بلاگز

جذام یا لیپروسی

جذام یا لیپروسی عام بیماریوں کی طرح کا ایک عام اور قابل علاج بیماری ہے ۔ یہ کوئی خدا کی لعنت نہیں اور نہ ہی موروثی ہے جب کہ جذام کے بیماری میں مبتلا والدین کے بچے دوسرے تمام وبائی اور متعدی بیماریوں سے صحت مند ہوتے ہیں۔ جذا م سب سے کم وبائی امراض میں شمار ہو تاہے۔ کسی بھی آبادی میں ۸۰ فی صد لوگ قدرتی طور پر لیپروزی یا جذام سے محفوظ ہوتے ہیں۔ جذام سے کبھی بھی ذہنی، اخلاقی، یا دماغی طاقت کو بلواسطہ، یا بلا واسظہ طور پر نقصان نہیں پہنچتا، مشکل یہ ہے کہ جذام کے مریض عصابی تناؤ اور معاشرتی غیر ہم آہنگی کا شکار ہو تے ہیں ۔

جذام کا پھیلاو کسی خاص قسم کا خوراک جیسے دودھ اور مچھلی کی وجہ سے نہیں ہو تا۔ جذام صرف غریب لوگوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اس کا شکار ہو سکتاہے۔ کسی بھی دوسری بیماری کی طرح غیر صحت مند ، رہائشی مسائل، بہت زیادہ بھیڑ والا آبادی یا کنجسٹڈ آبادی اور غذا کی کمی اس کا سبب بن سکتا ہے ۔ جذام دوسری بیماریوں کی طرح ایک عام بیماری ہے ، جو علاج کرایا جا سکتاہے، جذام کی بیماری کو لفط کوڑھی یا جذامی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ، اگر کوئی شخص جذام یا لیپروسی میں مبتلا ہو جاتاہے تو اسے بھی ایسا تصور نہ کیا جائے جیسا خسرہ یا چیچک کی بیماری وبائی یا متعدی ہوتی ہے ، یعنی یہ پھیلنے والی بیماری نہیں ہے۔

جذام کو عام طور پر ایک نہایت خطر ناک بیماری سمجھا جاتا ہے اور اس مرض میں مبتلا لوگوں کو گھر سے دور کہیں رکھا جاتا ہے ، مجھے آ ج تک یاد ہے کہ گورنمنٹ ھائی سکول گلگت کے عقب میں ایک تنبو ( ٹنٹ) میں ایک شخص کو رکھا گیا تھا جب ہم لوگ ۱۹۷۰ء ؁ سے ۱۹۷۲ء ؁ تک ھائی سکول گلگت میں پڑھتے تھے جب ہم اپنی ضروریات زندگی سے فارغ ہونے کی غرض سے اُس گلی میں سے گذرتے تھے تو اس ٹنٹ کے کپڑے کو اوپر اٹھا کر دیکھتے تھے اور آپس میں باتیں کر تے رہتے تھے کہ اس کو یہاں کیوں رکھا گیا ہے ، اس وقت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہے یہ بہت بعد میں مجھے کسی نے بتایا ، جب کہ گلگت بلتستان میں اس کی شرح بہت کم ہے ۔ کبھی کبھی سننے میں آتا تھا ،

وجوحات: جذام 8 یا لیپروسی ایک جراثیم سے پھیلتی ہے جس کو ماءئکو بیکٹریم لیپرا (Mycobacterium leprae) کہا جاتاہے، جو کہ ٹی بی کی بیماری کی قریب ترین جراثیم ہے یہ پہلا جراثیم یا بیکٹریا ہے جو اس خاص بیماری کا سبب ہے، اس بیکٹیریا کو 1872- 74 میں ڈاکٹ�آرمویر حینسن (Armauer Hanson ) نے دریافت کیا تھا جو کہ ناروے کا ایک فزیشن تھا ،

اگر یہ جراثیم کسی کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کو اپنا اثر دکھانے میں بہت عرصہ لگ جاتاہے اور کسی دھبہ کی صورت میں جسم پرنظر آتا ہے، جو کہ سوئی بھی چبونے سے درد نہیں ہو تاہے ،

اقسام: لیپروسی یا جذام کے دو اقسام ہیں ایک متعدی اور دوسرا غیر متعدی، دنیابھر میں 70 % ( ستر فی صد) لوگ غیر متعدی مرض میں مبتلا ہو تے ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی غیر متعدی جذام یا لیپروسی ہو تاہے جو کہ عموماََ جسم کے کسی بھی حصے میں ایک سفیدی مائل دھبہ کی صورت میں نمودار ہو تاہے ، جس میں درد نہیں ہو تا اور عام طور پر ہاتھوں کی انگلیوں، پاؤں ، ایڈھی یا جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے ۔

