بلاگز

 ’’گاؤں میں عید ہے ‘‘۔۔وطن کے محافظ کے نام

عمیر کے کپڑے بالکل بدن پہ موزون ٹھہرے ہیں ۔۔بہت خوش ہے ۔۔اس کے جوتے بہت خوبصورت ہیں۔۔ سفید ٹوپی اس کے سر پہ بہت سجی۔ مجھے تم یاد آئے۔ تمہارا دلہا بننا یاد آیا ۔۔ عمیربلکل تم پہ گیا ہے ۔۔شگوفہ اپنے کپڑے پہن کر بالکل آسمان سے اُتری ہوئی شہزادی بن گئی ۔۔میں نے آپ کی بھیجی ہوئی عیدی ان کو دے دی ۔۔انھوں نے اپنے لئے کچھ خریدنے کا کہا۔۔ مگر یکدم شگوفہ افسردہ ہو گئی ۔۔اس کا گلاب چہرہ مرجھاگیا ۔اسکے ہونٹ خشک ہو گئے ۔۔کوئی چیخ سی اس کے گلے میں آکر پھنس گئی ۔۔اس کی انکھوں میں تیرتا ہوا آنسو اس کے پلکوں پہ آگیا ۔میں نے دیکھا کہ اس قطرہ اشک میں ایک شکستہ آرزو ابھرتی ہے ا ور ڈوبتی ہے ۔۔محرومی کی جنگ ہے جو اس کے اندر جاری ہے ۔۔پورا ماحول افسردہ ہوتا ہے ۔۔عمیر شگوفہ کی آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے ۔۔اس کے چہرے پر بھی افسردگی پھیل جاتی ہے ۔۔اپنی ٹوپی سر سے اتار کے میز پہ رکھتا ہے اور میرے گلے لگ کے کہتا ہے ۔۔’’ امی ابو چھوٹی عید پہ بھی نہیں آئے تھے ‘‘میں ٹوٹ جاتی ہوں ۔۔شگوفہ کی آنکھوں سے انسو گرتے ہیں ۔میں اس کو سمجھا نہیں سکتی ہوں ۔۔میں کسیے سمجھاؤں کہ اس خاک پاک کی حفاظت فرض بھی ہے ا ور قرض بھی ہے۔ لوگ ۔۔کہتے۔۔ ہیں۔۔کہ ۔۔ کل ۔۔گاؤں ۔۔میں ۔۔عید ۔۔ہے ۔۔تم کیسے ہو ؟؟۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تیرے ہاتھ میں جو بندوق ہے وہ ایک شیر کے ہاتھ میں ہے ۔۔اور شیر کچھار میں ہے ۔۔اور غضب ہے کہ شیر کی آنکھیں شاہین کی ہیں جگر چیتے کا ہے ۔۔خالق کی خلاقیت دیکھو ۔۔آنکھ شاہین کی ۔۔جگر چیتے کا ۔۔رگوں میں دوڑنے والا خون شیر کا ۔۔مگر دل ۔۔تم میری زندگی ہو ۔۔سچ سچ بتاؤ ۔۔تمہارے دل میں شگوفہ اور عمیر کے علاوہ ۔۔۔میں ۔۔۔میں بھی ہوں نا ۔۔۔یہ عید کی رات ہے ۔۔مجھے پتہ ہے ۔۔کل عید ہوگی۔۔ گاؤں میں عید ہوگی ۔۔سارے بچے اپنے اپنے ابو سے عیدی لیں گے ۔۔میں نے بھی آپ کے بھیجی ہوئی عیدی شگوہ اور عمیر کو دی ہے ۔۔سب میرے ساتھی اپنے اپنے جیون ساتھیوں کو عید کے لئے تیار ہوتے اور گھروں سے نکلتے دیکھیں گی ۔۔لیکن میں ۔۔۔مجھے پتہ ہے ۔۔کہ میری آنکھیں تجھے ڈھونڈیں گی ۔۔صرف تجھے ۔۔میری ’’زندگی ‘‘۔۔کوشش کروں گی کہ شگوفہ اور عمیر کی اکھیوں سے افسردگی دور کروں ۔۔تم تو جاگ رہے ہو نا۔۔خوب جاگاکرو ۔۔دیکھو سارے لوگ سو رہے ہیں ۔۔مزے سے سو رہے ہیں ۔۔تمہیں جاگنا ہوگا ۔۔ٍکیونکہ تماری آنکھوں سے نیند اڑ کر ان کی آنکھوں میں آگئی ہے ۔۔زندہ قوموں کے محافظ سویا نہیں کرتے ۔۔جاگنا ہماری پہچان ہے۔۔ میری جان ۔۔۔تماری آنکھوں میں جو غیرت کی چمک ہے وہ کل عمیر کی آنکھوں میں اتر آئے گی ۔۔اب شگوفہ سوئی ہوئی ہے ۔۔یہ لو عمیر بھی سو گیا ۔۔میں نہیں سوؤنگی ۔۔میں کیوں سوؤں ۔۔’’