کالمز

رائو انوار چترال میں ۔۔۔۔۔۔

بریپ مستوج کے مقام پر 14 اپریل 2017 ء کو ہونے والے اسلم بیگ کی موت درحقیقت قئل تھا، جسے اسکی بیوی اپنے ایک عاشق کے ساتھ ملکر موت کے گھاٹ اتاری تھی۔ اس واقعے کا ذکر میڈیا میں کافی عرصےسے چل رہی ہے مگر اس کیس میں نیا موڑ اس وقت آیا جن بریپ کے مقام پر عام لوگوں کا پولیس کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا اور یوں یہ کیس میڈیا میں دوبارہ زندہ ہوا ۔ مظاہریں نے تھانہ مستوج کے ایس۔ایچ۔او ، پر یہ الزام عائد کئے کہ وہ کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس خبر کے بعد جب ہم نے اسلم بیگ کی ورثاء سے بات کی تو انہوں نے بتا یا کہ پولیس تو روز اول سے ہی بدنیتی پر مبنی کردار ادا کر رہی ہے، جو کہ افسوسناک ہے۔ انہوں تفصیلات یوں بتائے کہ اسلم بیگ کی موت کے چھ ماہ بعد انہیں یقین ہوا کہ یہ موت نہیں قتل تھا تو انہوں نے تھانہ مستوج میں درخواست جمع کئے اور دو دن بعد تفتیشی افسر محمد اعظم اسلم کے گھر گئے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کیس پرانا ہوچکا اس میں کوئی فائدہ نہیں ، نقصان آپ لوگوں کو ہی ہوگا وغیرہ، مگر اسلم کے لواحقین نفی کر تے رہے تو صاحب دھمکی پر اُترآئے مگر اسلم کے والد ماننے سے انکار کئے۔ کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بے قصور بیٹے کے ساتھ جو ظلم ہوئی ہے وہ اس کے خلاف انصاف لئے بنا نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد عدالت کے حکم پر ایف۔آئی ۔آر درج ہوئی اور پولیس تفتیش پر مجبور ہوئی۔تفتیشی آفیسر اسلم بیگ کے گھر آئے اور گواہوں سے بیاں لیکراسلم کے وراثا سے کہا کہ مزید تفتیش کے لئے قاتلوں کے پیچے جانا ہے اور پولیس کے پاس گاڑی نہیں ہے تو اسلم کے گھر والوں نے کرائے پر گاڑی لیکر پولیس کے حوالہ کئے۔ پولیس تفتیش کے لئے لڑکی کے گھر یعنی ژوپو گئے پھر وہاں سے مستوج، بونی اور پھر چترال آئے اور واپسی پر گاڑی والے نے 35000 ہزار روپے اسلم کے گھر والوں سے وصول کئے۔ اس دوران ملزمان گرفتار ہوئے اور پولیس کے سامنے اقبال جرم بھی کئے۔ مگر عدالت میں جا کر انکار کئے تو عدالت نے مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالہ کئے۔ اورتفتیشی آفیسر نے لڑکی کا بیان بدل کر اور موبائل کا پرانا سیم جو کہ اس وقت لڑکی کے استعمال میں نہیں تھا ، شامل تفتیش کرکے عدالت میں جمع کئے اور یوں ناکافی ثبوت کی بنا پر دونون ملزماں ضمانت پر رہا ہوئے۔ تو اسلم بیگ کے گھر والوں کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کئے اور ہدایت خان کو مختار مقرر کئے۔ مگر پولیس کی ہٹ دھرمی جاری رہی۔ ہو ا یوں کہ 26 جنوری کو جب دارلقضا سوات میں پیشی کے لئے بلاوا آیا تو ہدایت خان (کیس کا مختار) 24 جنوری کو بریپ سے چترال کے لئے صبح چار بجے روانہ ہوئے مگر چونچ کے مقام پر صبح پانچ بجے پولیس ناکہ لگا کر گاڑی روکتا ہے اور ہدایت خان کو یہ کہہ کر گاڑی سے اتارا جاتا ہے کہ تمھارے گھر پر چھاپہ ہے لہہذا تمہیں ہمارے ساتھ واپس چلنا ہے، اور اسے گاڑی سے اتار کر واپس لے گئےاسطرح اس اہم پیشی سے مختار کو بذرئعہ پولیس روکا گیا۔ اسطرح کی ناکہ بندی سے پولیس کی بدنیتی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہم نے تفتیشی پولیس کے ایس ۔پی سے رابطہ کیا تو انہوں نے شروع میں پولیس کی تعریف کرنے کی کوشش کی مگر سوالات کی جواب دینے بجائے افسوس پر اکتفادہ کیا۔ دوسری طرف ناکہ بندی اور ایس ایچ او مستوج کی ہٹ دھرمی کے حوالے سے ڈی۔پی۔او چترال سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس ساری صورت کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے اور بہت جلد ذمہ داروں کے خلاف کارائی ہوگی۔ ہم نے دوبارہ پوچھا کہ کہ اسطرح کے واقعات سے پولیس کی بدنامی ہورہی ہے اور بطور ڈی پی او آپ نے ابھی تک ایس ایچ او مستوج کو معطل نہیں کیا تو موصوف بے بسسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جتنے لوگ بریپ میں اسلم کی قتل کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اُتنی ہی تعد اد میں چترال کے بااثر لوگ ایس۔ ایچ ۔او کی حمایت میں پولیس لائن بھی آ رہے ہیں۔