اگر یہ مرض متعدی ہو تو اس کے آثار ایک سرخی مائل دھبے کی صورت میں اکثر چہرے، کان کے اوپر، بازو اور ٹانگوں یا پیٹھ پر نظر آتے ہیں ، ایسی صورت میں چہرے کا سرخ ہونا یا سوجھنا اور پیٹھ پر یہ آثرات دیکھے جا سکتے ہیں، اس صورت میں اس کی تشخیص مشکل ہو جاتاہے، چونکہ اس کے اثار بعد میں ظاہر ہو تے ہیں، شروع میں آنکھوں کی آبرو گرتے ہیں ، ناک کے نوتھنے ضائع ہو سکتے ہیں یا اندھا پن ہوسکتاہے،

ابتدائی علامات: (۱) اگر کندھوں پر سفید دھبہ ہو ، ٹانگوں کی تھائی یا بٹک پر ایسے دھبے پائے جائیں جو کہ چھ ہفتے سے زیادہ رہے اور ان میں درد نہ ہو تو یہ علامات لیپروسی یا جذام کے ہو سکتے ہیں ، اس لئے جلد سے جلد ڈاکٹر سے رجو ع کیا جائے جو کہ جذام کے مخصوص سنٹرز میں ہو تے ہیں ، جو کہ زیادہ تر شہروں میں یہ سنٹرز اور خاص کر ضلعی ھڈکواٹر ز کے ہسپتالوں میں یہ سنٹرز قائم ہیں،

(۲) اگر جسم کے کسی بھی حصے میں دھبے ، کھال یعنی چمڑے کا پتلا ہونا ، سرخ ہو نا ، خاص کر چہرے کا سرخ ہو نا، یا کان کے لو کا سرخ ہو نا بھی لیپروسی کے علامات ہیں ۔

(۳) جسم کی کسی بھی حصے کی بے حسی، چھونے سے محسوس نہ ہو نا، جسم کے کسی حصے کا سردی یا گرمی کا احساس نہ ہو نا، ہاتھوں یا پاؤں میں ایسا ہو تو اس کا امکان ہے اور کسی مخصوص ڈاکٹر سے جو کہ جذام کا ماہر ہو چک کرانا چاہئے۔

(۴) پورے جسم کا گرمی محسوس کرنا ، یا جسم کے ایسے حصوں میں چمڑے کے اندر چیونٹیاں دوڑتی ہوئی محسوس ہونا، یا عضلاتی درد خاص کر بازو ،کے نیچے، ٹانگوں میں سخت درد ہو تو یہ بھی انتباہ ہے کہ لیپروسی ہو سکتا ہے۔ بر وقت علاج کر ا کے معذوری سے بچا جا سکتا ہے،

اگر اس بیماری کا بر وقت علاج کرایا جائے تو معذوری سے بچاجاسکتاہے۔ اس لئے کسی بھی علامت کے ظاہر ہو نے پر اس بیماری کے خصوص ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے

جذام یا لیپروسی کا علاج : لیپروسی یا جذام حقیقتاََ ایک قابل علاج مرض ہے ، اگر اس مرض کا پتہ چل جائے تو اس کی ابتدائی مرحلوں میں اس کا علاج اس طرح سے ہو تاہے کہ بعد از علاج کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ یہ بندہ جذام کا مریض رہ چکا ہے، ، اگر مرض حد سے بڑھ چکا ہو تو بھی اس مرض کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتاہے اگر کوئی شخص معذور ہو چکا ہو تو مزید کسی معذوری سے بچایا جا سکتا ہے اور وقو ع پزیر معذوری کو سر جیکل اوپریشن کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتاہے۔

جلد یا بدیر علاج بہت ضروری ہے ، اگر مریض زیادہ معذوری کی حالت میں ہو تو علاج میں دس سال بھی لگ سکتے ہیں ، اور زیادہ تشویش ناک حالت میں ہو تو نزید تکلیف سے بچایا جاسکتاہے اور ہو سکتا ہے کہ زندگی بھر دوائی پر رکھا جائے اور علاج کا معاوضہ بالکل بھی نہیں ہے، جو کہ آدھا یا ایک خوراک روزانہ لے کر مرض کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا میں اس کا پھیلاو: تقریباََ ۱۶ ملین لوگ پوری دنیا میں اس موزی مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے تقریباََ ۲ ملین سے زیادہ لوگ علاج پر یقین رکھتے ہیں ، ایشیا ء میں اس مرض میں سب سے زیادہ لوگ مبتلا ہیں جو کہ بھارت ، تھائی لینڈ ، برما، جو کہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک تصور کئے جاتے ہیں ، افریقہ جوکہ سب سے زیادہ متاثر ہے جب کہ جنوبی امریکہ میں یہ بیماری تقریباََ عام ہے ، یورپ جذام

