بلاگز

موسمی پرندوں کا بے دریغ شکار

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر پر نظر
پڑی جس میں پانچ مرغابیوں کو شکار کرنے کے بعد ان کو ترتیب سے بندوق پر رکھ کر تصویر بنانے کے بعد س کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا تھا اس تصویر کے بارے میں ایک دوست نے چند جملے لکھے تھے یہ رات کے کھانے کا وقت تھا اس تصویر کو دیکھنے کے بعد کھانا ممکن نہیں تھا یہ شکار کس نے کیا تھا قطعاً160 نہیں معلوم میں نے اس دوست کے پروفائل سے تصویر کو محفوظ کرنے کے بعد اس کو ایک کہانی کی شکل میں تحریر کی اور فیس بک پر اپ لوڈ کیا میری اس تحریر پر بہت سارے لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور بہت سارے دوستوں نے اپنے پروفائل پر شیئر کردیا وہ پوسٹ فیس بک میں وائرل ہونے لگا اگلے دن مقامی اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ وائلڈ لائف کی کارکردگی سفر موسمی پرندوں ک غیر قانونی شکار عروج پر یہ خبر سوشل میڈیا میں آنے کے بعد اس پر لمبی بحث شروع ہوگئ۔
کچھ دوستوں نے کہا کہ جو لوگ شکار کرتے ہیں ان کے پاس سرکاری لائسنس موجود ہے اور وہ قانونی شکار کرتے ہیں اگر روکنا ہے تو ان کو روکے جو لائسنس جاری کردیتے ہیں اس بات میں بالکل وزن ہے ایک آدمی پیسے خرچ کرکے لائسنس خریدتا ہے اس نے شکار تو لازمی کرنا ہے مگر اس کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ بیک وقت کتنے پرندے مارنے کی اجازت ہے اس بات کا کسی کو احساس نہیں ہے یہاں160 تو ایک پرندے کی شکار کا لائسنس لینے کے بعد درجنوں پرندے مار دئیے جاتے ہیں۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گلگت بلتستان میں یہ موسمی پرندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ محکمہ شہریوں کو لائسنس دے کر ان سے پیسے کمائے تو میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ان علاقوں میں یہ پرندے بہت نایاب ہیں یہ گرمیاں شروع ہوتے ہی ہمارے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ ان علاقوں کی ٹھنڈی ہواوں میں اڈان بھرکے خوب لطف اندوز ہونگے ندی نالوں اور دریاوں کے صاف ستھرے پانی میں موج مستی کرینگے اس بات سے وہ بلکل لاعلم ہوتے ہیں کہ یہاں ان کے لئے بننے والے ادارے ہی انہی نایاب پرندوں سے آمدن کماتے ہیں160 وہ محکمہ جو ان پرندوں کی شکار کا لائسنس دیتا ہے اس لائسنس کی مد میں وہ کتنا پیسہ کماتا ہے کیا وہ پیسہ ان نایاب موسمی پرندوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ضلع غذر ٹرواٹ مچھلی کے حوالے سے مشہور تھا گلگت سے پھنڈر تک دریائے غذر میں مچھلیوں کا باآسانی شکار ہوتا تھا۔160 لیکن جب سے متعلقہ ادارے نے ٹارگٹ بنا بنا کر لائسنس دینا شروع کردیا اس نایاب ٹراوٹ مچھلی کی بے دردی کے ساتھ نسل کشی کی گئی اب حالت یہ ہے کہ غذر کے آخری کونے کھو کھش جھیل میں بھی مچھلی دستیاب نہیں ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس مسلے پر فوری طور پر160 نوٹس لے اور تمام لائسنس جو جاری کردیئے گئے ہیں، ان کو منسوخ کریں۔ کم از کم پانچ سالوں کے لئے پرندوں اور مچھلیوں کے شکار پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، تاکہ ان کی افزائش نسل ممکن ہو سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button