Uncategorized

دریا غذر کے کنارے۔۔۔!!

شاہ عالم علیمی

شب کو چاندنی رات کی دلکشی ہو یا صبح کو سورج کے کرنوں کی شبنم کے قطروں سے کھیل، دن کو دریا کے لہروں کا گیت ہو یا شام کو ڈوبتے سورج کا رومانس یہاں سب ہے۔ یہاں کوئل کی سدا بہار صدا ہے اور بلبل کی فریاد، یہاں تتلیوں کا گھر ہے اور پھولوں کی کھیتیاں، یہاں بہتے ابشار ہیں اور ٹھنڈے پانی کے چشمے۔ یہاں مسکراتے چہرے ہیں اور محبت اور خلوص کا رواج۔ جو انکھ دیکھتی ہے تو دل کہتا ہے:
"دیکھ کر تم کو یقین ہوتا ہے، کوئی تم سا بھی حسین ہوتا ہے”

اکثر ایسا ہوا ہے کہ رات کو چاندنی ہو اور میں چپ کے سے باہر نکل کر دریا کے کنارے کنارے چلتا ہوں۔ شفاف پانی میں چاندہ اپنا عکس دیکھا دیکھا کر مسکراتا ہے۔ اور میں اپنے خیالوں میں گم چلتا ہوں۔ چلتے چلتے اس ویران پہاڑی کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں جس کے قریب سے دریا بڑی خاموشی اور معنی خیز انداز میں گزرتا ہے۔ میں یہاں کھڑا رہتا ہوں تاوقتیکہ تھک نہ جاوں۔ پھر بیٹھ جاتا ہوں۔ پانی میں مچھلیاں کودم کود کررہی ہیں۔ شاید ان پر چاند کی چاندنی کا سایہ ہے۔ اور وہ چاندنی میں اٹکھیلیاں کررہی ہیں۔ ساتھ ساتھ پہاڑی سے طائر شب کی اواز رک رک کر ارہی ہے۔ باقی سب خاموشی ہے۔

یہ خلوت پسندوں کی جنت ہے۔
غذر وہ سرزمین ہے جسے یہاں کے لوگ ایک بزرگ حضرت خضر سے جوڑتے ہیں۔ یعنی یہ خضر کی زمین ہے۔ غذر کے لوگوں سے میں یہ سنا ہے کہ یہاں گندم کا پہلا دانہ بھی خضر ہی لے ائے تھے۔ اور میں نے اپنی پچپن میں یہ دیکھا بھی ہے کہ یہاں گندم کی کاشت کرنے کے بعد اسے جمع کرتے وقت خضر کے نام کی ایک خاص دعا مانگی جاتی تھی۔ اج کل مشینی دور میں یہ رواج معدوم ہوتا جارہا ہے۔
اپ گلگت شہر سے غذر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو پھولوں کی ایک مست خوشبو اپ کی روح تک اتر جاتی ہے۔ اپ میں سے بہت سوں نے اس کا تجربہ کیا ہوگا۔ غذر کے شروع میں وادی پونیال کے خوبصورت علاقے اتے ہیں۔ گلاپور، شیر قلعہ، گیچ، سنگل، بوبر، اور گرنجر سے گاہکوچ تک یہ انتہائی خوبصورت علاقہ بے شمار قسم کے پھولوں اور پھلدار درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کی اب و ہوا معتدل ہے۔

گاہکوچ ضلع غذر کا ہیڈ کوارٹر ہے اور ابھرتا ہوا معاشی مرکز ہے ۔ یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں اپ کو روزمرہ کی تقریباً ہر چیز ملےگی۔ یہاں دکان اور بازار بڑے سلیقے سے بنائے گئے ہیں۔
گاہکوچ سے دائیں ہاتھ پر وادی اشکومن واقع ہے۔ یہ بھی پونیال کی طرح خوبصورت وادی ہے۔ یہاں غذر کا اکلوتا ڈگری کالج واقع ہے۔ یہ وادی ہنزہ اور چترال کے علاقے بروغل سے ملا ہوا ہےیعنی بہت پھیلا ہوا اور وسیع علاقہ ہے۔

