بلاگز

چھرے والی بندوق کا استعمال صرف کشمیر میں کیوں ؟

ڈاکٹر اعزاز احسن

ظلم کی سیاہ رات بہت تاریک تو ضرور ہوتی ہے لیکن سحر بہت روشن ہوتی ہے ۔کشمیر میں ظلم کی سیاہ رات کے گہرے سائے ہیں لیکن آزادی کی سحر قریب ہے ۔بھارتی فوج ظلم کے تمام حربے آزما کر تھک چکی ہے لیکن کشمیریوں کے جذبے سرد ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔کشمیر میں بھارتی مظالم کی داستانیں انسانیت کے لئے باعث شرم ہیں ۔کشمیر میں کوئی گاوں ایسا نہیں جہاں کے باسی بھارتی درندوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار نہ ہوئے ہوں،کشمیری نوجوان برہان وانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزادی کی منزل کی طرف رواں دواں ہیں انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ یہ راستہ مشکلوں سے بھرا ہے ،اس راستے میں شہادت بھی ہے ،جیل بھی ہے ،ماں بہنوں کی بھارتی درندوں کے ہاتھوں عصمت دری بھی ہے ،زندگی بھر کیلئے بینائی سے محروم کرنے والے چھرے بھی ہیں لیکن کشمیری نوجوان جان چکے ہیں کہ ان تمام صعوبتوں کے بعد ہی آزادی کی روشن صبح کی کرنیں کشمیر کی جنت نظیر وادیوں میں چار سو روشنیاں بکھیریں گی ۔کشمیر میں انسانیت سوزمظالم پر انسانی حقوق کے ادارے آواز تو بلند کرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ سکیو لرزم کا دعوی کرنے والے بھارتی حکمرانوں کے دلوں میں انسیانیت کی رمق بھی باقی نہیں اگر تھوڑی سے بھی انسانی رمق باقی ہوتی تو بھارتی فوج کو کشمیر میں مظالم کی اجازت نہ دیتے۔پوری دنیا چھرے والی بندوقوں کے استعمال پر چیخ رہی ہے لیکن بھارت ٹس سے مس نہیں ،ان چھرے سے نوجوان عمر بھر کیلئے بینائی سے محروم ہوئے ہیں ،گذشتہ برس مسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے حکام نے چھروں والی بندوق کا اس قدر استعمال کیا کہ چھرے اور چھروں سے زخمی آنکھیں کشمیری حالات کا تازہ حوالہ بن چکے ہیں۔حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں چھرّوں سے زخمی ہونے والے 88 متاثرین کا ذکر ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انڈین فوج کے اس آپریشن میں سینکڑوں افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 14 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ایمنسٹی کے انڈیا میں نمائندہ آکار پٹیل کہتے ہیں کہ انڈیا کی مختلف ریاستوں مِیں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن چھروں کی بندوق صرف کشمیرکے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ دوسری جگہوں پر بھی چھروں کا استعمال کیا جائے تو مسئلہ حل ہوگا، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائد کی جائے اور ہجوم سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظام کیا جائے۔‘رپورٹ کی تقریب رونمائی کے موقعے پر بعض متاثرین نے بتایا کہ انھیں آج بھی حیرت ہے کہ انھیں چھرے کیسے لگے کیونکہ وہ احتجاج کا حصہ نہیں تھے۔پلوامہ کی پندرہ سالہ افرا نے بتایا کہ ’باہر شور تھا، لوگ احتجاج کر رہے تھے، میں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے نکلی تو فورسز نے دیکھتے ہی مجھ پر چھرے برسائے۔‘ان کا کہنا ہے کہ وہ اُس وقت آٹھویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھیں، اور بعد میں آنکھیں متاثر ہونے کی وجہ سے وہ امتحان میں شرکت نہیں کر سکیں۔نعيم اختر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جس طرح عام شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیں۔پلوامہ کے ہی منظور احمد کہتے ہیں کہ آنکھوں میں چھرے لگنے کے بعد انھیں تین آپریشنوں کے لیے ایک لاکھ روپے درکار تھے لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔منظور کا کہنا ہے کہ گیارہ ماہ سے وہ مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس اعتراض کو درست سمجھتی ہے کہ چھروں کی بندوق مہلک ہے، لیکن مظاہرین پرامن رہیں تو جانی نقصان نہیں ہو گا۔ حکومت آج کل ایسے متاثرین کی فہرست بھی مرتب کررہی ہے۔حکمران جماعت کے رہنما اور سرکاری ترجمان وحید الرحمان پرہ کے مطابق فی الوقت حکومت ان تمام افراد کی فہرست مرتب کررہی ہے جو چھروں سے متاثر ہیں۔تاہم وہ کہتے ہیں ’لوگوں کو بھی سوچنا ہے۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو چھرے اُن حالات میں استعمال کیے گئے جب پرتشدد مظاہرے فورسز کے بالکل قریب گئے۔ لوگ اگر پرامن مظاہرے کریں تو مہلک یا غیر مہلک کا سوال ہی نہیں، ہتھیار ہی کیوں استعمال ہو۔‘انڈیا کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کئی بار یہ وعدہ کر چکے ہیں اعلیٰ سطح کی کمیٹی چھروں والی بندوق کے متبادل سے متعلق رپورٹ تیار کر رہی ہے لیکن سیاسی حلقوں کے اعتراض کے باوجود فورسز حکام نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ کشمیر میں ہجوم سے نمٹنے کے لیے چھروں کی بندوق کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

اگر بھارتی درندوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے چھروں کی بندوق استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تو سوال یہ ہے کہ بھارت میں پر تشدد ہجوم کیا صرف کشمیر میں ہی ہوتے ہیں بھارت میں آزادی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں آئے روز ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے ہوتے ہیں کیا کشمیر کے علاوہ کسی ریاست میں چھرے والی بندوق استعمال ہوئی ہے تو جواب نفی میں ہوگا ۔کشمیر میں امتیازی سلوک سے بھارت کی مسلم دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے ،بھارت کا یہ جواز کوئی معنی نہیں رکھتا کہ پر تشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے چھرے والی بندوق کا استعمال ضروری ہے اگر ضروری ہے تو دوسری ریاستوں میں پر تشدد ہجوم کو روکنے کے لئے چھرے والی بندوق استعمال کیوں نہیں کی گئی ،یہ امتیازی اور انسانیت دشمن سلوک کشمیریوں کے خلاف اس لئے ہے کہ ایک تو وہ آزادی مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف کشمیری مسلمان ہیں بھارت کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں انتہا پسندی کی آخری حدوں کو بھارت چھو رہا ہے لیکن پھر بھی دعوی کر رہا ہے کہ وہ سیکو لر ملک ہے ،بھارت جتنا بھی جھوٹ بولے اور جتنے بھی مظالم ڈھائے کشمیری تو آزادی لے کر رہیں گے انشا اللہ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button