کالمز

پاک امریکہ تعلقات اور ہماری کوتا ہیاں 

تحریر: محمد صابر

پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ سے ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔ مختلف ادوار میں ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں ۔ پاکستان کی خا رجہ پالیسی ترتیب دیتے ہوئے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ ہی سر فہرست ر کھا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے با ہمی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے طویل المعیاد پالیسی ترتیب دی جاتی رہی ہے۔ امریکہ پاکستان بننے سے لیکر اب تک مختلف مواقع میں پاکستان کی مدد کرتا چلاآیا ہے۔ امریکہ کی پاکستانی سیاست میں داخل اندازی بھی سبھی کو پتہ ہے۔پاکستانی سیاست میں امریکی اثرورسوخ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ پاکستا ن کی سیاستدانوں کے مستقبل کا فیصلہ اکثر و بیشتر وائٹ ہاؤس میں ہوتا رہاہے ۔ پاکستا ن کے بارے میں امریکہ کی دلچسپی بھی واضح ہے ۔پاکستان کا جغرافیالی لحاظ سے اہم ترین جگہ واقع ہونا چین ، افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہمارے سر حدات کا ملنا۔ امریکہ کی جنوبی ایشیاء تک رسائی اور چین کی

بڑ ھتی ہوئی اثر ورسو خ کو جنو بی ایشیا ء میں رہتے ہو ئے ٹٹو لنے اور محدود کرنے کیلئے پاک امریکہ تعلقات امریکہ کے حق اور مفاد میں ہے۔ مگر اس کہانی میں برا وقت اورموڑ اس وقت آیا جب مشرف دور میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امر یکہ کو یہ جواز حا صل ہوگیاکہ وہ افغانستان پر حملہ کردے ۔ جس کیلئے افغانستان کے پڑ وسی ملک پا کستان کو استعمال کیا گیا ۔ چونکہ افغانستان میں اس وقت موجودہ افغان طا لبان کی حکومت کو حکومت پاکستان قبول کرچکی تھی ۔اس حوالے سے افغان طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا گویا ہمارے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھی۔ بہر حال اس نازک موڑ پر مشرف نے طالبان سمیت افغانستان میں جتنے بھی جنگوؤں اور مسلح گروپ تھے ان کے خلاف امریکہ کو افغانستا ن تک رسائی دینے کی حامی بھر لی ۔ اس فیصلے کے نہایت بھانک نتائج برآمد ہوئے۔ افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور افراتفری کی لہر نے پاکستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ۔ جس کے نتیجے میں پڑوس ملک میں پہلے سے جاری آگ نے پاکستان کو اپنے قابومیں لے لیا۔ ہزاروں لاکھوں بے قصور پاکستانی اس کی ذد میں آکر ہلاک ہو گئے پاکستان کئی سالوں تک انتشار کاشکار رہا۔ افواج پاکستان نے بے تحاشا قربا نیاں دی ہم نے اپنے ملک کو داؤ پر لگایا ۔ بال�آخر یہ تمام قربانیاں اور تمام حدیں پار کرنے کے با وجود آج بھی امریکہ کی جانب سے ڈو مور کا مطالبہ کسی مضہکہ خیز بات سے کم نہیں کیو نکہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی یہ تو امریکی مفادات کی جنگ تھی اور ہے۔۔۔لیکن پھر بھی پاکستان نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا ۔ پاکستان کے کردار کو امریکی حکومت کئی دفعہ سرا ہتی بھی آئی ہے، مگر چند موقعوں پر پاکستان کے خلا ف زہر بھی ا گلا گیا ۔ اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو سخت الفاظ میں تنبہہ اور ڈومو ر کی گونچ پھر سے نسائی دی۔

شاید میں ان چند لکھاریوں میں سے تھا جس نے ٹرمپ کو پاکستان کے لیے بہتر قرار دیتا آیامیں نے ٹرمپ کا خیر مقدم کیا تھا ٹرمپ ایک محب وطن شخص ہے جو کہ دوست دشمن میں فرق ضرور کر ینگے ۔ امریکہ اور پاکستان کے باہم مفادات کو جان سکیں گے ۔ لیکن میں نے ایک شرط کی بنا پر یہ بات کہی تھی کہ اس کیلئے ضروری ہے ہماری خا رجہ پالیسی نہایت واضح اور جاندار ہو؟سابق نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چا ر سال وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا۔ جس کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی تباہ و بر باد ہوکر رہ گئی۔ ہمارے سابق وزیر اعظم کے لیے ریا ض سمٹ ایک زبردست موقع تھا کہ پاکستانی قیادت ٹرمپ سے ریا ض میں ملاقات کرتی اور پاکستان اور امر یکہ کی تعلقات پر بات چیت کی جاتی پاک امریکہ تعلقات کے فروغ میں مستقبل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دی جاتی مگر کاش کہ ایسا ہوتا ۔۔۔پاک امریکہ تعلقات کی خرابی اور پیدا شدہ خلا اور دوری کا فائدہ ہمارے دشمن ملک بھارت نے اٹھایا۔ مودی نے ریاض سمٹ کے چند ماہ بعد امریکہ کا سرکار ی دورہ کیا ۔اس دورے میں مودی نے ٹر مپ کو قائل کیا کہ پاکستان ایک دہشتگرد ملک ہے۔ پا کستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں ۔ لشکر طیبہ ، حزب المجا ہدین ،حافظ سید احمد، مولانا مسعود اظہر امریکہ اور بھارت کے دشمن ہیں ۔ آج ٹرمپ جو زبان پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔ دراصل یہ ان کی اپنی زبان نہیں بلکہ مودی کی زبان بول رہے ہیں ۔موجودہ صورت حال کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوتے ہی فل الفور ہمیں اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔مگر بدقسمتی سے ہماری قیادت سفارتی سطح پر ناکام ثابت ہوئی کافی دیر کردی ۔انڈین لابی ہم سے جیت گئی اور ہم ہار گئے ۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہے تھا مودی سے قبل ٹرمپ سے ملاقات کرتے اور انہیں قائل کرتے کہ افغان جنگ میں ہماری قربانیاں سب سے زیادہ ہیں ہم نے اپنا سب کچھ کھودیا۔ ہم اپنی آخری حد تک امریکی مفادات کے خا طر گئے کہ پھر وہاں سے مڑناہمارے لیے مشکل ہو گیاہماری معیشت تبا ہ و برباد ہوگئی ہمارے شہری مارے گئے وغیرہ۔۔۔ افسوس یہ ایک ایسا موقع تھا جو ہم نے گنوا دیا پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر ،مگر اس موقع سے ہم فائدہ اٹھانہ سکیں جبکہ بھا رت نے کھل کر فائدہ اٹھا یا کیونکہ بھارت کے مد مقابل اپنے مفادات کے لیے کھل کرپاکستان کے خلاف لابنگ کرنے کے لیے کوئی نہ تھا۔ہماری بے حسی اور کوتاہیوں کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات آج تاریخ کے سب سے بد ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ سیاسی ،عسکری قیادت ہمارے سفارت کار سب ملکر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ارسرنو ترتیب دیں اورپاک امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تگ و دو کریں ۔ وگرنہ اگر یہ خلا پر نہ ہوا اسی طرح رہ گیا تو ہمارازلی ا دشمن پاک امریکہ تعلقات کی سردمہری سے کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button