اگے مغرب کی سمت جاتے ہوئے اپ وادی گوپس میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وادی مقامی رومانٹک شاعر اور گیت کار مظفر الدین بیگانہ کی وادی ہے۔ مظفرالدین بیگانہ تو اپ کو نہیں ملےگا لیکن ان کی اواز اپ کو ہر سمت سنائی دیگی۔
وادی یاسین ازادی گلگت بلتستان کے ہیرو صوبیدار شیر علی اور لالک جان نشان حیدر کا گھر ہے۔ یہ وادی دوسرے وادیوں کی طرح وسیع و عریض اور نہایت خوبصورت مناظر پیش کرتی ہے۔ گوپس ایڈمنسٹریٹیو سنٹر ہے۔ یہاں تحصیل گوپس اور یاسین کے سرکاری اور انتظامی دفاتر واقع ہیں۔

جب اپ اگے کی طرف بڑھیں گے تو اپر گوپس کے نہایت خوبصورت علاقے ہیں۔ یہاں ٹراوٹ مچھلیوں سے بھرے جھیل اور دریا موجود ہیں۔ ان علاقوں میں شمرن چھشی پھنڈر گلاغمولی ہندراب ٹیرو اور شندور کے خوبصورت علاقے قابل زکر ہیں۔ دراصل چھشی شمرن سے اگے غذر خاص تک کا علاقہ سیاحوں کا مسکن ہے۔ یہاں دریاوں کے ساتھ ساتھ گھاس کے وسیع میدان موجود ہیں۔ یہاں سیاح گرمیوں کے موسم میں خیمے لگائے دنوں تک اس علاقے کی خوبصورتی کو انجوائے کرتے ہیں۔ غذر خاص کے علاقے گولاغمولی سے شندور تک ٹراوٹ فش کا شکار کرنے لوگ دوردراز علاقوں سے اتے ہیں۔ ہندراب کے شونجی نالے اور شندور کے کھوکش نالوں میں ٹراوٹ فش کے علاوہ مارخور کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں مختلف قسم کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ جو کہ ان علاقوں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں حکومتی اقدامات کے باعث یہاں کے نایاب گوریلے اور مارخور کے علاوہ سنو لیپرڑ Snow Leopard کی بھی واپسی ہوئی ہے جو کہ خوشگوار حیرت ہے۔
سیاح یہاں صرف خوبصورتی دیکھنے اور نیچر اور خوشگوار موسم کو انجوائے کرنے ہی نہیں اتے ہیں بلکہ یہاں بہت کچھ ہے جو کہ سیاحوں کی کچھاو کا باعث ہے۔ گرمیوں میں شندور کے مقام پر شندور میلہ سجتا ہے جسے دیکھنے ملکی اور غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں اتے ہیں۔ اس کے علاوہ شندور کے قریب ہی بارست کے مقام پر ایک خاص قسم کے پانی کا چشمہ ہے جس کا پانی مختلف قسم کی بیماریوں کے لیے شفا کا باعث ہے۔ اس پانی کا ذائقہ کولڈ ڈرنک سے ملتا جلتا ہے۔ پا نی کو گلاس میں ڈالے تب بھی کولڈ ڈرنک کی طرح ابلتا رہتا ہے۔ صدیوں سے بہتا یہ چشمہ کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ چشمہ سارا سال بہتا رہتا ہے۔ لیکن سردیوں میں برف باری کے باعث اس تک راستے بند ہوجاتے ہیں۔ تاہم گرمیوں میں یہاں بہت رش رہتا ہے۔ دراصل اپ
کو پانی تک پہنچنے کے لیے لائنوں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ سال پہلے یہاں میری ملاقات پنجاب سے ائے ایک فیملی کے ساتھ ہوئی۔ان کے مطابق یہ لوگ پچھلے تین سال سے یہاں اتے رہتے ہیں۔ فیملی کی سربراہ دادی کا کہنا تھا کہ یہ پانی بہت فائدے مند ہے۔ اور اس سے ان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
تو اپ کب دریائے غذر کے کنارے اپنا خیمہ لگانے جاتے ہیں۔ اور چاندنی راتوں میں دریا کے کنارے چلنا چاہتے ہیں۔ کوئل کی اواز سننا چاہتے ہیں ۔ صبح کے افتاب کی کرنوں اور شام کے سورج کی کرنوں کا رومانس دیکھنا چاہتے ہیں!
ضرور جائے اور اپنی زندگی یادگار بنائیں!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button