کالمز

بلتستان میں مذہبی ہم آہنگی اور بیرونی سازشیں 

تحریر: محمد باقر سرمیکی

جولائی ۲۴ امسال ، روزنامہ امت کراچی میں نوربخشیہ ایک باطل مذہب کے شائع ہونے والے مضمون پڑھ کر رتی برابر بھی حیرت اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ مسلک نوربخشیہ کے سادہ طبع، صلح جو اورانسان دوست معتقدین کے ساتھ وقتا فوقتا تفرقے، تعصب اور خانہ جنگی کی سازشیں اس سے قبل بھی ہوتی رہی ہیں ۔

اس پرآشوب دور میں کونسا مسلک تنقید کا شکار نہیں ۔دین حقہ ، ملائیک، کتب سماوی اور انبیاء کے ساتھ بھی متعصب اور توہین آمیز مواد اور غیر سنجیدہ تنقید بھی سوشل میڈیا کا حصہ رہا ہے۔ حال ہی میں شرانگیز اور توہین آمیز مواد پر مشتمل نشرواشاعت پر حکومت کی طرف سے پابندی کے لئے قوانین بھی عمل میں آچکے ہیں ۔ اخبار میں شائع نکات پر بات کرنے سے پہلے اس کے پس و پیش کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔ کسی بھی اخبار یا نشریاتی ادارے کا یہ بنیادی اصول ہے کہ اس کی پیشکشوں کے ذریعے دی جانے والی رائے کی ذمہ داری ادارے پر عائد نہیں ہوتی ، تاہم کسی بھی ادارے کا عملہ یاذمہ داران شائع ہونے والے مواد کی چھان پھٹک ضرور کرتی ہے۔ کیونکہ مفادعامہ ، اشتعال انگیز اور ریاست دشمن مواد شائع کرنا کسی بھی طور اخلاقی اقدارے کے منافی ہے۔یقیناًیہاں اتنا شرانگیز مواد بغیر تحقیق وتفتیش کے شائع ہوا۔ مصنف کی تعلیمی قابلیت اور گردوپیش کا تو معلوم نہیں لیکن اس کی شرانگیزی اس کی متعصبانہ رویے اور امت دشمنی قاری کا منہ چڑاتی ہے۔

کم آبادی، سادگی اور تنگ دستی کے باعث ماضی میں نوربخشی مسلک سازشوں کا شکار رہاہے۔لیکن انہیں دیگر مسالک سے لڑانے، کسی دوسرے مسلک میں ضم کرنے یا ختم کرنے کی ساری کوششیں نقش پر آب ثابت ہوچکی ہیں۔ نوربخشیوں کی بلتستان میں تاریخ یہاں اسلام کی آمد سے ہی شروع ہوتی ہے۔ نوربخشی مسلک کے پیروکاران مبلغ اسلامیان کشمیر و بلتستان میر سید علی ہمدانی ؒ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ۔ انہیں اتحاد بین المسلمین اور اخوت و برادری کی تعلیم گھٹی میں ملی ہوئی ہے۔ یہ صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ ان کی اکثریت والے ضلع گانچھے ہو یادیگر اضلاع میں موجود ان کی اقلیت ، ان کے قول و فعل سے کہیں پر کبھی بھی کوئی بدامنی اور خلفشار پیدا نہیں ہوا۔ ان کے علماء ومشائخ ، صوفی اور بزرگان دیگر مسالک کے ساتھ بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک ہی نہیں بلکہ کسی بھی مسلک سے متعلقہ انفرادی یا اجتماعی ظلم وناانصافی پر حق کا برملا ساتھ دیتے رہے ہیں ۔ بلتستان کو درپیش گزشتہ فرقہ وارانہ بحرانوں میں کنٹرول لائن سے لے کر چلاس تک متحد ہوکر امن عامہ اور اخوت و برادری کے لئے کردار اداکیا ہے۔

