کالمز

وزیراعلیٰ کا دورہ غذر اور شہیدلالک جان

اشکومن سے واپسی کے سفر پر گاہکوچ پہنچے تودوستوں نے سلپی پل کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے پر اصرارکیا۔ کچھ دیرخاموشی کے بعدمیں نے دوستوں سے پوچھا اس تقریب کی خاص بات کیا ہے؟ بتایا گیا کہ پل کا افتتاح وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے دست مبارک سے کیا جارہا ہے، جن کے ساتھ بہت سی اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔

اس تقریب سے چند روزقبل سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلی جاتی رہیں کہ وزیراعلیٰ صاحب اپنے دور غذر کے موقع پرضلع کے لئے بڑے اعلانات کریں گے۔اسی لئے شایدچٹورکھنڈ میں ایک دوست نے بھی یہی سوال پوچھا کہ سننے میں آیا ہے وزیراعلیٰ صاحب غذر کے لئے بڑے بڑے اعلانات کرنے والے ہیں۔ ان کی اس بات پر میری ہنسی نکل آئی کہ حکومتیں اپنے مفادات کے لئے عوام کس قدربیوقوف بنا لیتی ہیں تاکہ عوام ان اعلانات کی آس میں سرکاری تقاریب میں زیاداہ سے زیادہ شرکت کرسکیں اور تالیوں کی گونج سے حکمرانوں کی پرُجوش خطابات کو بھرپور داد دے سکیں۔ ورنہ ایک عام سے ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کوئی غیرمعمولی بات تو نہیں کہ جس میں شرکت کے لئے عوام اورسرکاری ملازمین کو میلوں کی مسافت طے کرکے آنے پر مجبورکیا جائے۔

خیر میں نے دوست کے اطمینان کے لئے وضاحت کی کہ بھائی وزیراعلیٰ کے دورے کے حوالے سے عوام کو جو قبل ازوقت سبزباغ دیکھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے وہ عین وقت پرکھوداپہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ہوگا۔ ہوگا یوں کہ ٹھیکہ دار کے حکم پرمزدوروں کا ایک گروپ صبح سے پل کی صفائی ستھرائی پر معمورہوگا تو دوسرا گروپ اسٹیج کی تیاری میں مصروف نظرآئے گا۔ گاہکوچ شہراور گردنواح سے لوگوں کا رجحان بھی پل کی طرف ہوگا،ہرکوئی نئے پل پر سیلفیاں لیتا رہے گا، وقفے وقفے سے شائقین پل کا چکرکاٹتے رہیں گے کہ آخر وہاں کیا کچھ ہونے جارہا ہے۔ پی ڈبلیو ڈی کے ملازمین بھی افسران کے خوف سے صبح سویرے ہی پل پر اپنی حاضری کو یقینی بنائیں گے ۔ تقریب میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لئے لوگوں کی منت سماجت کی جائیگی۔ پولیس اور انتظامیہ کے آفسران کی بھی دوڑے لگ جائیں گی ۔ پل کے اردگرد وزیراعلیٰ کی تصاویر پر مبنی بینرزآویزاں کئے جائیں گے ۔

دوپہرکے بعد آس پاس کے علاقوں سے جلسہ گاہ کی جانب لوگوں کی آمدکا سلسلہ بھی شروع ہوگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنڈل میں اچھا خاصا ہجوم جمع ہوگا۔ گرمی کے مارے روزیدار ایک دوسرے سے وی آئی پیزکی آمد کے بارے میں پوچھتے رہیں گے۔ متوجہ کے لئے اسٹیج سے تسلیاں ملتی رہیں گی کہ بس تھوڑی ہی دیرمیں ہمارے محبوب قائد کی تشریف آواری کے ساتھ تقریب کا باقائدہ آغاز ہوگا ۔اتنے میں اونچی آوازمیں سائرن بجنے کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ کا قافلہ جلسہ گاہ میں واردہوگا۔ ہرطرف سے شیرآیا ، شیرآیا کے نعرے لگیں گے۔ میزبانوں کی جانب سے وی آئی پیزکو روایتی ٹوپیاں پہنائی جائیں گی۔ ننھے منھے بچے مہمانوں کو پھول پیش کریں گے۔ پل کے کنارے نصب نوازشریف پل کی تختی کی نقاب کشائی ہوگی۔ یوں تلاوت کلام پاک کے ساتھ تقریب کا آغازباضابطہ ہوگا۔