فری ہے سوائے اٹلی ، سپین اور مالٹا میں ایکا دوکا واقعات سامنے آتے ہیں ، (یہ معلومات بہ شکریہ ) میری ایڈ یلیڈ لیپروسی سنٹر مریم منزل شاہر اہ لیاقت کر اچی کے شائع کردہ معلوماتی کتابچہ سے حاصل کئے گئے ہیں ، ( جس کو ڈاکٹر روتھ فاؤ مرحومہ نے قائم کیا تھا ۔ )

اس معلوماتی کتابچہ کے مطابق پاکستان میں یہ مرض ہندوستان سے اُ س وقت پاکستا ن آئی تھی جب ۱۹۴۷ء ؁ میں اس مرض میں مبتلا کچھ لوگ پاکستان ہجرت کر کے پاکستا آئے تھے او ر پھر کچھ کچھ اردو سپیکر لوگ بنگلہ دیش کی وجود کے بعد بھی یہ مرض ساتھ لے کر پاکستان آئے تھے۔

پاکستا ن کے کچھ علاقے خاص کر سوات، کوہستان، ہزارہ، آزاد کشمیر اور بلوچستان ( مکران ڈویژن) میں یہ علا قائی مرض ہے اندرون سندھ اور کراچی میں بھی زیادہ ہے۔ پنجاب میں بہت کم ہے اس کے علا ج کے خاطر حکومت پاکستان کی طرف سے اور پرایؤیٹ ادارے قائم کئے گئے ہیں اس کا م کے لئے پیرا میڈیکل سٹاف کو ٹریننگ دیا جاتا ہے ۔

کراچی میں گریٹر لیپرو سی سکیم کے تحت بہت بڑے پیمانے پر کا م کیا جاتاہے اور جگہ جگہ ، لیپروسی سنٹر کھولے گئے ہیں ، کراچی میونسیپل کمیٹی کے تحت منگو پیر میں بھی ایک لیپروسی سنٹر چلایا جارہا ہے ۔ میری ایڈ یلیڈ لیپروسی سنٹر جو کہ کراچی شہر کے وسط ( سنٹر) صدر میں واقع ہے، جو بہت بڑے پیمانے پر کام کررہا ہے ، اس سنٹر کو محترمہ روتھ فاؤ ( مرحومہ) نے قائم کیا تھا ، یہاں پر سٹا ف کو اور پیرا مڈیکل سٹاف کو تربیت دی جاتی ہے اور پورے ملک سے لوگ آکر یہاں تربیت حاصل کر کے اپنے علاقوں میں جاکر خدمات انجام دیتے ہیں ، اس ہسپتال میں اوٹ دور اور ان ڈور دونوں قسم کی سہولیات حاصل ہیں ،

یہ بیماری بہت کم ایک مریض سے دوسرے کسی شخص کو لگ جاتی ہے، صرف انفکشن قسم کی جذام پھیلنے کے امکان بہت کم درجے میں ہو تے ہیں، اس کا اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں لیکن یہ اندازہ ہے کہ بہت زیادہ جسم کا جسم سے رابطہ رہا تو ممکن ہے یعنی اگر کسی مریض کے جسم پر مرض کی شدت کی وجہ سے زخم ہو اور دوسرا شخص بہت زیادہ اس شخص کے جسم سے ٹچ رہے تو اس صورت میں امکانات ہیں ، لیکن یہ بیماری عمو ماَ متعدی یعنی ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگنے والی بیماری نہیں ہے۔

احتیا طی تدابیر: (۱) جذام ایک موزی مرض ہے اس لئے اس کے روکنے کے لئے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کیا جائے۔

(۲) اس بات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھلایا جائے کہ یہ قابل علاج بیماری ہے ، اس کا بر وقت علاج کرانے سے مریض مکمل صحت یاب ہو سکتا ہے۔

(۳) اگر کسی خاندان کا کوئی فرد اس بیماری میں مبتلا ہو تو فوراََ اس کا علاج کرایا جائے، اور گھر کے تمام افراد کا بھی جذام کے ماہرین سے چک اپ کرایا جائے

(۴) مریض کے بستر ، تولیہ اور رومال وغیرہ کو علحدہ کیا جائے، مگر کھانے پینے کے برتن علحدہ کر نے کی ضرورت نہیں، لیکن جلد جذام کے ماہر ڈاکٹر وں سے معائنہ کرایا جائے،

