تعلیمکالمز

یہ سکول ہیں یا قصائی کی دکانیں؟

گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں داماس میں ساتویں جماعت کے ایک یتیم طالب علم مشتاق نے سکول کی مبلغ آٹھ سو روپے فیس نہ ملنے پر گھر کے صحن میں موجود درخت میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی

تحریر: اسرارالدین اسرار

یہ خبر نہیں تھی بلکہ سماج اور اس پر حکمرانی کرنے والے ارباب حل و عقد کے منہ پر تمانچہ تھا۔یہ خبر بھی دیگر ہزاروں خبروں کی طرح آئی اور گزر گئی ۔ یہ خبر اگر کسی مہذب معاشرے کی ہوتی تو وہاں کا پورا نظام ہل جاتا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے وہاں کے حکمران سر جوڈ کر بیٹھ جاتے مگر یہ خبر تو پاکستان کے انتہائی شما ل میں واقع گلگت بلتستان کی تھی اس لئے اس خبر پر کسی نے تو جہ ہی نہیں دی۔ خبر یہ تھی کہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں داماس میں ساتویں جماعت کے ایک یتیم طالب علم مشتاق نے سکول کی مبلغ آٹھ سو روپے فیس نہ ملنے پر گھر کے صحن میں موجود درخت میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ۔ بچے کی عمر بارہ برس تھی۔ان کا باپ ٹریکٹر کا ڈرائیور تھا وہ ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھا اہل خانہ نے ساری جائیداد بھیج کر ان کا علاج کرایاتھا مگر وہ جانبر نہیں ہوسکا تھا اوران کی وفات ایک سال پہلے ہوچکی تھی۔ مشتاق کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں جن میں سے دو بہنوں کی شادی ہوئی ہے ایک بہن اور ایک بھائی گھر پر ہیں۔ یہ سارے بہن بھائی پڑھنے کے شوقین ہیں مگر فیس ان کا بڑا مسلہ ہے۔مشتاق کے ساتھ بھی یہ مسلہ تھا وہ ایک نیم سرکاری سکول میں زیر تعلیم تھا اوروہ اپنی فیس ادا نہیں کر سکتا تھا۔ اساتذہ نے خود سے ان کی مجبوری نہیں سمجھی وہ خود اساتذہ یا معاشرے کے کسی فرد کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا تھا کیونکہ ماں نے ان کو خود داری سکھائی تھی۔ تاہم ان کی ماں نے خود کئی لوگوں اور اپنی کمیونٹی میں سماجی بہبود پر کام کرنے والے اداروں سے بھی رابطہ کیا مگر وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ بعض ذرائع کے مطابق ان کی فیس معاف کی گئی تھی مگر دیگر ضروریات کے لئے ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔چانچہ ماں نے بیٹے کو ڈانٹ پلاتے ہوئے چند دن مزید صبر کرنے اور سکول جانے کو کہا مگر بچہ سکول کی طرف سے جاری دباؤ یا ہم جماعت طلبہ کے سامنے ہونے والی سبکی برداشت نہیں کر سکا اور دلبرداشتہ ہوکر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔

بظاہر یہ عام سی خبر لگتی ہے مگر یہ ان درندہ صفت لوگوں کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے جنہوں نے تعلیم کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں لیکن ان کے اندر تعلیم نام کی شے نہیں پائی جاتی۔ وہ کونسی تعلیم ہے جو ایک استاد کو اتنا بھی نہ سمجھا سکے کہ جہاں سو بچوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے وہاں ایک دوبچوں پر ترس کھا کر ان کی فیس معاف کر دی جائے۔ لگتا ہے سالانہ فیس کی مد میں لاکھوں کمانے والوں کی آنکھوں پر لالچ اور لوٹ کھسوٹ کی پٹیاں بند ھی ہوئی ہیں۔ ان کو اتنا بھی نظر نہیں آتا کہ کوئی یتیم ، غریب ، بے سہارا ، بے بس، مسکین اور لاچار مگر قابل طا لب علم ان کی تھوڑی سی تو جہ اور ہمدردی کا محتاج ہوتا ہے وہ اگر اس کو مل جائے تو اس کی زندگی سنور سکتی ہے۔

سرکاری سکولوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے مگر جو پرائیوٹ سکول نما دکانیں جگہ جگہ کھولی گئیں ہیں ان کا تو مشن ہی فریب اور دھوکا دہی سے سادہ لوح عوام کو لوٹنا ہے۔ اب اس کاروبار میں ایک طبقہ ایسا آیا ہے جو بچوں کو انگلش کے چند الفاظ سیکھاتا ہے۔ یہ بچے شام کو جب گھروں میں جاکر دو چار انگلش کے الفاظ بولتے ہیں تو والدین اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ بہترین تعلیم حاصل کر رہا۔ جس کی آڑ میں یہ سکول والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔

سادہ والدین کے پاس بھی تعلیم کا معیار جانچنے کا کوئی فارمولا نہیں ہے ۔بس بچے کو ٹوٹی پھوٹی انگلش آتی ہوباقی اس کی ذہنی و اخلاقی ترقی بیشک باڑ میں جائے۔ جو تعلیم بچے کو دی جاتی ہے اس کا بچے کی زندگی پر کتنا مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے اس بارے میں والدین لاعلم ہوتے ہیں۔

