کالمز

بلتستان کے لوگ کیسے لبرل ہیں۔۔۔۔!

تحریر: شریف ولی کھرمنگی

آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر تقریب سے کمشنر بلتستان نے گلگت بلتستان کے لوگوں کو لبرل قرار دیتے ہوئے اسے خوش آئند قراردیا۔ ویسے تو عام طور پر لبرل کے معنی دینی امور اور احکام کی پابندی سے ماورا ہوکر شخصی آزادی، فکری آزادی، اور من مانے طریقے سے زندگی گزارنے کے کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہی معاشرے کے پڑھے لکھے افراد لبرل ازم کی ترقی یافتہ دنیا میں عملی نمونوں سے آنکھیں چراتے ہوئے اسے دینی احکامات کی پابندیوں سے آزادی کی بجائے ہر ایک کو اپنے طریقے سے جینے، عبادات کے کرنے نہ کرنے اور محرمات سے بچنے نہ بچنے وغیرہ میں نرمی اور عورتوں کو گھروں میں مقید کرنے کے خلاف ایک فرضی اور خودساختہ مطالب سے جوڑتے ہیں۔

اندھے، گونگے اور بہرے بھی جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں عورتوں کیساتھ عام طور پر کوئی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، نہ انہیں جدید تعلیم سے کوئی روکتا ہے، نہ انہیں ملازمت سے منع کرتا ہے، اور نہ ہی کسی بھی شعبے میں مردوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اندھے بہرے اور گونگے بھی اس بات کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی مواقع مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے محدود ہیں، اور جو جو ادارے موجود ہیں ان میں مواقع دونوں صنفوں کیلئے بھی یکساں ہیں۔ ان میں عورتوں کا داخلہ بھی اتنا ہی ہمیشہ ہوتا رہا ہے جتنا مردوں یا حکومتی و ادارتی طور پر جتنی گنجائش رکھی گئی ہوتی ہے۔ اعلیٰ ترین مقابلے کے امتحانات یعنی سی ایس ایس سے لیکر تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازمتوں کو دیکھیں مردوں کیساتھ ساتھ خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد مقابلے کیلئے تیار نظر آتی ہیں، اور ہر ادارے میں خواتین کی خدمات موجود ہیں اور ان کے خاندان والے بھی کسی روک ٹوک اور سختی کی بجائے ان پر ٖفخر کرتے اور دوسری گھر کی خواتین کو بھی اچھا پڑھنے لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا سکولوں، کالجوں اور موجود یونیورسٹی کی کلاسوں میں مردوں کیساتھ خواتین کی تعداد کو؟ کون نہیں جانتا سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں خاتون ڈاکٹرز، نرسز، اور دائیوں کو؟ کون نہیں جانتا کالج سکولوں اور یونیورسٹی میں خاتون اساتیز کو؟ کون نہیں جانتا بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم اور ملک بھر کی جامعات میں پروفیشنل، اور مروجہ تعلیم کی سیٹوں سمیت ہر درجے پر سال بہ سال ڈبل سے ٹرپل ہوتی گلگت بلتستان کے خواتین کی تعداد کو؟

ہمارے معاشرے کو اگر سمجھا جائے تو عورتوں کے حوالے سے دنیا کے آئیڈئل ترین معاشروں میں سے ایک قراردیا جاسکتا ہے۔ جہاں پر عورتیں گھر کے کام کاج سے لیکر کھیتی باڑی، ملازمت غرض ہر شعبے میں بلاروک ٹوک مردوں کیساتھ ساتھ کام بخوشی کام کرتی اور خاندان کی کفالت اور بچوں کی تربیت میں اہم ترین حصہ ڈالتی ہیں۔ اور ایسا کرنے سے ہم لبرل کہلاتے ہیں تو ہم فخر سے کہتے ہیں ہاں ہم سے زیادہ لبرل کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔

جن دوستوں کو لبرل ازم کے لفظی معنی کی وجہ سے لبرل کہنا اچھا لگتا ہے مگر معاشرے کو دینی اقدار کے حامل اسی طرح سے سمجھتے ہیں جیسے کہ اوپر چند حقائق بیان کیں ہیں، وہ خاطر جمع رکھیں، آپ سے الجھنا یا آپ کو غلط ثابت کرنے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، لیکن ایسے معاشرے میں بیرونی ایجنڈوں پر ملحد اور تنگ نظر مگر بظاہر روشن خیالی کے لبادے میں عورتوں کے حقوق کیلئے چیخنا چلانا اور سال میں دو تین تقریبات منعقعد کرکے اسلامی اصولوں اور گلگت بلتستان کے علمائے کرام اور متدین والدین کی تضحیک و توہین کرنا چہ معنی؟ یہ برملا سازش ہے اور اس کے پیچھے باقاعدہ ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ این جی اوز کی ماں امریکی خیراتی ادارے یو ایس ایڈ، الشہباز ویمن، اور عورت فاونڈیشن جیسے مغربی فنڈڈ اداروں کو چاہئے کہ وہ ان علاقوں میں جاکر کام کریں جہاں عورتوں کو وٹہ سٹہ، ونی، کاری اور پنچائیت کے دوسرے دردناک مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مغربی دنیا خصوصا امریکہ جہاں ہر چھے میں سے ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے ان کو تحفظ فراہم کریں، روزانہ کی بنیاد پرہر سکول کالج اور یونیورسٹی میں سینکڑوں عورتوں کیساتھ جنسی زیادتی کے کیسز درج ہوتے ہیں اور ان کو ہراس کیا جاتا ہے ان کیلئے سیمینار منعقد کرائیں، انکا اعتماد بڑھائیں، انکو حقوق دلائیں اور نا انصافیوں کے خاتمے کیلئے کام کریں۔ لیکن نہیں، انہوں نے گلگت بلتستان کو ہی ٹارگٹ کرنا ہے، یہاں کی متدین، فرض شناس، والدین کی عزتوں کا لاج رکھنے والی غیرتمند عورتوں کے لئے حقوق کے نام پر ڈرامے رچانے ہیں، یہاں کے جوانوں کو ہی لنڈے کے پتلون اور لنڈے کے جیکٹ پہنا کر ان سے عورتوں کیلئے مہم چلوانا ہے، کیونکہ یہاں دینی اقدار اب تک محفوظ ہیں، یہاں کی خواتین ذہین و فطین اور ہر شعبہ زندگی میں دنیا میں مثالی خدمات سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اوراگر یہ دینی اقدار کیساتھ نئی نسل کی تربیت جاری رکھتی ہیں تو اگلے چند دہائیوں میں یہاں کے تعلیم یافتہ جوانوں کو نہ صرف اس خطے کی بلکہ ملک بھر کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی خداداد صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے صف اول میں پائیں گے۔