ان کوششوں کا مقصد کسی پر احسان جتانانہیں بلکہ یہ اس مسلک کے صوفیانہ طرز زندگی اور اتحاد بین المسلمین کی تعلیمات کا ماحاصل ہے۔ کیا اس مضمون کا مقصد ان کاوشوں سے دل شکنی کا اظہار ہے؟۔ یاخاکم بدہن بلتستان کی بین المسالک ہم آہنگی کی فضا کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ ایسی تحریر سے کس کو کیا فائدہ حاصل ہوگا یہ تو وقت بتائے گا۔ تاہم اگر کسی کی نظر میں اہل نوربخشی بنیادی عقائد، ارکان اسلام یا آئمہ اطہار پر ایمان کے حوالے سے شبہ وابہام کا شکار ہیں تو دیگر مسالک کے پاس اس سے بہتر کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا؟۔ کیا ایسے عقائد رکھنے والے نوربخشی آجکل میں کسی دوسرے سیارے سے وارد ہوئے ہیں؟۔ اگر ان کی رائے موجودہ نوربخشی پیروکاروں کے حوالے سے ہے تو یہ ایک جاہلانہ الزام سے بڑھ کر کچھ نہیں۔نوربخشی مسلک کے لوگ پشتوں سے بلتستان کے دیگر مسالک کے شانہ بشانہ زندگی گزاررہے ہیں اگر ایسی کوئی اختلافی بات ہوتی تودوسرے مسالک کب تک آشکار کر چکاہوتا۔ موجودہ نوربخشی عقائد کی روشنی میں شاہ سید محمد نوربخش ؒ ان کا مجتہد، عالم ربانی اورمرشداعظم ہے نہ کہ ان کا بارہواں امام۔ ہر نوربخشی پیروکار بارہویں امام سے مراد حضرت امام محمدمہدی ؑ صاحب العصروزمان لیتے ہیں اور اس حوالے سے طفلان مکتب تک کو بھی کوئی تشویش لاحق نہیں۔ اس مسلک کے پیروکاران سلسلہ ذہب کے نام سے ولایت ، امامت اور پیران پیر کے ایک سلسلے کے معتقد ہیں جس میں مندرج بارہ اماموں میں کہیں شاہ سید محمد نوربخشؒ کو بطور امام یا پھر امام محمد مہدی ؑ کے متبادل شمار نہیں کیا جاتا۔ ان کے عقائد کی روشنی میں ان کے بارہویں امام حضرت محمد مہدی صاحب العصر وزمان ؑ ابھی پردہ غیب میں ہیں اور خداوند کے اشارے پر قیامت کے قریب ظہورفرمائیں گے اور ان کے ظہور سے متعلق علم صرف خداوند عالم کے پاس ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اس حضرت شاہ سید محمد نوربخشؒ کی یوم ولادت اور یوم وفات الگ سے منایا جاتا ہے بلکہ ان کی سوانح سے متعلقہ کتابیں بھی موجود ہیں ۔ان کی مرقد منور ایران میں موجود ہے ، اور مرجع خلائق ہے جوکہ براہ راست شاہ سید محمد نوربخش ؒ کو امام مہدی ؑ کہلانے کے الزام کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے۔

