کالمز

جب ہم کو اعتبار کی عادت نہیں رہی 

پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی زوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے جنہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ جمہوری نظام کی بنیاد ڈالی اور ان کا دیا ہوا 1973کا آئین پاکستان کے روز و شب کا ضامن بنا ہوا ہے ۔ زوالفقار علی بھٹو کی تاریخ اسے کہیں پر بھی اسلام پسند قرارنہیں دیتی ہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ ہو جو مذہبی حوالوں سے گرفت اور مقام رکھتے ہوں۔ اس کے مقابلے میں غیر اسلامی بیٹھک نسبتاً زیادہ تھی یہ کہانیاں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں کریدنے کی ضرورت نہیں ۔ 1974میں مسئلہ ختم نبوت اٹھ گیا۔ عوام کا سمندر اس مسئلے میں حکومت کے خلاف سڑکوں پر آگئے ۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو ’غیر مسلم‘ اقلیت قراردیا جائے ۔ باوجود اس کے کہ زوالفقار علی بھٹو ’اسلام پسند‘ لیڈر نہیں تھے لیکن عوامی مطالبے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ممکن ہے اس فیصلے سے زوالفقار علی بھٹو زاتی طور پر خوش بھی نہ ہوں لیکن عوامی رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ فیصلہ اٹھالیا۔ جس کے بعد ملکی آئین مذہبی حوالے سے یکسرتبدیل ہوگیا۔

گلگت بلتستان میں عوامی رد عمل تناسب کے لحاظ سے اس رد عمل سے بھی زیادہ ہو کیونکہ حکومتی چھتری تلے کارکنان اور عہدیداران بھی انکم ٹیکس اڈاپٹیشن ایکٹ 2012کے منسوخی پر راضی نظر آرہے ہیں۔مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری و سینئر صوبائی وزیر حاجی محمد اکبر تابان تو یہاں تک کہہ گئے کہ ’اگر ایڈاپٹیشن ایکٹ کو منسوخ کرکے نوٹیفکیشن ہاتھ میں نہیں دیا گیا تو استعفیٰ ہاتھ میں دیدوں گا۔ مشیر اطلاعات شمس میر صاحب کچھ زیادہ جذباتی ہوگئے اور ڈیڈلاک سے قبل ہی فیصلہ سناکر کہہ گئے کہ ہم نے ٹیکس ختم کردیا اور امجد ایڈوکیٹ کے منہ پر مارا ہے ۔

ایسی صورتحال میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت تھی۔ موجودہ صورتحال میں وفاقی حکومت کے ساتھ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے علاوہ کسی دوسرے بندے کا تعلق یا واسطہ نہیں ہے ۔ عوام کسی بھی وزیر پر اعتماد نہیں کررہی ہے اور ان کی نظریں صرف وزیراعلیٰ پر ہیں۔ اس حساس موقع پر وزیراعلیٰ غلطیوں پر غلطیاں دہراتے گئے ۔ ٹیکس تحریک کے شروع ہوتے ہی وزیراعلیٰ کو گلگت میں ہونا چاہئے تھا لیکن وزیراعلیٰ اب تک گلگت نہیں آئے۔ایڈاپٹیشن ایکٹ کے منسوخی کے ممکنہ اثرات سے آگاہی کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنے کی شکل میں موجود تھا ۔ جس شام کو ٹیکس منسوخی پر اتفاق پایا گیا اس سے قبل وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن سمیت ممبران جی بی کونسل ، و عہدیداران صوبائی حکومت پر مشتمل ایک ویڈیو پیکج سوشل میڈیا میں بھیج دیا گیا ۔ وزیراعلیٰ اور تمام عہدیداران و زمہ داران کو یہ باتیں گلگت میں عوام کے پاس بیٹھ کر کرنے کی ضرورت تھی ۔تکنیکی لحاظ سے بھی نقائص سے بھرپور یہ ویڈیو گلگت سے بھی اپلوڈ کی جاسکتی تھی لیکن شاید گلگت میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے وزیراعلیٰ صاحب پوری کابینہ اور دیگر زمہ داران کو لیکر اسلام آباد گئے جہاں پہ ویڈیو بنائی گئی ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ انکم ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012پیپلزپارٹی کے وفاقی حکومت نے متعارف کرایا تھا جبکہ گلگت بلتستان میں بھی حکومت پیپلزپارٹی کی تھی ۔ پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت نے ٹیکسز نافذ کرنے کے لئے بے شک جو بھی شرائط پیش کئے لیکن وہ اس ایکٹ کے متحرکین میں تھے ۔آج کی مشتعل عوام کسی بھی شرط کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی اس عوامی رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ موقف اپناتی ہے کہ یہ ایکٹ ہمارے دور میں بنا توتھا ہم نے نافذ ہونے نہیں دیا اور کونسل کو بائی پاس کرکے وفاقی حکومت نے پاس کیا لہٰذا اس کا خاتمہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی ایکٹ متعارف کرانے کے باوجود اصرار نہیں کررہی ہے ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نا کردہ گناہ کے دفاع میں لگ گئے ۔سوشل میڈیا کا منفی استعمال اس دوران حکومتی سائیڈ سے عروج پر رہا جس نے ہجوم کو بھڑکاؤ کا کام کیا ۔

