عوامی مسائلکالمز

آبی ذخائر سے مالامال ضلع کوہستان کے باسی بجلی کے لئے کیوں‌ترس رہے ہیں؟‌

کوہستان(شمس الرحمن شمس) خیبر پختونخواہ کا ایک ضلع ا یسا بھی ہے جہاں آبی ذخائیر سے 132میگاواٹ بجلی پید ا کی جاچکی ہے اور8820میگاواٹ پیداواری منصوبوں پر کام جاری ہے مگر اس ضلعے کے جزوی علاقوں کیلئے آنکھ مچولی کرتی بجلی سال 2017کے اواخر میں آئی ۔ جنرل سکرٹری انجمن تاجران کمیلہ عبیدا لرحمن نے بتایا کہ’’ سال 2009سے بجلی کے حصول کی جدوجہد کے بعد گزشتہ سال بجلی کے کھمبے اور تاریں لگوانے میں کامیاب ہوئے مگر پھر بھی بارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ والی بجلی پوری طرح میسر نہیں اوراپر کوہستان کے 70 فیصد علاقے بجلی کی سہولت سے محرو م ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ملحقہ محلہ جات کے لئے پانچ ماہ سے ریکارڈ پیسکو عملہ جمع کرکے لے چکا ہے مگر تاحال کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا۔‘‘

ضلع کوہستان کا قیام 1976میں عمل میں آیا اُس کے قیام سے لیکر گزشتہ سال تک یہاں کی لاکھوں آبادی کیلئے بجلی کی سہولت کسی خواب سے کم نہ تھی ۔ کمیلہ شہر کے ایک شہری محمد صادق کا کہنا تھا کہ’’41سال بعد واپڈ ا کو اُس وقت خیال آیا جب اُس نے یہاں ہزاروں میگاواٹ بجلی کی پیداوار دیکھی اور کام شروع کیاتو اپنے دفتری سہولت کے خاطر بجلی کی ترسیل کا عمل شروع کیانیک شگون بات یہ ہے کہ اس سہولت سے جزوی طورپر شہری بھی مستفید ہورہے ہیں ۔‘‘

کوہستان علاقہ بر کمیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد رفیق کا کہنا تھا کہ’’ کئی ایسے میٹرز بھی ہیں جو استعمال ہی نہیں ہوئے جن پر ہزاروں روپے بل آتے ہیں ، ایسے ناقص نظام سے نالاں ہیں ،جو صارفین کو سہولت کے بجائے مشکلات دیتے ہیں‘‘ ۔

ایک اندازے کے مطابق کوہستان کے 70 فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں اب بھی واپڈا نے بجلی ترسیل نہیں کی اور وہاں کی چھوٹی بڑی وادیوں میںآبی نالوں پہ مقامی لوگوں نے اپنی مددآپ چھوٹے پن بجلی گھر تعمیر کئے ہیں جن سے وہ اپنی روزمرہ بجلی کی ضرورت پور اکرتے ہیں ۔جب سخت گرمیوں کا موسم شروع ہوجائے تو نالوں میں پانی کی قلت اور بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتاہے جس سے وولٹیج انتہائی کم ہوتی ہے اور گرمی کے ستائے کوہساروں کے باسی نقل مکانی کرکے پہاڑی علاقوں کا رُ خ کرتے ہیں ۔

چیف انجینئر داسو ہائیڈور پاور پروجیکٹ ثاقب ضیا سے اس مسلئے پہ بات کی تو اُن کا کہنا تھا ’’ داسو ڈیم منصوبہ ملک کیلئے انتہائی اہم ہے اور اس کی تکمیل مارچ 2023میں ہوگی ، اس ڈیم کی تکمیل کے بعد سالانہ 12ارب یونٹ سستی بجلی صارفین کو میسر ہوگی اور لوڈ شیڈنگ پر مکمل قابو پالیا جاسکے گا۔ واپڈا کی کوشش ہے کہ کہ مقررہ مدت میں یہ ڈیم مکمل ہوجائے ۔انہوں نے کہا کہ عوام کی پریشانی کا احساس ہے جس کے پیش نظر کیال خوڑپاورپروجیکٹ سے بجلی کی ترسیل کا کام جاری ہے ۔ عوام واپڈا کے ساتھ تعاون کرے ‘‘۔

واضح رہے کہ کوہستان میں یوں تو چھوٹے بڑے کئی ڈیمز ڈیمز بن رہے ہیں جن میں (رانولیاڈیم، کیال خوڑ ڈیم، کندیا دیم،پالس ڈیمز ودیگر)شامل ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق ان ڈیموں سے 26ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی صلاحیت موجود ہے ۔ دوسری جانب کوہستان کے علاقہ دوبیر خوڑ پاور پروجیکٹ جس کی پیداواری صلاحیت 132میگاواٹ ہے جومکمل ہونے کے بعد آپریشنل ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ 4320میگاواٹ کا داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور 4500میگاواٹ پیداوری صلاحیت کا دیامر بھاشا ڈیم پہ کام جاری ہے ۔ صرف ان تین منصوبوں (دوبیڑ خوڑ ڈیم ، داسو ڈیم ، بھاشاڈیم)کی تکمیل سے 8952میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوگی ،مگر پھر بھی چراغ تلے اندھیرا،کوہستان کے ستر فیصد علاقے اب بھی بجلی سے محروم ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button