کالمز

(پیغام پاکستان) نیا ریاستی بیانیہ

تحریر :فیض اللہ فراق

جبر تشدد دہشتگردی اورفسادات کو جہاد کا نام دیکر گزشتہ کئی عشروں سے ہزاروں بے گناہوں کے سرکاٹے گئے جبکہ فکری طوری پر منقسم قوم کی تقسیم شدہ افکارنے ریاست کی مرکزیت کو متاثر کیا ،اس ملک کے ستر برس انگنت غیر مندمل زخموں کیساتھ بیت گئے لیکن کل تک قومی وفکری سطح پر ایک ہی قابل قبول بیانیہ کی تشکیل ممکن نہ تھا یہی وجہ تھی کہ اس ملک کے باسی متشدد رویوں کے فروغ میں پیش پیش رہے اسلام کے دلکش نعرے کا جگہ جگہ غلط استعمال ہوا اور معصوم بیگناہ ، بے شعور اور کم علم قوم کے جذبات سے کھیلا گیا دوسری جانب کفر کے فتوے اور جہنم و جنت کے دنیا میں سرٹیفکیٹ بانٹے گئے 1990کی دہائی میں بین الاقوامی سیاست اورعالمی حالات کی تبدیلی میں ہمارے حکمران امریکہ کی تیارکردہ پالیسی کو اپنی بقا کیلئے ناگزیر تصور کرتے رہے جس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے بوجھ تلے ریاست دب گئی اور ہم بین الاقوامی مقروض بن گئے ہماری انانیت اور خودداری عالمی پالیسیوں کا شکار ہوکر رہ گئی اور ہم ڈالروں سے جھولیاں بھرتے رہے امریکہ کے کہنے پر روس کے ٹکڑے کرنے کیلئے جہادی بن کر میدان میں اتر گئے جس کا بیس کیمپ ہم نے خود پاکستان کو بنایا ہم نے اپنے ملک کے کئی مقامات پر جہادی تربیت گاہیں قائم کئے جہاں سے ہزاروں جہادی آفغانستان بھیجتے رہے اس عمل سے جہاد کا بیانیہ منظم مگرمبہم طریقے سے تشکیل ہوا کسی کو یہ فرصت نہ ملی کہ مذکورہ بیاینہ کی تشہیر کرتے ہوئے جہاد کے حقیقی فلسفے سے قوم کو آگاہ کیاجائے بلکہ جہاد کو بھی نظر یہ ضرورت کے تحت پرموٹ کیاگیا ،قرآن مجید میں سینکڑوں آیتیں جہاد کو قائم رکھنے کیلئے نازل ہوئیں ہیں لیکن اسلام وہ واحد مذہب اور نظام ہے جس میں قتال کے قوانین اور شرائط طے ہیں ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی امام ابوحنیفہ ؒ کی پیروکار ہے اور اورجب ہم امام ابو حنیفہ ؒ کے جہادی فلسفے کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے نزدیک اسلامی ریاست میں جہاد کا اختیار ریاست کے پاس ہے اورریاستی فوج جہاد کا ذمہ دار ہے عسکری سربراہ وقت کا سپہ سالار ہوتا ہے اسلامی ریاست میں عوام اپنے سپہ سالار کے حکم پر جہاد کیلئے نکل سکتی ہے ۔جہاد مسلمان پر فرض ہے لیکن اس کے اصول اور دستور بھی واضع ہیں۔اپنی ریاست کیخلاف بندوق اٹھانا،اپنی فوج کو قتل کرنا یا ملک کے بے گناہ شہریوں کو جہاد کے نام پر مارنا اسلام کے نزدیک کسی طور جائز نہیں ہے 1990کی دہائی میں روس کے خلاف مزاحمت ریاسی ضرورت تو ہوسکتی ہے اور اس دور کے حساب سے ناگزیر بھی ہوگی لیکن اپنے ملک کو جہادیوں کے بیس کیمپ بنا کر مجاہدین کا کمک افغانستان بھیجنا جائز نہیں تھا ضرورت اس بات کی تھی کہ اس زمانے کی مذہبی قیادت اس حساس معاملے کو اجاگر کرتی اور قومی شعور کیلئے بروقت متفقہ بیانیہ تشکیل دینے کیلئے دین اسلام کی جہاد کے حوالے سے اصل روح کی تشریح کرتی تاکہ 1990ء سے آج تک اس اندھی جنگ میں ہزاروں بے گناہوں کے سر نہیں کٹتے ،لاکھوں گھرنہیں اجڑتے اور لاکھوں انسان اپاہج بن کر زندگی کی لطف سے عاری نہ ہوتے ملکی معیشت تباہ نہ ہوتی اگر بروقت اسلامی افکار کی روح کو اجاگر کرتے تو ملک کی سیاحت ترقی کرتی ، خوف و ہراس ختم ہوتا اور تمام پاکستانی آسودہ حال زندگی کے ساتھ خوبصورت مستقبل کی تعمیر میں کامیاب ہوتے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا ہماری مذہبی و ملکی قیادت یا تو مصلحتوں کا شکار رہی یا سپر پاور و عالمی مالیاتی اداروں کے زیرعتاب رہی،دیرآید درست آید کے مصداق ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے گزشتہ روز خود کش حملے اور اپنی ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کے عمل کو حرام قراردیتے ہوئے ایک متفقہ بیانیہ مرتب کر کے پیش کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔اس متفقہ بیانیے پر 1829علماء کرام کی دستخط موجود ہیں جبکہ اس نیک کام کو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ ’’ادارہ تحقیقات اسلامی ‘‘نے انجام دیا ہے یہ ایک حقیقی امر ہے کہ ملکی جامعات اور صحافتی اداروں کی بنیادی مقصد اس نوعیت کے کام کرنا ہے ۔اسلامک یونیورسٹی نے اپنا اصل کام کیا ہے جس پر مذکورہ جامعہ بھی تحسین اور داد کی مستحق ہے اب ملک میں دہشت گردی ،فساد،تقسیم اور اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کی کوئی گنجائش نہیں ہے نہ یہ اسلامی ملک اس کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا ہے ملک کی تاریخ میں پہلی بار قومی بیانیہ کا مذہبی قیادت کی جانب سے تشکیل نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے کونے کونے میں اس بیانیے کو منظم اندازمیں پھیلا یا جائے اور شائع شدہ متفقہ فتوی(پیغام پاکستان )کا ملک کے تمام مدارس تک تشہیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ جہاد کے اصل مقصد سے آشنائی ممکن ہو۔ملک کے جید علمائے کرام کا یہ متفقہ فتویٰ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جن دماغوں اور صاحب بصیرت شخصیات نے اس اہم نوعیت کے مقصد میں اپنا ’’ان پٹ‘‘ڈالا ہے تاریخ کبھی نہیں بھولے گی اس فتویٰ سے ریاست مضبوط ہوئی ہے اور مستقبل میں اس دور رس اثرات مرتب ہونگے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button