شاہ سید محمد نوربخش ؒ نے الفقہ الاحوۃ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے وہی نوربخشی عقائد کی توضیح اور بیان ہے۔ نوربخشی سالکان راہ حق تمام بنیادی ارکان اسلام ، توحید، نبوت، نماز، روزہ، حج ، زکواۃ اور جہاد پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ اپنے عقائد پر عمل کرنے اور ان کا برملا اظہار کرنے میں یہ کسی بھی مصلحت سے کام نہیں لیتے ، حالانکہ ان کے علاوہ بھی ایسے مسالک کی کمی نہیں جہاں ولایت، امامت اور ظہور سے متعلق تعلیمات متفرق، مختلف یا عنقا ہیں۔ بلتستان میں مسلک امامیہ اثنا ء عشریہ اور دیگر مسالک کے لوگ بھی آباد ہیں، ان کا رہن سہن، سماج و ثقافت بھی آپس میں مشترکہ ورثہ رہاہے۔ ایسے میں اثنا عشریہ اور نوربخشیہ میں مشترک عقائد ولایت اور امامت کے حوالے سے اگر نوربخشی عقائد میں ایسا کوئی سقم ہوتا تو ہر چند مسالک کے مشائخ اب تک اس معاملے پر خاموش رہتے؟۔ نوربخشی عقائد کے پیروکاران اسلامی تعلیمات اورقرآن و سنت کے عین مطابق پنجتن پاک ؑ ، اہلبیت اطہار ؑ اور بارہ اماموں ؑ کے علاوہ چہاردہ معصومین ؑ ، امہات المومنین، صوفیاء عظام اور متقیان دین اسلام کے عقیدتمند رہے ہیں اور ان کی یوم ولادت اور وفات کے حوالے سے محافل ، مجالس، ذکر اور دیگر روحانی محافل کا انعقاد کرکے اپنی عقیدت کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔نوربخشی مسلک کے پیروکار انبیاء، اصحاب، خاندان رسالت ، بارہ اماموں، امہات المومنین ، شہدائے کربلا و دیگر صوفیاء و بزرگان دین کی توقیر و تکریم کو عبادت سمجھتے ہیں اور انہی کی اطاعت سے سرشار ہیں۔نہ صرف بلتستان بلکہ ان کی انسان دوستی اور صلح جوئی کی ایک دنیا معترف ہے۔ بلتستان کا معاشرہ یہاں بسنے والے ہر مسلک ، فرقے اور نظریہ و فکر سے تعلق رکھنے والے فرد کا اپناہے خواہ وہ ایک گونگا بہرہ یا بے بینا شخص ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں کی پر امن فضا میں سب کا مفاد ہے۔ ایسی بوکھلاہٹ اور متعصب پسندانہ اقدام نوربخشی پیروکاروں کی صوفیانہ تعلیمات کی طرف بڑھتی ہوئی رغبت، اعتکاف نشینی ، ذکرواذکار کی محافل کے انعقاد سے خوفزدہ ہونے والی طاغوتی طاقتوں کی شکست کی علامت ہے۔

گاؤں گاؤں منعقد ہونے والے ذکر واذکار کے محافل خاص کر گزشتہ کئی دہائیوں سے مسجد امیر کبیرخپلو صوفی سپنگ میں مہینوں مہینوں جاری رہنے والی تزکیہ نفس کی محافل میں نہ صرف نوربخشی بزرگان ، نوجوان اور اطفال شرکت بلکہ بلتستان اور مضافات کے علاوہ کراچی اور خیبر تک سے دیگر مسالک کے پیروکاران کی شرکت بھی عاقبت نااندیشوں کی آنکھ کا خار بنی ہوئی ہے۔اس عظیم روحانی عبادت میں من جملہ بلاتعصب تمام مسالک کے مومنین کی شرکت اس پاک مسلک کی حقانیت ، مقبولیت اور عین اسلامی تعلیمات سے معمور ہونے کی بین دلیل ہے۔ بلتستان میں موجود عدم تعصب کی فضا کو برقرار رکھنے اور شرپسندوں کی حوصلہ شکنی کے لئے بہت ضروری ہے کہ تمام مسالک کے ذمہ داران خاص کر علماء اور مشائخ روایتی اتحاد بین المسلمین کے جذبے کے سرشار ہوکر ایسی طاقتوں، ظاہر و پنہاں سازشوں اور بیرونی انتہاپسندعناصر کی ہر فورم پرپرزور مذمت کریں اور اسے کسی مسلک یا اجتماعی گروہ کی بجائے کسی فرد کی غیر حقیقی ، متعصبانہ اور شرانگیز رائے قراردے کر یکسر مسترد کردیں۔ اس اقدام سے نہ صرف نوربخشی برادران کی دلجوئی ہوگی ، بلکہ آئندہ کوئی شرپسند اس اتحاد کو توڑنے کی ہمت نہیں کرپائے گا۔یقیناًاس سے نہ صرف اتحاد بین المسلمین کی فضامستحکم ہوگی بلکہ برادرانہ سماجی ہم آہنگی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button