میری زندگی‘‘ جاگ رہا ہے ۔۔کل گاؤں میں عید ہے ۔تم اپنے مورچے میں ہو ۔۔تمہارا خوبصورت چہرہ دشمن کی طرف ہے ۔۔تمارے گداز ہاتھوں میں اہینی بندوق ہے ۔۔بندوق میں گولی ۔۔گولی میں غیرت ۔۔۔تمہارے خوبصورت پاؤں میں لمبے لمبے مضبوط جوتے ہیں ۔۔جوتے تنگ تو نہیں میری’’ زندگی‘‘ ۔۔جب گھر آوگے تو میں یہ پاوءں اپنے دل پہ رکھ کر چوم لونگی ۔۔تمہارے سرہانے پتھر تو نہیں ۔۔پتھر پہ سر رکھو گے تو یہ سخت ہے نیند نہیں آئے گی اور تم خاک پاک پہ پل پل جاگنے کا حق ادا کرو گے۔۔لیکن تمہارے سرہانے میرا بازو ہوا کرتا تھا ۔۔یہ پتھر میرے بازو سے قیمتی ہے میری’’ زندگی‘‘ ۔۔جب گھر آؤ تو میرے بازو پہ سر رکھنا ۔۔گہری نیند کی آغوش میں چلے جا نا ۔۔پھر خواب دیکھا کرنا ۔۔اس پاک دھرتی کی ترقی اور خوشحالی کا خواب ۔۔کل کو عمیر اس کا بڑا زمہ دار ہوگا ۔۔بڑا فیسر ۔۔میری ’’زندگی‘‘ تمہارے پاؤں کے نیچے کی مٹی تمہاری غیرت کی گواہی دے گی ۔۔کل گاوں میں عید ہے ۔۔سبوں کے بچے سبوں کے ساتھ ہونگے ۔۔لیکن تیرے بچوں کے ساتھ تیرا خواب ہوگا ۔۔سچا اور سہانا خواب ۔۔تو اس پاک دھرتی کا محافظ ہے ۔۔یہ لو تمہاری طرف دشمن کی منحوس سنسناتی ہوئی گولی آرہی ہے ۔۔تو چونک گیا ہے ۔۔تمہارے ہاتھ اپنی بندوق پہ اور مضبوط ہوگئے ہیں ۔۔تو اپنی شگوفہ اور عمیر کو بھول گیا ہے ۔۔وطن کی مٹی سے تمہاری قربانی اور خلوص کی خوشبو آرہی ہے ۔۔میری جان ۔۔اپنی بندوق مضبوطی سے پکڑو ۔۔تمہاری شگوفہ اور عمیر مزے کی نیند سو رہے ہیں ۔۔دشمن کی بندوق کو خاموش ہونا چاہیے۔۔ کہیں شگوفہ نیند سے جاگ نہ جائے ۔۔کل گاؤں میں عید ہے ۔۔اس کو سویرے جاگنا ہے ۔۔۔یہاں پہ سب اطمنان سے سو رہے ہیں کیونکہ تمہاری آنکھوں کی نیند اڑ کر سب کی آنکھوں میں آرام کے لئے آگئی ہے ۔۔یہ اطمنان کی نیند تیرا دیا ہوا تخفہ ہے ۔۔میں نہیں سوونگی میں ایک ’’محافظ ‘‘کی آبرو ہوں ۔۔میری’’ زندگی‘‘ پاک وطن کی سرحد پہ جاگ رہا ہے ۔۔یہ میری محبت اور وفا کی توہین ہے ۔۔میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر دشمن کی پہلی گولی آکر میرے ’’جاوید ‘‘کے سینے میں لگے گی۔۔تو دوسری گولی میرے سینے میں لگے گی کیونکہ میں ایک غیرت مندقوم کا فرد ہوں ۔۔۔ کل گاوں میں عید ہے ۔۔یہ عید اس لئے ممکن ہے کہ تو نے اس قوم کو خوشیوں اور اطمنان سے نوازا ہے ۔۔تو اپنی شگوفہ اور عمیر کے صدقے اطمنان رکھ ۔۔کہ ترے بچے خوش ہیں ۔ان کی آنکھوں میں اطمنان کی چمک ہے ۔ان کو اس بات پہ فخر ہے کہ ان کا ابو اس مٹی کا محافظ ہے ۔عمیر اور شگوفے کے کپڑے ان کے بدن پہ فٹ آئے ہیں ۔وہ خوش ہیں ۔۔ گاوں میں عید ہے۔۔ مجھے سویرے جاگنا ہے۔۔۔ اب میں سو رہی ہوں ۔۔میرے خوابوں میں ضرور آنا ۔۔ ۔۔مجھے اپنی باہوں میں لینا ۔۔۔میں تمہاری پیشانی چومنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button