وہ کونسی تعلیم ہے جو کسی انسان کو انسان نہ بنا سکے۔ وہ کیساتعلیم یا فتہ انسان ہے جو کسی کو دکھ میں دیکھ لے مگر ان کی آنکھیں نم نہ ہو جائیں۔وہ کیساتعلیم یافتہ ہے جو سکول نما دکانیں کھول کر لوگوں کو لوٹتا ہے۔ وہ کونسا تعلیم یافتہ ہے جو اپنے دفتر میں بیٹھ کر رشوت دینے اور لینے میں زرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ وہ کیسی تعلیم ہے جو کسی کے چہرے پر چھائی ہوئی بے بسی اور افسر دگی کا اندازہ تک نہیں لگا سکے ۔ وہ کونسی تعلیم ہے جو اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ وہ کونسی تعلیم ہے جوکسی غریب کے سر پر ہاتھ رکھنا نہیں سکھاتی۔ وہ کیسی تعلیم ہے جو پیسے کے آگے ڈھیر ہوجاتی ہے۔ وہ کیسی تعلیم ہے جو ایک استاد کو اپنی کلاس میں موجود طلبہ کے دکھ درد کا اندازہ لگانے کی صلاحیت بھی نہ بخشے۔وہ کونسی تعلیم ہے جو پیسے والے چور ڈاکو اور بد معاش کو علم والے غریب اور شریف پر تر جیح دیتی ہے اور وہ کونسی تعلیم ہے جو جھوٹی شان والوں کی معترف ہوتی ہے۔ وہ کیسی تعلیم ہے جو انسانی قدار کو ہر روز اپنے پاؤں تلے روند تے ہوئے شرم سار نہیں ہوتی۔

ہمارے معاشرے میں تعلیم کے نام پر انسانی اقدار کا جو جنازہ نکل رہا ہے اس میں ایسا ہی ہونا تھا جیسا دماس کے بارہ سالہ طالب علم کے ساتھ ہوا۔ مستقبل میں یہ رجحان مزید بڑھے گا یعنی شریف لوگوں کے بچے خود کشی کریں گے باقی لوگوں کے بچے جرائم کی طرف راغب ہونگے۔ جو طبقہ آج ہر جائز اور نا جائز طریقے سے پیسے بنانے کے چکر میں ہے اس نے اگر ہوش کے ناخن نہیں لیا تو وہ ان جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لوٹ جائیں گے کیونکہ مکافات عمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

داماس سے آئی ہوئی یہ خبر ان تمام جھوٹے اور کھوکھلے سرکاری نعروں کا بھی پول کھول دینے کے لئے کافی ہے جو مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کرنے کے حوالے سے لگا ئے جاتے ہیں۔جھوٹ اور فریب تخلیقی سوچ کو بھی ختم کردیتی ہے اس لئے ہر کام میں نقل اتارنے کے ماہرین کی بڑی تعداد ہر جگہ موجود ہے۔ ایسے لوگ ایوان اقتدار میں بھی بیٹھے ہیں جو یہ مشورے دیتے ہیں کہ کام بے شک کم کرو مگر شو شا زیادہ کر و۔ ان کو یہ نہیں پتا کہ نوشروان بادشاہ اسلام کی آمد سے پہلے گزر چکا ہے مگر تاریخ ان کو آج بھی یاد کرتی ہے ۔ اُس وقت جیو یا سما ء نہیں تھا جہاں ان کے شہباز شریف کی طرح روز دس دس اشتہار چلتے ۔یہ بات ان کو کون سمجھائے کہ حکمرانوں کو ان کے کام زندہ رکھتے ہیں اشتہار زندہ نہیں رکھا کرتے۔ پنجاب حکومت کی نقل اتارتے ہوئے گلگت بلتستان کے تعلیمی بجٹ سے اچھی خاصی رقم خرچ کرکے قومی الیکٹرانک میڈیا میں حالیہ دنوں گلگت بلتستان کے تمام سکولوں میں مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کئے جانے سے متعلق صوبائی حکومت کی طرف سے چلنے والے ایک اشتہار سے گلگت بلتستان کے بچوں کو مفت تعلیم نہیں مل سکتی۔ اشتہار میں گلگت بلتستان کی حکومت یہاں کے ہر بچے کو جو مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے وہ اگر سچ ہوتا تو آج بچے خودکشی پر مجبور نہ ہوتے۔

سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ یہ جو پرائیوٹ سکول نما دکانیں جگہ جگہ بنی ہوئی ہیں ان کے لئے بھی موثر پایسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ان کو پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کم از کم اپنے سکول کی ٹوٹل تعداد کی پانچ سے دس فیصد سیٹیں غریب، نادار، یتیم اور مستحق و قابل طلباء و طالبات کے لئے مختص کریں۔ ان سکولوں میں جو فیس لی جاتی ہے اس کے لئے بھی کوئی معیار مقرر ہونا چاہئے۔ جن پرائیویٹ سکولوں میں مناسب بلڈ نگ، لائبریری،کمپیوٹر لیب، سائنس لیب ، پلے گراؤنڈ اورمناسب ٹائلٹ کی سہولت نہ ہو ان کا لائسنز منسوخ کیا جانا چاہئے۔ اور جو سکول ایک یتیم اور غریب بچے کو بھی سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے معیار کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے لہذا ایسے سکولوں کو تالے لگا دینا عین مناسب ہے۔ تمام سکولوں کو اس بات کا بھی پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ زیر تعلیم بچوں کو سماجی خدمت اور انسان دوست اقدار کی نہ صرف تعلیم دیں بلکہ خود اس کا عملی مظاہرہ سکولوں میں بھی کر کے دیکھائیں۔ وگر نہ یہ سکول نماء قصاب کی دکانیں پتا نہیں مستقبل میں کتنے معصوم بچوں کی خود کشی کا باعث بنیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button