کالمز

ہل چل ہل چلانے کی ۔۔۔۔

جب سے وقت کو پہیئے لگ گئے ، یہ تو غریب آدمی کو اپنے پیچھے ایسے کھید کھید کر بھاگاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ لمحے ساعتوں میں ساعتیں دنوں میں ڈھلتے ٹک دیر نہیں لگتی اور دنوں کے تو ایسے بال وپر لگ چکے ہیں کہ ماہ وسال کی فصیلوں کو ٹاپتے دم بھی نہیں لیتے ۔آدمی دم بھر کا مہمان اور زندگی کی سرعت آب ناب کی اس کڑوی گھونٹ کی مانند جو غٹاغٹ حلق سے اتری ادھر سرچڑھ کر آدمی کو بدمست کردی۔ اس دھول اڑاتے بے ہنگم دوڑدھوپ میں کسی کو مڑ کر عہد رفتہ کی طرف دیکھنے کو فرصت نہیں۔ اس بن منزل کے سفر میں ایسے ایسے لوگ ملے کہ اگر قید حیات مانع نہ ہوتا تو ان سے پل بھر بچھڑنے کو جی کہاں مانتا، حیف ہے کہ زمانے کی گرد وباد میں وہ پرنور چہرے اوجھل ہوگئے۔ شومئی قسمت کہ کارخانہ قدرت میں بھی وہ چہرے دوبارہ بنتے نہیں دیکھے گئے۔بس کہ آج مرے کل دوسرا دن۔ ایسے میں افراد کی سوچ، عادات و اطوار اور طرز زندگی میں تبدیلی بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ رسوم ورواج ، زبان و ادب ، ثقافت اور طرز بودوباش میں رونما ہوتی تبدیلیوں پر مجال ہے کہ کسی کو کوئی خلش تک بھی محسوس ہوتاہو۔ ٹیکنالوجی کی بڑھت میں ہمارے ایسے صارف مزاج اور گاہکانہ فطرت کے لوگ یوں دن بہ دن مشکل میں دھنستے جارہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایک زمانہ تھا گھر میں ضرورت کی چیزوں کا ایسا بہران رہتا تھا کہ بسااوقات بہت ضروری اوزار کے لئے اڑوس پڑوس میں ڈھنڈورا پٹواتے تھے، اب ہر گھر میں ہر شے موجود ہے لیکن بس اپنے کام کے، کسی دوسرے کے کسی کام کا نہیں۔ موسمی اعتبار سے ہمارے ہاں ابھی فصل ربیع کی کاشت کا موسم ہے ۔ ارض بلتستان میں اس کا الگ ایک اہتمام ہوتا تھا۔ خپت ژھیس (جنوری اکیس )کے بعد سے ہل چل شروع ہوجاتی تھی۔ زمیندار کھیتوں کی اور کشاں کشاں نکلتے، گھر کے چھوٹوں کی ٹولیاں، پیٹھ پر اٹھانے والی مخروطی ٹوکریاں لئے، بعد ازاں کنستروں کی ارزانی سے پانچسیری اور کنسترکی ٹین میں ڈوریاں ڈالے کھیتوں سے کنکر پتھر چننے ساتھ ہولیتی تھیں۔ گھر کے بڑے کھیتوں کی دیوارمنڈیروں کے گرے پڑے پتھر دوبارہ لگاتے ، اکثر دوپہر کا کھانا لسی ، دیسی روٹی کے ساتھ ساگ کھیت میں بیٹھ کر کھا لیتے۔ بارہا کچھ مہمان بھی آن بیٹھے اور خوان کے خوانچے اڑایاکرتے تھے۔ کام کاج کے دوران چائے ، روٹی میں بن بلائے حصہ لینے سے شرمانا تو درکنا وہ تو کارثواب سمجھ کر شامل ہولیا کرتے تھے۔ اس کے بعد بھل صفائی کی مہم میں جان آتی، چوپال ، چوراہوں اور اکثر مساجد میں یہ طے پاتا کہ کب کہاں سے بھل صفائی شروع ہونی ہے۔ انتظام و انصرام کی ایسی اعلی مثال کہ کئی پشتوں قبل سے کوہل نہروں کی دیکھ بھال کی خاطر ناپ تول کر قوم، خاندان یا قبائل میں ذمہ داریوں کے حدود متعین کرچکے ہوئے ہیں جس پر آج بھی بعینہ عملدرآمد ہوتا ہے۔