بلاگزسیاحت

محمد ذاکر خان ہنزائی کی یورپ بیتی- آخری قسط

سردیوں کے موسم میں وہاں خون جما دینے والی سردی پڑتی ہے۔ ویانا میں تو سورج کے درشن بھی کئی کئی روز نہیں ہوتے ۔سردی سے بچنے کیلئے میں ایک بنیان ، دو قمیضیں ،دو سوئٹراور ایک جیکٹ پہنتا تھا۔ نیچے ایک پورے سائز کا زیر جامہ اور پتلون زیب تن کرتا تھا۔ جوتوں کے ساتھ دو گرم جرابیں بھی پہننی پڑتی تھیں۔اس کے باوجود یخ بستہ ہوا جسم کے آر پار ہو جاتی تھی۔اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے کافی وغیرہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا تھا۔اخبار بیچ کر رات کو بغلوں میں ہاتھ دئے جب گھر پہنچتا تودانت بج رہے ہوتے۔ ہاتھ پاؤں سن ہو جاتے۔کپڑے بدل کر بستر میں گھس جاتا لیکن پاؤں صبح تک گرم نہ ہو پاتے۔

جن حالات میں ہم وہاں رہ رہے تھے، تفریح کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ہمارا زیادہ وقت روٹی کمانے کیلئے کی جانے والی بھاگ دوڑ میں صرف ہو جاتا تھا۔جو وقت بچتاتھا اس میں ڈائجسٹ پڑھ لیتے یا مطالعہ کے لئے نئے پرانے رسالے، کتابیں جو بھی مل جاتے پڑھ لیتے۔ایک روز معلوم ہوا کہیں اردو فلم دکھائی جا رہی ہے، پتہ ڈھونڈھ کر پہنچے تو انڈین فلم سیتا اور گیتا دیکھنے کو ملی۔

رہائش شروع میں تو بھا جلیل کے کمرے میں رہی۔ بعد میں جب سعید نے ہماری بھابھی کو بلوا لیا تو جلیل کے علاوہ سب لوگ دوسری جگہوں پر منتقل ہو گئے۔میں اور مفتی اسی سڑک پر ذرا آگے چلے گئے۔مفتی نے کسی مقامی کو دوست بنا لیا تھا ۔ اسی نے ایک کمرہ دلوادیاتھا۔

اپنے دوستوں کے ساتھ

سعید نے ڈینیوب پارک میں پکنک کا پروگرام بنا لیا۔مفتی کے علاوہ ہم سب کووہاں لے گیا۔ ہماری بھا بھی بھی ہمراہ تھیں۔کچھ تصویریں اتاری گئیں ، پارک کے وسط میں واقع مینار نما گھومنے والے ریستوان میں کافی پی اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ مفتی اور سعید میں کسی بات پر ٹھن گئی۔سعید نے مجھے فوراً مفتی سے علیحدہ ہونیکا حکم دے دیا۔ وہ مجھے ایک جاننے والے کی وساطت سے ایک دوسرے پاکستانی اورنگزیب خان درانی کے ہاں لے گیا۔اورنگزیب کافی عرصہ سے ویانا میں مقیم تھا اور ورک پرمٹ پر ایک موٹر ورکشاپ میں کام کر رہا تھا۔اورنگزیب سے بات ہوئی اور وہ اپنے گھر میں مجھے ساتھ رکھنے پر تیار ہو گیا۔

درانی (میں اسے اسی نام سے پکارتا تھا) ایک بہت نفیس اور خوبصورت انسان تھا۔بہت مخلص، بہت محبت کرنے والا ۔میں اس کے پاس آ گیا اس کے ساتھ رہنے کے لئے۔وہ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹا اور غیر شادی شدہ تھا۔اس کا گھر بھی ساتھ ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا تھا۔درانی اداکار اعجازدرانی کاتایازاد بھائی تھا۔ اعجاز درانی کے سگے بھائی فیاض درانی نے یہاں شادی کی ہوئی تھی اور درانی اسی کی وساطت سے ویانا آیا تھا۔