(۵) یہ دیکھا جائے کہ مریض دوائی باقائدہ گی کے ساتھ لے رہاہے۔

(۶) زیادہ متاثر مریض کو کسی سنٹر یا جذام کے ہسپتال میں داخل کرایا جا کر علاج کرایا جائے

(۷) مریض کی سردی گرمی کو محسوس کرنے کی حس ختم ہو جاتی ہے اس لئے زیادہ گرم اشیاء سے بچایا جائے تاکہ وہ گرم اشیاء سے جسم کو نہ جلا ئے

(۸) سب سے بڑھ کر یہ کہ مریض کو نظر انداز نہ کیا جائے ، اسے زندگی کے نارمل سر گرمیوں میں شامل رکھا جائے

(۹) بچوں کو مریض کے ساتھ سو نے سے روکا جائے

(۱۰) علاج کے بعد مریضوں کو سو سائٹی کا حصہ بنائے ، ان کو ملازمت وغیر ہ میں شامل کیا جائے اور کسی بھی صورت مین اس بیماری کو چھپانا نہیں چاہئے بلکہ فوراََ علاج کے لئے رجوع کیا جائے۔

علحدگی : جدید تحقیقات اور علاج سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جذام کے مریضوں کو ان کے رشتہ دار وں اور سو سائٹی کی منفی روئیے سے بھی یہ مرض زیادہ پھیلنے کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ان کی ابتدائی طور پر ہی علاج کے لئے کوشش کی جائے۔جذام کے مریضون کی علحدگی بچوں کی زندگی پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے اور نفسیاتی ٹراما کا باعث بن سکتا ہے۔ اور بچے معاشرتی ناموافقت اور غیر ضروری تحفظات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بلکہ مریض کو صرف ضروری احتیاط برتنے کو کہا جائے اور اگر کسی میں اس کےء علامات ظاہر ہوں تو فوراََ علاج کرایا جائے ، علاج معالجہ کی سہولتیں ہر شہر میں آج کل پوری دنیا میں میسر ہیں۔

جذام کا قلع قمع کر نے کے لئے ضروری اقدامات

( ۱) اگاہی یا تعلیم : عوام الناس کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ جذام یا لیپروسی کے علامات ظاہر ہو تے ہی مریض کو جلد از جلد جذام کے سنٹر یا ہسپتال پہنچایا جائے، عوام الناس کو اس بات کی اگاہی ہو کہ یہ بیماری کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں

منفی پرو پگنڈہ کو ختم کیا جائے ، اور مریض کو معاشرے کا ایک فعال کردار سمجھا جائے ،۔

(ب) میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف

ابھی تک جذام کو میڈیکل اور پیرا میڈیکل کی تر بیت کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے یہاں تک کہ ہر ڈاکٹر بھی اس کی تشخٰیص میں اہم کردار ادا نہیں کر سکتا ۔ اس کی ٹریننگ کو بھی عام بیمارویوں کی طرح تمام میڈیکل سٹاف کی تربیت کا حصہ بنا دیا جائے

(۲) علاج معا لجہ کی بہم رسانی : علاج معالجہ کی سہولتوں کو مریضوں کے لئے آسان بنانے کے لئے گھر کی دہلیز تک علاج کی سہولت کو بہم پہنچانا ضروری ہے۔ اور تمام ہسپتالوں میں جذام کا علاج معالجہ کا بھی بندوبست کیا جائے۔

(۳) لوگوں کی تربیت : ابھی تک بہت کم تربیت یافتہ ڈاکٹر وں اور تربیت یافتہ میڈیکل یا پیرا میڈیکل سٹاف یا ٹکنیشنز کی مدد سے جذام کا علاج کرایا جا رہا ہے۔ ۔ پاکستان میں جذام کا قلع قمع کر نے کے لئے ہم سب کا فرض ہے کہ جذام کے مریض ہمارے بھائی ہیں ان کی مدد کریں اور آنے والی نسلوں کو اس موزی مرض سے بچانے کے لئے صرف حکومت پر انحصار نہیں کر نا چاہیئے

اس لئے جذام سے نجات کی امید کا جذبہ پھیلایا جائے ، اس چیز سے اجتناب کیا جائے جس سے میلان خاطر کا اندیشہ ہو یعنی کسی کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا اہتمام ہو ، ایسی چیزوں کو ختم کیا جائے ۔ اس جہاد میں شمولیت اختیار کریں ،۔ انشا اللہ یہ دشمن جلد پاکستان سے ختم ہو گا

جاوید احمد ساجد سلطان آبادوی یاسین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button