بلاگز

بیٹی ۔۔۔ اللہ کی رحمت

تاشمین ہنزائی

اللّه نے بیٹی کو نعمت بنا کے بھیجا ۔ ایک عورت کی زندگی گزارنا خوش قسمتی ہے اور اسی زندگی کو گزارنا سب سے مشکل کام ہے ۔ کہتے ہیں لڑکا اور لڑکی کو برابر سمجھا جائے پر اس معاشرے میں کبھی ایسا ہوا ہے کیا ؟ افسوس کے ساتھ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو برابر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ یہ اس لڑکی کے خیالات ہیں جسکو ایک لڑکی ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے اللّه تبارک و تعالیٰ کی نعمت اس دنیا میں جب پیدا ہوئی اسکی ماں اور اسکا باپ خوش ہوئے پر وہ معاشرہ جہاں وہ پیدا ہوئی وہ بہت رویا اور اس معاشرے میں وہی لوگ رویے جو خود عورتیں تھیں ۔ اترے چہرے ، دکھ بھری نگاہیں ،دل کو لگنے والی تیر سے تیز الفاظ ۔۔۔ کیا لڑکی پیدا ہونا غلطی ہے اس معاشرے میں ؟ ہاں بےشک اس دور کی ایک اچھائی یہ ہے کہ ایک لڑکی کو آج کل بہت اچھی نگاھوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ پر اس بیٹی کا کیا جو دوسرے میں جاتی ہے ؟ سب سے عزیز اور سب سے زیادہ پیار دینے والے والدین سے جدا ہو کے کسی اور کے ہاں جانا سب سے عظیم قربانی ہے ۔ اپنے احباب کو چھوڈ کے جب غیر کے ہاں جاتی ہے تو اسکو نہ جانے کیا کیا سہنا پڑتا ہے ۔ اپنے گھر والوں سے دور جا کے کسی اور کے گھر جا کے اسے آباد رکھنا ، گھر والوں کا خیال رکھنا ، انکو کھانا کھلانا ، جائیداد کی دیکھ بال کرنا یہ سب اسکے ذمے میں ہیں ۔ پر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اسکے ساتھ برا برتاؤ کیا جائے تو وہ کس کے ہاں جائے ؟ کیا وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی جائے ؟ یہ تو ممکن نہیں کیونکی وہ اپنے ساس اور سسر کی بیٹی ہے ؟ کیا وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی اور گھر چلی جائے ؟ نہیں پھر وہ بری عورت سمجھی جائے گی ۔ جائے تو کہاں جائے ؟ شوہر پہ یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کا خیال رکھے ۔ شوہر ہی وہ فرد ہے جس کے ساتھ وہ زندگی گزارنے کا وعدہ کرتی ہے اور اپنے آپکو اسکے لئے قرباں کر دیتی ہے ۔۔ کچھ معاشرے ایسے ہیں جہاں پہ شوہر اپنی بیوی کا خیال رکھے تو اسکی بیوی کا غلام سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا بیوی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسکا شوہر اسکی دیکھ بال کرے ؟ کیا اسکو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنا سکھ دکھ بانٹے ؟ ہم کسطرح کی سوچ رکھتے ہیں مجھے کبھی کبھی تعجب ہوتا ہے ۔ ساس جو لفظ ہے اسکی ایک بری تصویر میرے ذہین میں ہے ۔ بہت اچھے ساس بھی دیکھیں بہت برے ساس بھی دیکھیں ہیں ۔ جب بہو ماں بنتی ہے تو اسکے ساتھ دو طریقوں سے برتاؤ کیا جاتا ہے ۔ ایک یہ کہ جب وہ بیٹا پیدا کرے دوسرا یہ کہ جب وہ بیٹی پیدا کرے ۔ کیا بیٹا بیٹی پیدا کرنا والدین کی بس کی بات ہے ؟ بلکل بھی نہیں ۔ یہ اللّه کی طرف سے ایک مقرر کردہ حکم ہے ۔ چلیں بات کرتے ہیں اس بہو کی جسکی بیٹی پیدا ہوتی ہے ۔ گھر میں اللّه نے بیٹی کی شکل میں نعمت بھیجی ، پراس نعمت کو ٹھکرا کر اپنا چہرہ ایسا بنانا جیسے کی گھر میں پیدائش نہیں بلکی کوئی موت واقع ہوئی ہو ! اکثر گھروں میں ساس اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اسکا رویہ بدل جاتا ہے ۔ اس ساس کو یہ یاد نہیں کہ وہ خود بھی بیٹی پیدا ہوئی، وہ یہ یاد کیوں نہیں رکھتی کہ اسکی بیٹی بھی کسی کے گھر بہو بن کے جائے گی اور وہ بھی ماں بنے گی !! مگر ان سب کے باوجود کسی اور کی بیٹی کے ساتھ برا برتاؤ کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ کیا خدا نے فرمایا ہے کہ بہو کے ساتھ برا سلوک کرو ؟ معاشرے میں یہ بہت ہوتا ہے ہم پورے معاشرے کو بدل نہیں سکتے پر اپنے ذہن کو بدل سکتے ہیں ۔ بہو آپکی بیٹی ہی ہے جو آپکو والدین سمجھتی ہے ، آپکو امی اور ابا کہتی ہے ۔ وہ آپکو اپنا مان کر آپکے ساتھ رہتی ہے تو اسکے ساتھ برا برتاؤ نہ کرنا ۔ وہ اپنی مرضی سے بیٹی پیدا نہیں کرتی ، گھر میں لڑکی کے پیدا ہونے پے شکر گزاری کرو کیونکی اللّه کی نعمتیں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔ اپنی بہو کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکی وہ آپکی بیٹی ہے ، اگر نہیں تو اپنی بیٹی کا کیا کرو گے جب اسکے ساتھ یہ برتاؤ کیا جائے گا ؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button