گلگت میں حکومت کی جانب سے بنی ہوئی کمیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے زمہ داران پر مشتمل کمیٹی کے اس بات پر کہ ’ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012کو مکمل منسوخ کردیا جائیگا ‘ متفق ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران دھرنے کے شرکاء کے حوالے سے مبینہ الزامات بھی غلطیوں کی ایک کڑی تھی ۔ اگر انکم ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012موجودہ تحریک کے نتیجے میں ختم نہیں ہوا تو اس کا نقصان گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی کو نہیں ۔ کیونکہ حکومت اعتراف کرچکی ہے عوامی طاقت کا اور عوامی طاقت کے مقابلے میں زالفقار علی بھٹو ڈھیر ہوتے ہیں تو کوئی دوسرا سینہ کیسے تان سکتا ہے ۔ حکومت کے پاس اس وقت دوسرا راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ متفقہ کمیٹی کے سفارشات کو اپنا موقف قرار دیتے ہوئے ’مشتعل ‘ عوام کے آواز بن جائیں۔ایسا نہ ہوں کہ

پھر اس کی ہر اداسے چھلکنے لگا خلوص

جب ہم کو اعتبار کی عادت نہیں رہی

عوامی ایکشن کمیٹی پر اس سے قبل بھی راقم نے خدشات کااظہار کیا تھا کیونکہ دو دھرنوں میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ جو برا سلوک کیا گیا ہے وہ دھرنا سیاست کا پول کھول کر رکھ دیتی ہے ۔ گندم سبسڈی کی بحالی اور قیمتوں میں کمی کے حوالے سے دئے گئے 12دنوں کے دھرنے کے فوراً بعد احسان ایڈوکیٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی زمہ داری سے سبکدوش ہوگئے تھے ۔ کیوں؟ برملا طور پر انہوں نے مذہبی رہنماؤں کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے ۔ گلگت بلتستان میں ٹیکس کے خاتمے کے لئے اس سے قبل ٹھیکیدار برادری نے موجودہ احتجاج سے بھی بڑا احتجاج کیا تھا لیکن وزیراعلیٰ ہاؤس میں صرف ایک ملاقات کے بعد ہی تشکر کاا شتہار جاری کردیا ۔ اس وقت چند روز قبل ہی معروف سیاسی شخصیت عبدالواحد نے کنٹریکٹر ایسوسی ایشن کے زمہ داران کو بھرے اجلاس میں مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’ٹیکس کے خاتمے کے لئے عوام نے آپ پر بھرپور اعتماد کیا ہے آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ چند ٹھیکوں کے لئے اس تحریک کو دریا برد مت کرنا ‘لیکن ہوا وہی جس خدشے کااظہار کیا گیا تھا۔

عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران گلگت بلتستان 2017سے جاری تحریک کو تحریکی رنگ دینے میں کامیاب ہوگئی اس دفعہ ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہے لیکن یہ گزارشات بھی حقیقت ہیں کہ گلگت بلتستان انتہائی نازک موڑ میں ہے ۔ اپنے موقف کو حرف آخر قرار دینے کی غلطی نہ کریں ۔ گلگت بلتستان میں ایک ایسے ہی احتجاج کو 1974کی تاریخ اپنے صفحات میں درج کرچکی ہے جب ایک ایسا ہی ہجوم رنگ و نسل اور مذہب کے تفریق کے بغیر یک زباں ہوکر ایک مطالبہ کو سامنے رکھا تھا۔ ایسی ہی صورتحال تھی لیکن گلگت سے تعلق رکھنے والے اکیلے ’غلام محمدغون ‘ نے اس مطالبے کی مخالفت کرکے متبادل مطالبہ سامنے رکھا تھا لیکن مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے آڑ میں اس مطالبے کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔ وہ مطالبہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے کے حوالے سے تھا غلام محمد غون نے اس کے خاتمے کی مخالفت کی تھی ۔ آج 40سال کے قریب لوگ اپنے اس فیصلے کو کوس رہے ہیں ۔ اور سیاسی حلقے دبے الفاظ میں بسا اوقات سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کی تحریک ’حق ملکیت و حق حاکمیت ‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔

ٹیکسز کے حوالے سے عوامی رائے کا احترام اپنی جگہ لیکن اس کے مضر اثرات سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس تحریک نے اس حقیقت کو بھی سامنے رکھ دیا کہ گلگت بلتستان سے سالانہ پیدا ہونے والا بجٹ ترقیاتی بجٹ جو کہ غیر ترقیاتی بجٹ سے بہت کم ہوتا ہے کے برابر بھی نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت اور سماجی حلقوں کو وفاق کے کندھوں سے ہٹ کر اپنا ریونیو پیدا کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بندے کا گھر سال بھر بہترین طریقے سے چلتا ہے لیکن وہ ٹیکس دینے کا اہل نہیں ہوتا ۔ گڑھ میں زہر ملانے کے مترادف یہ بات بھی پھیلائی گئی ہے کہ گلگت بلتستان آئندہ کئی سالوں تک ٹیکس دینے کا اہل نہیں ہوسکتا ہے حالانکہ ٹیکس گلگت بلتستان پر لاگو نہیں ہورہا ہے بلکہ لوگوں پر ہورہا ہے جو مختلف مدات میں ماہانہ لاکھوں تک کماتے ہیں۔ اس کی ایک مثال جی بی کی کنٹریکٹر برادری ہے ۔ اسلام آباد میں ماہانہ 40ہزار روپے کمانے والے اور گلگت بلتستان میں ماہانہ 40ہزار روپے کمانے والے میں کیا فرق ہے ؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button