اب ان ساری صورت حال سے دو باتین واضح ہو رہی ہے کہ پولیس اب بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے یا پھر چترال میں اثر رسوخ والے لوگ اتنے مضبوط ہیں کہ وہ ایک پولیس آفیسر کو بھی مجبور کرتے ہیں۔ کیونکہ ایس ایچ او موصوف خود ساختہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ موصوف اخبارات میں مضمون لکھ کر ا پنے اور محکمہ پولیس کی دفاع میں اتر آئے ہیں۔مذکورہ کیس میں پولیس کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے دونوں ملزموں کو بھی مجرم قرار دیا ہے مگر حقیقت میں دونوں ملزمان عدالت سے ضمانت کرواچکے ہیں۔ ایس۔ایچ ۔او کی طرف سے لکھے گئے مضمون کے بارے میں جب ڈی۔پی۔او صاحب سے پوچھا گیا تو نہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور پھر دوبارہ فون کرکے ہم سے کنفرم کئے کہ مضمون کس سائیڈ پر لگی ہے۔ اس ساری صور ت حال سے بات واضح ہوتی ہے کہ چترال بقول جی۔ڈی۔ لینگ لینڈ ، دنیا سے سو سال پیچھے ہے مگر یہ دعوی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ چترال پولیس ایک سو پچاس سال پیچھے ہے۔ جو نہ آپس میں رابطہ قائم ہے اور نہ ہی کسی کیس سے سنجیدہ ہیں۔ اور اس غیر سنجیدگی کے عالم میں ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ چترال پولیس کا کوئی سربراہ بھی ہے یا پھر یہ کہ جو جہاں لگا وہ وہیں کا سکندر۔۔۔ کل تک تو کراچی پولیس کی بے بسی پر ندامت کا اظہار کیے جارہے تھے کہ رائو انوار سے کوئی پوچھنے والا نہیں ، مگر اب ایس۔ایچ۔او مستوج اور چترال پولیس کی بے بسی دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رائو انوار چترال میں موجود ہے کیونکہ جب کسی محکمے میں اختیارات کے استعمال کا پتہ نہ ہو تو اس محکمے کا ہر فرد رائو انوار بن سکتا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر مظلوم کو ظلمت کے اندھیروں سے نجات دلائے ۔ امین۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button