جان بوجھ کر شامل نہ ہونے والوں سے جرمانہ وصول کیا جاتاہے، گئے وقتوں میں یہ محصول دیسی گھی، مکھن ، دیسی مرغی، انڈے ، غلہ ، گندم ، خوبانی کے تیل یا پھر بکرے کی شکل میں بٹورا جاتا تھا جو آجکل روپے پیسوں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس معاملے میں غیرت قومی اور خاندانی ساکھ بحال رکھنے کی خاطر جس اتحاد اور مردانگی کامظاہرہ ہوتا تھا جس کی مثال آج کی طرز معاشرت میں نہیں ملتی۔ آج کل تو ایثار، اخوت اور صلہ رحمی کی لہریں آب جامد کی مانند خاموش اور کائی کی بدبو بھرے جوہڑ کی مانند بے کیف ہو گئی ہیں۔ بھل صفائی کے بعد دیرے دیرے معاملات کھیت کھیت کھاد پہنچانے کے شروع ہوجاتا تھا۔ تنگ دستی اور تہی دامانی کی مجبوری میں بھی اس قدر لوگ بے خودہوتے تھے کہ کسی کے گھر کام کاج میں امداد کے لئے نہ بھلانے پر ناراضگیاں جنم لیتی تھیں۔دیسی چوبی ٹہنیوں سے بھنی ٹوکریاں دیسی کھاد سے لدی پیٹھ پر اٹھائے سر پر پٹ سن کی بوری اوڑھے نوجوانوں کے قطار درقطار نظر آتے تھے۔ بعد میںیہ کام ریڑھیوں نے سنبھالیا۔ کھاد ڈھلوانے والے گروہ کے ذرا سا چست اور ہوشیار فرد کہیں سے کوئی سبزہ یا گھاس کا پتہ اٹھا کر لاتا اورمیزبان خاندان کے اس بچے کے سرپر رکھ دیتا تھا جس نے زندگی کی پہلی بہار دیکھنی ہو ، پھر گروہ کے دیگر ساتھی شور مچاتے ، کبھی دورود شریف پڑھتے اور کبھی تالیاں بجاتے ، اور اس خاص تقریب کے عوض عشائیہ سے فراغت کے بعد اس بچے کی ماں مٹھائیوں، مونگ پھلی کے دانوں، خشک خوبانی اور بادام ، اخروٹ کی تھال پیش کیا کرتی تھی، اسے ایک نیک شگون کے طور پر مانا جاتا تھا۔ اس کے بعد دن ، ساعت اور وقت کے حساب سے فال نکالنے کے بعد بڑے بزرگ ہل جوتنے کے دن اور وقت کا اعلان کیا کرتے تھے۔ اصولوں کی پاسداری کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اکثر ایک ٹوپہ قابل کاشت زمین سے عاری زعما و عمائدین کی باتیں بھی حد وحدود کی خاطر مان لینی پڑ جاتی تھیں۔ کاشتکاری کا اعلان ہوتے ہی ترکھانوں اور لوہاروں کی گویاچاندی ہوجاتی تھی۔ بڑاشنگ، کھاژے، شول، حرکت، شوتھق،چھوتانگ شینگ لیپ، کیلو، یوقپہ، گینتی اور پھاڑوے وغیرہ کی مرمت اور بحالی کا کام عروج کو پہنچ جاتے تھے۔ اس کے بعدچنداں رویت شناس کسان سون بجوس کیا کرتے جس میں کسی دوسرے کسان سے اچھے اورصحت مند بیجوں کا تبادلہ کرواتے، اس کے بعد سون سنیال کی رسم ہوتی جس میں شگون کی ساعتوں کے مدنظر چند دانے کسی کھیت میں ڈال دیتے اس کے بعد کسی بھی وقت کاشتکاری کرنے کو غیر مانع تصور کیا جاتا تھا۔ کھیتوں میں روایتی بیل یا سانڈ جسے مقامی زبان میں بظو کہتے ہیں اس کے ساتھ ایک ہل والا اور( بیل کے گلے میں ایک ترچھی لکڑی ) حرکت والا ہوتا تھا، بیل عموما کھیت میں گول گول گھومنے سے چوکور کھیتوں کے کونے ہل لگنے سے رہ جاتے تھے اس لئے ان میں گھر کے منچلے نوخیز لڑکوں سے کھدوائے جاتے تھے جسے تھمہ ہرکوا کہا جاتا تھا۔ ہر گھر کا اپنا بیل تو ہوتا نہیں تھا اس لئے گاوں میں بیلوں کا ایک دوسرے سے لے کر ہل چلا نا ہرگز معیوب بات نہیں تھی البتہ بیلوں والے گھروں کے لئے دوسروں کی مدد کرنا بہت فخر کی بات ہوتی تھی۔ اکثر نالہ جات میں رہنے والوں کے ساتھ بیلیں سانجھے میں رکھے ہوتے تھے ، کیونکہ ان کے ہاں چراگاہوں کی فراوانی ہوتی تھی اور سردیوں کے لئے خوب گھاس پھوس جمع کرکے رکھتے تھے۔ یہی بیل جب بوڑھا ہوجاتا تو ایک اور رسم کے کام آجاتے جو عموما خزاں کے آخر اور سرما کی آمد پر ادا کی جاتی تھی جسے ستون پھیوکھ کہا جاتا ہے۔ تب وہ بیل زبح ہوکر گھروالوں کی خوش خوراکی کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ خیر ، جب بیل کھیتوں میں ہل جوتنے کے لئے لائے جاتے تھے تب ہل، گینتی اور بیلچوں کو پانی میں ڈبوتے تھے جس کا مقصد ان اوزاروں سے خاص محبت کا اظہار سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد خلنگ سترانگ کا ہدیہ تبرکاً پیش ہوتا، اردگرد کے تمام چھوٹے بڑوں کو خلانگ سترانگ کھلاتے ، کھلانگ سترانگ میں نمکین چائے اور گوندھے ہوئے ستو کی ایک تھال اور اس کے اوپر مکھن کی پڑی ہوا کرتی تھی ۔ مکھن ، ستو اور چائے اڑانے کے بعد چکنائی سے بھرپور ہاتھوں سے بیل کی سینگوں کو چکایاجاتا تھا۔ اس پورے مرحلے میں ہاتھ دھونے، خاص کر صابن سے ہاتھ دھونے جیسی توہمات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ اللہ کے نام سے شروع اور اللہ مرزقنا بغیر حساب پر ختم ہوجاتا تھا۔ اس طرح ہل جوتنے اور کھیت کھلیان ہموار کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا تھا۔ ہل چلائے گئے کھیتوں میں مٹی کے ڈھلوں کو ہموارکرنے کے لئے مقامی طور پر ڈیزائن کئے گئے لکڑی کے بڑاشنگ کا استعمال ہوتاتھا،جس میں مہارت خاص کر یہاں کی خواتین کو حاصل ہوتی تھی۔دوچاردن بعد جب گیلی زمین ہموار ہوکر سوکھ جاتی پھر پریوں کی ٹولیاں کھیتوں میں کیاریاں کاٹنے اورہر کیاری تک پانی کے راستے بنانے میں محو ہوجاتی جسے مقامی زبان میں ہرکہ پھیق پہ کہاجاتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا یہ حال ہوتا تھا کہ بچاری خواتین کم وبیش اپنے محلے داروں، رشتے داروں اور زعما و عمائدین میں سے ہر کسی کے کام آتی اور یوں کاشت کاری کے شروع سے آخر تک محو رہتی تھیں۔ کل مجھے میرا پڑوسی ملا جو کاشت کاری سے فارغ ہوکر آگئے تھے۔ بیلوں کی جگہ ٹریکٹر، لوگوں کی جگہ مزدور اور جذبوں کی جگہ پیسے لگا کر تمام رسموں کا خو ن کر آئے تھے۔ اس کی وجہ بھی بس جلدی تھی صرف اور صرف جلدی۔ اور گاوں کی وہ ریت روایات اور نظم و نسق کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ از بس کہ آج کل کاشتکاری میں ہل چلتا ہے لیکن وہ ہل چل باقی نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button