درانی کو موسیقی سے بڑا شغف تھا۔اس کے پاس ریکارڈ پلیئراورانگلش گانوں کے مقبول ریکارڈز تھے۔ درانی کی چھٹی کے دن ہم دونوں موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔ کھانا پکاتے ، چائے کافی پیتے ۔ اخبار تو روزانہ شائع ہوتا تھا اسلئے مجھے شام کو کام پر جانا پڑتا۔درانی کے ساتھ بہت اچھا وقت گذرا۔میں پاکستان لوٹ آیا تو بھی وہ جب کبھی پاکستان آتا مجھ سے ضرور ملتا۔ میں اسکی شادی میں بھی شریک ہوا تھا۔ درانی شادی کے بعد امریکہ چلا گیا پھر اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔

میرا یورپ کا تجربہ اچھا نہیں تھا۔ دراصل ہم بغیر کسی منصوبہ بندی کے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کسی قسم کا ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سوائے دھکے کھا نے کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ ذلیل و خوار ہوئے ۔جو مقصد لے کر نکلے تھے وہ حاصل نہ کر سکے ۔تاہم تجربہ ہوگیا۔ ایک دنیا دیکھ لی۔بصیرت میں وسعت آگئی ۔تنگ نظری کم ہوئی۔گوروں سے بہت کچھ سیکھا اور اپنوں نے بھی بتا دیا کہ سفر اور پردیس میں کون اپنا ہوتا ہے اور کون پرایا۔

میں نے بھا سے کہا کہ وہ میری واپسی کا انتظام کردے۔میری جیب میں کچھ نہیں تھا۔ سعید نے کچھ رقم کا بندوبست کیا ، کچھ درانی نے ملائے اور مجھے استنبول والی گاڑی میں بٹھادیا۔ بھاری دل کے ساتھ ان مخلص دوستوں سے رخصت ہوا۔استنبول پہنچ کر میں نے سوچا جس راستے سے آیا تھا اسکی بجائے ایران کے سرحدی شہر زاہدان سے پاکستان میں داخل ہونگا اور کوئٹہ کے راستے لاہور جاؤنگا۔ اس طرح پیسے اور وقت دونوں بچتے تھے ۔چنانچہ بذریعہ بس زاہدان اور پھر پیدل بارڈر کراس کرکے پاکستان ریلوے کی ٹرین میں کوئٹہ کا ٹکٹ لے کر سوار ہو گیا۔ ٹرین چاہے جیسی بھی تھی ، تھی تو اپنے پیارے ملک کی۔

کوئٹہ سٹیشن پر وطن واپسی کے بعد لی گئی ایک تصویر

کوئٹہ پہنچ کر سیدھا روزنامہ مشرق کے دفتر پہنچ گیا۔ میں روزنامہ مشرق لاہور، کراچی اور اخبارخواتین کراچی میں اکاونٹنٹ رہ چکا تھا۔مشرق کوئٹہ کا جب اجراء ہوا تو زیادہ تر سٹاف لاہور اور کراچی سے آیا تھا۔ پرانے ساتھیوں میں محمد ایوب ناصر اور ذاکرمصطفی فیروز لاہور سے آئے تھے۔ ناصرمینیجر شعبہ اشتہارات کی ذمہ واریاں سنبھالے ہوا تھا جبکہ ذاکر اکاؤنٹنٹ تھا۔ مجھے دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ہاتھوں ہاتھ لیا اور خوب خاطر مدارات کی۔ مجھ سے یورپ کی باتیں پوچھتے رہے۔ میں نے بھی خوب سچ جھوٹ ہانک کر انہیں محظوظ کیا۔

جب واپس آیا تو با لکل خالی ہاتھ تھا۔ایک پھٹا ہوا اٹیچی لایا تھا جس میں استعمال شدہ کپڑے تھے اور کچھ نہیں۔ گھر پہنچا تو سب دیکھ کر حیران رہ گئے۔بچوں نے پوچھا ہمارے لئے کیا لائے تو جھوٹ بول دیا کہ ایک بیگ ایران میں سفر کے دوران گم ہو گیا۔ تمہارے لئے جو کچھ لایا تھا اسی میں تھا۔ دل بہت برا ہوا ۔ کافی دنوں اپنے آپ کو کوستا رہا۔ والد صاحب نے مجھے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔

اب تلاش ہوئی کام کی۔

روزنامہ سن کراچی سے نکلتا تھا ۔ اب اس کا لاہور ایڈیشن بھی شائع ہو رہا تھا۔ایک پرانا اور مخلص دوست ، روزنامہ مشرق لاہور میں میرا سا تھی ،انعام اللہ خان(جواب اس جہان میں نہیں رہا) روزنامہ سن لاہور میں مینیجر شعبہ اشتہارات تعینات ہواتھا۔ اس سے رابطہ کیا تو اس نے بلا لیا اور بتایا کہ سٹی آفس میں میر ے پا س ایک جگہ خالی ہے۔درخواست لیکر سن کے مرکزی دفتر واقع غازی روڈ ، لاہور کینٹ چلے جاؤ اور جنرل مینیجر ادریس صاحب سے میرے حوالے سے مل لو۔ادریس صاحب نے دو ایک سوال کئے اور اسی وقت جائن کرنے کو کہا۔میں نے لوٹ کر سٹی آفس، دیال سنگھ مینشن، مال روڈ لاہور ، میں انعام کو رپورٹ کر دیا۔آفس ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا۔ سامنے ایک بڑی سی میز پر انعام بیٹھتا تھا۔ کونے میں ایک چھوٹی سی میز پڑی تھی۔وہ مجھے دے دی گئی۔ میرے ذمے اشتہارات کے بل بنانا اور مشتہرین کے کھاتے رکھنا تھا۔نوکری مل گئی ، زندگی پھر رواں دواں ہو گئی۔

تازہ ترین تصویر

پاشا بارسیلونا سے بٹ صاحب کے ساتھ ایمسٹرڈیم چلا گیا۔ بعد میں مفتی بھی وہاں نجانے کیسے پہنچ گیا۔ شاید پاشا سے رابطہ کرکے چلا گیاہوگا۔ پاشا کچھ وقت نیدرلینڈ میں گزار کر کینیڈا نکل گیا اور اب بھی وہیں ہے ۔ بعد میں کینیڈا سے لاہور آیا ،شادی کی اور بیوی کو لے کر واپس چلا گیا۔ مفتی نے ہالینڈمیں شادی کرلی اوروہیں کا ہو رہا۔ اپنی بیوی میتھلڈے کو پاکستان لاکر سب سے ملایا بھی۔اس شادی سے اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اب بیوی سے علیحدگی ہو گئی ہے لیکن بقول اس کے بچے اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور بیوی سے بھی راہ ورسم ہے۔ مفتی روزنامہ جنگ میں کالم بھی لکھتا ہے۔ وہ پاکستان آتا رہتا ہے اور اس سے ملاقات رہتی ہے۔ میرے بعد بھا سعید اپنی بیگم کے ساتھ دبئی چلا گیا۔جہاں اس نے اپنی کمپنی بناکر سائن بورڈ بنانے شروع کر دیے۔ ان دنوں شارجہ کا کرکٹ سٹیڈیم نیا نیا بنا تھا۔ کرکٹ میچ شروع ہوئے تو اسے سٹیڈیم میں اور اس کے باہر پبلسٹی بورڈزلگانے کا ٹھیکہ مل گیا ۔ اچھی کمائی ہونے لگی۔خوشحالی کے ساتھ رہنے لگا۔بعد میں اس کی بیوی سخت بیمار ہوکرچل بسی توسعید اپنی لے پالک بیٹی کے ساتھ امریکا چلا گیا۔ پھر خبر ملی کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا۔اللہ مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا۔ (اختتام)

محمد ذاکر خان ہنزائی کی یورپ بیتی ۔۔۔۔۔۔۔ دوسری قسط

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button