بلاگز

ایک گھنٹہ ایم این اے شہزادہ افتخار کے ساتھ

میں سیاست کا طالب علم نہیں رہا ۔۔لیکن سیاست کے بارے میں کچھ باتیں ضرور سنی ہے ایک یہ کہ فخرموجودات ﷺ نبوت سے پہلے معاہدہ خلف الفضول کے ممبر تھے اور اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اگر اس کے بدلے میں مجھے سو سرخ اونٹ بھی دئے جاتے تو میں نہ لیتا ۔۔اور ایک دفعہ فرمایا ۔۔کہ ابو جہل اس معاہدے کے چیرمین تھے اب بھی اگر مجھے پیشکش ہو تی تو میں اس کی ممبر شپ قبول کرتا۔۔۔یہ معاہدہ کیا تھا میرے خیال میں سیاست تھی ۔۔کہ اس میں عوام کی خدمت تھی مخلوق کی خدمت تھی ۔۔غریبوں کے حقوق کی حفاظت تھی ۔۔ایک میں نے یہ بات سنی کہ ۔۔کامیا ب سیاست دان وہ ہے جس کے دل میں جو بات ہوگی وہ اس کی زبان میں نہ ہو ۔۔یہ مغرب کی سیاست ہے ۔۔۔ایک یہ سنی کہ طاقت حاصل کرو خواہ تمہیں کسی کو کرش کرنا کیوں نہ پڑے ۔۔۔ایک یہ سنی کہ سیاست بے لوث ہوتی ہے ۔۔حمایت مانگی نہیں جاتی لوگوں کے دلوں میں جگہ خود بنتی ہے ۔۔لیکن موجود ہ منظر نامے میں مجھے کسی سیاست دان میں بے لوث خدمت نظر نہیں آتا ۔۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم سیاست کے میدان میں بہت ہی نوزائیدہ ہیں ۔۔یہ سنجیدہ بات ہے کہ ہم سنجیدہ نہیں ہیں ۔۔مجھے موجودہ سیٹ اپ میں ایم این اے سے پیار ہو گیا تھا ۔۔وہ بے لوث خدمت گار بنتا جارہا تھا ۔۔وہ مرکز میں رہتے ہوئے چترال کی بے لوث خدمت کر رہا تھا ۔۔میں نے خود پارلمنٹ ہاؤس میں اپنی آنکھوں سے اس کی کوشش دیکھی ۔۔مجھے اس کی ٹنل کے لئے کوششوں کا پتہ تھا مجھے تورکھو روڈ کے لئے اس کی دوڑدھوپ کا پتہ تھا ۔۔مجھے چترال میں سی این جی کی ایجنسی کے لئے اس کی کوششوں کا پتہ تھا ۔چترال کو آفت زادہ قرار دے کر اس کے لئے پیکیج لانے میں اس کی کوشش تھی یہ اور بہت ساری چیزیں ایک نوجوان قیادت کے لئے اگر چہ ناممکن نہیں مگر قابل تعریف ضرور ہے ۔۔مجھے ایم این اے کی یہ محنت اچھی لگتی تھی ۔۔مجھے اس کی ذات میں ایک عظیم لیڈر نظر آتا تھا ۔۔مجھے اس میں اسلام کی بے لوث سیاست نظر آتی تھی جس میں ووٹ مانگنا نہیں ہوتا ۔۔اولولامر کہتا ہے کہ میں اگر اسلام ،قرآن ،سنت اور عدل و انصاف کا دامن تھا موں تو میری تا بعداری کرنا ورنہ تم پر میری تا بعداری لازم نہیں ۔۔ ہماری قیادت کو ایسا ہونا چاہیے ۔۔ورنہ تو ہم صرف نعرہ باز ہیں باتونی اور جھوٹ کا پلندہ کاندھوں پہ اٹھائے پھیرنے والے راہگیر ۔۔میں اپنی قیادت میں یہ ڈھونڈ تا ہوں ۔۔میرے سامنے اگر کوئی ووٹ مانگے تو میں ٹوٹ جاتا ہوں ۔۔خود کلامی کرتا ہوں کہ ’’ کیا ووٹ بھی کوئی مانگنے کی چیز ہے ؟‘‘۔۔۔اقبال نے کہا تھا ۔۔ مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج

کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا

جولائی کی کوئی تاریخ تھی ۔۔میں گاؤں میں اپنے گھر میں تھا ۔۔ایک روشن صبح تھی ۔۔کسی نے آکر کہا کہ شہزادہ افتخار الدین آرہے ہیں ۔۔میری جھونپڑی راستے میں پڑتی ہے ۔۔مجھے بہت اچھا لگا کہ آج میری جھونپڑی میں ایک باصلاحیت لیڈر آئے گا ۔۔مجھے اس سے پیار ہو گیا ہے ۔۔میں خواب دیکھنے لگا ۔۔کچھ کارکن گھر آئے ان کا انتظار ہونے لگا ۔۔ان کی تشریف آوری ہوئی ۔۔تعارف کرنے والے اس کے کارکن نے سیاسی مستنڈوں کا تعارف کرایا ۔۔اور پھر میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ ایک ’’ماسٹر‘‘ ہے ۔۔اس ماسٹر کے سامنے اس کی پسندیدہ شخصیت موجود تھی ۔۔میں نے سیاست کبھی نہیں پڑھی ۔۔مجھے سیاست کا کچھ پتہ نہیں ۔۔میرے سامنے ایک سیاسی لیڈر اپنے کارکنوں کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔۔میں اس کی باتیں سننے کا انتظار کر رہا ۔۔میں سورچ رہا تھا کہ آپ کہیں گے کہ’’ میں آپ کا بیٹا ہوں ۔۔ مجھے ووٹ نہیں آپ کی دعا چاہیے مجھ سے اللہ آپ کی خدمت کرائے ۔۔میرے رب نے مجھے بہت کچھ دیا ہے ۔۔مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔۔مجھے کسی چیز کی کوئی لالچ نہیں ۔۔میں آپ کی خدمت کے لئے میدان میں آیا ہوں ۔۔تمہارے گاؤں میں میرے کوئی ووٹ نہیں مگر مجھے یقین ہے ۔۔کہ تمہاری دعائیں میرے ساتھ ہیں ۔۔‘‘ لیکن میرے محبوب لیڈر کے منہ سے ایسی کوئی بات نہیں نکلی ۔۔وہی سطحی سی باتیں ۔۔۔وہی ووٹ کا شکوہ ۔۔وہی حمایت کا گلہ ۔۔وہی لیڈروں پہ تنقید ۔۔یہ تو ہر کوئی کہتا ہے ۔۔میرا دل شیشے کی طرح ٹوٹ گیا ۔۔میں کرچی کرچی ہوگیا ۔۔میں نے ہمت کی اورکہا ’’کہ سر جی یہ آپ کا ایٹیچوٹ بدل کیوں گیا ہے ؟۔۔۔چھڈ یار کیا ایٹیچیوٹ ۔۔۔خیر میں نے کبھی سیاست نہیں پڑھی ۔۔اور شاید مجھے عظیم سیاست دانوں کے بارے میں خواب دیکھنے میں غلطی ہوتی ہے ۔۔میں سیاست کی دنیا کا ایک ان پڑھ فرد ہوں ۔۔لیکن مجھے اس نوجوان سے پیار ہے ۔۔اور گلہ اس بات کا ہے کہ اس کی سیاست سے اسلام کی خوشبو آنے کے بجائے مغربی سیاست کی بو کیو ں آتی ہے ۔۔میں نے سوچا کہ میں تو کم از کم ان سے کچھ نہیں مانگتا ہوں ۔۔البتہ ان کی ذات میں ایک مخلص لیڈر کی جو صلاحیت ہے وہ پنپتی کیوں نہیں ۔۔ اس کو پنپنا چاہیے ۔۔اس کو ترقی کرنا چاہیے ۔۔اس کو ووٹ پڑیں نا پڑیں اس کا جذ بہ ٹھنڈا نہیں پڑنا چاہیے ۔۔اس کی زبان نرم شگفتہ اور پر خلوص ہونا چاہیے ۔۔اس کی پیشانی میں خدمت کا جھومر چمکتا رہے ۔۔اس کی آنکھوں میں محبت کا نور ہو ۔۔اس کے لہجے میں بلا کی کشش ہو ۔۔لوگ خود بخود اس کی طرف کیچے چلے آئیں گے ۔۔۔مجھے سیاست بلکل نہیں آتی ۔۔البتہ مجھے یہ حق ہے کہ میں کسی سے پیار کرسکوں اور جس سے پیار کروں اس سے شکوہ بھی کروں یہ پیار کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button