غذر سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرخطبہ استقبالیہ میں وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے قصیدے سنائیں گے ۔ پھرایک خوبصورت شعرکے ساتھ مہمان خصوصی کو دعوت خطاب دیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ صاحب اسٹیج پر آنے پر پھر سے لیگی کارکن زوردار نعرے لگائیں گے۔پبلک اسپیکنگ کے ماہرمقرر ایک خوبصورت تمہید کے ساتھ اپنی تقریر کی ابتداء کریں گے۔ تقریرکا پہلا حصہ غذرکے شہدا اور لیگی قائدین کی تعریفوں

پر مشتمل ہوگا۔ دوسرے حصے میں وہی باتیں دہرائی جائیں گی جو گزشتہ دوسالوں سے ہرتقریب اور ہرمحفل میں دہراتی چلی آرہی ہیں۔

غذر کے راستے گلگت چترال روڈ، پھنڈر ہائیڈرل پاورمنصوبہ،گاہکوچ واٹرسپلائی ،شیرقلعہ پل کے تعمیراتی کام میں تیزی وغیرہ کا تذکرہ ہوگا۔ ایک دو اور چھوٹے موٹے منصوبوں کا اعلان ہوگا اور پھروماعلیناالاالبلاغ۔

یہ وہ باتیں تھیں جو میں نے سلپی پل کی افتتاحی تقریب سے قبل چٹورکھنڈمیں اپنے دوست کے سوال کے جواب میں کہی تھیں۔ اس کے بعد ہم گاہکوچ آئیں اور سلپی پل پر سیلفی لئے بغیر گلگت کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں بارگوکے سامنے وزیراعلیٰ کے قافلے نے کراس کیا۔ شام کو سوشل میڈیا اور صبح کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں دیکھ کرمجھے خودحیرت ہورہی تھی کہ جو روداد میں نے قبل از تقریب اپنے دوست کو سنائی اتفاق سے وہ کسی حدتک درست ثابت ہوئی۔

وہ اس لحاظ سے کہ وزیراعلیٰ صاحب نے اپنی تقریرمیں بالکل وہی باتیں کیں جو میں نے اپنے دوست کو بتائی تھیں۔ حالانکہ وزیراعلیٰ صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ سب سے قبل غذرکے اس عظیم سپوت کا ذکرکرلیتے جنہوں نے اپنی بہادری اور شجاعت مندی سے کارگل کے محاذ پر دشمن کو ایک ناقابل فراموش سبق دیکر ملک کا سب سے بڑافوجی اعزازحاصل کرکے قوم کا نام فخر سے بلند کیا تھا۔ یہ شکوہ حافظ حفیظ الرحمن سے محض اس لئے کہ وزیراعلیٰ صاحب خود ایک ایسے شہیدکے بھائی ہیں جنہوں نے گلگت شہرمیں دائمی امن کی خاطراپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہدا کی قربانیوں کا انہیں بخوبی ادراک ہے۔