جس طرح کینو کا ذائقہ کئی تقاریر سننے، کئی کتابیں پڑھنے اور کئی لوگوں سے بحث کرنے کے باوجود تب تک سمجھ نہیں آتی جب تک اس کو ایک بار چکھ نہ لیں، اسی طرح لبرل ازم، سوشل ازم، کمیون ازم، کیپٹل ازم وغیرہ وغیرہ، صرف الفاظ کے ذخیرے نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو احاطہ کئے ہوئے نظریات کے نام ہیں جن سے اقوام عالم کی تاریخیں جڑی ہے۔ ان کے رسم و رواج، بودوباش، سوچ و فکر، گفتار و کردار، لباس و غذا، معاش و سماج، غرض زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی عملی نظریات ہیں یہ۔ ان کے لفظی معانی نے معاشرے اور ہمارے لوگوں کیساتھ کچھ بھی نہیں کرنا۔ یہ کیا ہیں؟ ان کو سمجھنے کیلئے ان معاشروں کی ماضی، حال اور مستقبل پر نظر کریں، انکے مدوجزر دیکھیں، ان کے پانے اور کھونے کی دستانیں پڑھیں، ان افراد سے ملیں جو ایسے معاشروں میں رہتے ہیں، ان سے ان کے فوائد و نقصانات جانیں، تب ہی سمجھ آجائیگی۔ مگر ہمارے ہاں لبرل ہونے کے دعوے اور فخر کرنیوالے اکثر وہ لوگ ہیں جنکا کسی لبرل معاشرے سے واسطہ ہی نہیں پڑا، کسی لبرل معاشرے میں رہنے والے سے گفتگو تک نہیں ہوئی، کسی لبرل بندے کے سوچنے کے معیارات کی ہوا تک نہیں لگی۔ ان لبرل معاشروں میں عورتوں، بچوں اور غرض ماں باپ کیساتھ روا رکھنے والے سلوک کا شائبہ تک نہیں۔ لیکن لگے ہیں لبرل ہونے پر فخر کرنے۔

ان مغربی ملکوں کے این جی اوز کو گلگت بلتستان سے کوئی خاص ہمدردی کی وجہ؟ کیا ان کے پیسے پائپ لائن سے نکلتے ہیں؟ یا ان کو سمندر سے ڈالر ملتے ہیں جو اپنے خطے چھوڑ کر آپ کو روشن خیال اور ماڈرن بنانے کیلئے لٹادیتے ہیں؟ یقین کریں یہ ایک ایک پائی انتہائی سوچ سمجھ کر خرچ کرنے والی قوم ہے۔ ان کو اپنے مال کی بھی قدر ہے اور اپنی توانائیوں کی بھی، لیکن یہ جانتے ہیں کہ کسی بڑے ایجنڈے کیلئے خرچ کرنا انکے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ضروری ہے۔ تبھی یہ ہر ممکن طریقے سے یہاں اپنا رسوخ بڑھا کر لوگوں کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔ اب تک جو چیزیں واضح ہیں وہ یہ کہ ان کو اس علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کی ضرورت ہے، یہاں سے ارد گرد نظر رکھنا ان کی مجبوری ہے۔ جس کیلئے متدین اور تہذیب و تمدن کا ساتھ نہ چھوڑنے والی قوم رکاوٹ بن سکتی ہے۔ لہٰذا ان کو ڈر ہے تو ہماری نئی نسل کی متدین، با اخلاق، مہذب اور چمکتی مستقبل سے۔ جدید دور میں بھی روشن مثال بنتے ہمارے معاشرے کے اقدارسے ہے جو کسی غیر کی چودھراہٹ کو قبول کرنے کیلئے ہرگز آمادہ نہیں ہونگے۔ ان کو ڈر ہماری عورتوں کے پردے سے ہے۔ ہماری خواتین کی تعلیم کیساتھ ساتھ تربیت اور دینی اقدار کا پاس و لحاظ سے ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کرتی ہوئی ترقی سے ہے۔ ان ماوں کے گودوں میں تربیت پاتے بچوں کی فکری استعداد سے ہے جو ماوں سے دودھ کیساتھ محبت آئمہ اہلبیت بھی لیتے ہیں کیونکہ جو ظلم و بربریت کیساتھ ساتھ بے راہ روی اور لادینیت کے بھی سخت مخالف ہیں جس کیلئے یہ اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرنیوالے۔ یہی وجوہات ہیں ایک طرف این جی اوز کے ذریعے خواتین خاص طور پرنوجوان لڑکیوں کو فیشن زدہ اور مغرب زدہ بنا کر بے پردگی کو عامنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری طرف نوجوان لڑکوں کو چرس کے دھندے میں ڈال کر ان کو خراب کررہے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button