ون بیلٹ  ون روڈ  کے تحت چھ کاریڈور بنے گے ۔ ان چھ منصوبوں میں سے سی پیک CPECجو جنوب مغربی چین سے پاکستان تک پہنچے گا ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ ابتدائی طور پر اس منصوبے پر 46ارب ڈالرز خرچ  کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا  اب اندازہ یہ کیا جا رہا ہے کہ  اب سی پیک  کی سرمایہ کاری  پچھتر ارب  تک پہنچ جائیگی ۔ اس کے تحت پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جدید جال بنا جائیگا۔ اس کے علاوہ جدید سڑکیں اور ریل کا نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ توانائی پراجیکٹس اور سپیشل معاشی زون قائم کئے جا رہے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ سی پیک کے ذریعے 13نومبر 2016ء کو چین کا پہلا کارگو براستہ خنجراب پاس گوادر پہنچا تھا جہاں سے میری ٹائم روٹ  گوادر کے راستے شپنگ کے ذریعے افریقہ تک پہنچا۔ سی پیک بیک وقت میری ٹائم اور لینڈ سلک روڈ سے منسلک ہے اور اسی وجہ سے اس کی تجارتی اہمیت بے تحاشا ہے۔ دیکھا جائے تو سی پیک پاکستان کی  اقتصادی  ترقی کے لئے  ریڑھ کی ہڈی کی حثیت  رکھتا ہے اور اسی کی بدولت ملک میں   ایک اقتصادی  انقلاب رونما ہونے کی توقع  ظاہر کی جا رہی ہے ۔ ون بیلٹ ون روڈ میں سی پیک کا زیادہ تر حصہ خنجراب سے چیک پوسٹ بصری تک  گلگت بلتستان کا ہے اور اس خطےکا   جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔لازمی بات ہے کہ  تجارتی سرگرمیوں سے خطے  کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی۔ لیکن ایک بات کا شدت سے احساس کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں  فیڈریشن اور ا متنازعہ خطے کے  نامزد  یا تعینات شدہ وزیر اعلیٰ کے درمیان  ہم آہنگی کا فقدان ہے جس کو نیک شگون  نہیں کہا جا سکتا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان  کے تمام ترقیاتی منصوبوں    کو سی پیک     منصوبوں کے ساتھ ملایا جائے  اور یہاں  سرمایہ کاری کرنے والوں  کے لئے قوانین کو نرم اور شفاف بنایا جائے  تاکہ  یہاں کے لوگ بھی  قومی دھارے میں شامل ہو سکیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button