کہنے کا مقصد صرف لالک جان شہیدکو خراج عقیدت پیش کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ایک لمحے کے لئے ان کے آبائی ضلعے کی حالت ذار پر بھی نظردوڑانا ہے کہ شہیدلالک جان کی اس عظیم قربانی کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے ان کے علاقے کے لئے کیا کچھ کیا گیا۔ اور تواور وزیراعلیٰ نے اقتدار کا دوسال کا عرصہ گزرجانے کے بعدبھی اس قومی ہیروکے مزارپر حاضری دینے کی زحمت گوارہ نہیں۔ اگرگلگت میں جنگ آزادی کے شہداکی یادگارکی جدیدطرزمیں تزئین وآرائش کے لئے فنڈ دستیاب ہوسکتے ہیں تو غذرمیں لالک جان شہیدکے نام پر پندرہ سال قبل تعمیرہونے والے سڑک کی مرمت کا کام کیوں نہیں ہوسکتا؟ یاگلگت جوٹیال میں واقع لالک جان اسٹیڈیم کی تزئین وآرائش کیونکرناممکن ہے؟ جس کی حالت دیکھ ہرمحب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اعتبار نہیں تو ذراء جاکے دیکھ لینا کہ لالک جان شہیدکے نام پر تعمیرہونے والے اسٹیڈیم جسے محکمہ پولیس نے ڈرائیونگ گراونڈ میں تبدیل کردیا آج کل کس حالت میں ہے۔باقی کام کوچھوڑدیں زراء اسٹیڈیم کے مین گیٹ پر نصب شدہ بورڈ پرنظر دوڑائیں جس پر سے اس قومی ہیروکا نام ہی مٹ جاناکس قدرافسوس اور شرم کی بات ہے!

شہدا کی سرزمین سے تعلق رکھنے کے ناطے غذر کے عوام کی سب سے بڑی ضرورت اس وقت قدرتی آفات کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہونے والے گلگت غذر روڈ کی فوری مرمت ہے، جس پر سے روزانہ ہزاروں کی تعدادمیں مسافرسفرکرتے ہیں تو آپ خوداندازہ لگائیں کہ اس قدرخستہ حالی کا شکارروڈپرسفرکرنے والے مسافروں پر آخرکیا گزرتی ہوگی؟ خاص طورپر مریضوں، بزرگوں اور خواتین پر۔ بہتریہ نہ ہوتا کہ وزیراعلیٰ صاحب غذر روڈ کی خستہ حالی کا جائزہ لینے کے بعد گلگت چترال ایکسپریس وے کی تعمیرکا منصوبہ مکمل ہونے تک پہلے سے

اس روڈکی فوری مرمت اور سیلاب سے متاثرہ مقامات پر پیچ ورک کے احکامات صادرفرماتے۔

لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ حالانکہ وزیراعلیٰ صاحب گزشتہ برس تو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان کی حکومت نے غذرروڈکی مرمت وکشادگی کے لئے دیڑھ ارب کا منصوبہ رکھا ہے جس پر نئے سال یعنی رواں سال کے آغاز سے ہی کام شروع ہوگا۔ لیکن عین وقت پر اس منصوبے کا تذکرہ کرنا ہی مناسب کیوں نہیں سمجھا گیا؟ کیا پاکستان اور چین کے مابین چھٹے جے سی سی میٹنگ میں غذرکے راستے سی پیک کا متبادل سڑک کی تعمیرکے فیصلے پر صوبائی حکومت کی جانب سے غذرروڈکی مرمت کا وہ ارادہ تبدیل تو نہیں ہورہا ہے؟

کہنے کا مقصدیہ ہرگزنہیں کہ پلوں کی تعمیر، ویسٹ منیجمنٹ کمپنی، واٹرسپلائی سکیم یا ریسکیو سروسزکے اجراء کا اعلان غذر کے عوام کے لئے بے فضول منصوبے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ اس طرح کے ثانوی منصوبے تو چلتے رہیں گے مگر دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ غذرکے عوام کی سب سے زیادہ ضرورت کا منصوبہ کونسا ہے۔

مان لیا غذر کے لئے اضافی ضلعے کا اعلان صوبائی حکومت کے اختیارمیں نہیں توپیپلزپارٹی کے دورحکومت میں منظورشدہ یاسین سب ڈویژن کے نوٹی فیکیشن کے اجراء میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں جن کی وجہ سے حکومت دو سال سے اس سے پردہ پوشی کررہی ہے؟ یا پھنڈر تحصیل کو مکمل بااختیارتحصیل کی شکل دینے میں کیا دشواریاں درپیش ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button