شعر و ادب

ہائے کاش انہیں کوئی سمجھائے…!!!

بقلم سعدیہ مہ جبیں
کیفے ٹیریا میں بیٹھے چائے کے گھونٹ لیتے، سورج جس کی ہلکی ہلکی تمازت سے لطف اندوز ہونے میں بیٹھی تھی، وہی گرمائش مجھے اچانک آگ کی طرح جھلسانے لگی تھی… میری خوش شکل نہیں خوبصورت دوست، میرے سامنے بیٹھی چائے کے گھونٹ لے رہی تھی…مگر آج اس کی وہ خوبصورتی کہیں غائب ہو گئی تھی… چند لمحوں میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے.. لیکن ایسا ہوا تھا… میں نے خود ایسا ہوتے دیکھا تھا…میں نے دوبارہ سے اس کے چہرے کے خدو حال کا جائزہ لیا، وہی سب کچھ… چمکتا چہرہ، نکھری شخصیت… ہر چیز اپنی اپنی جگہ مکمل… لیکن کچھ کھو گیا تھا… جس کا اسے پتا نہیں تھا… جس کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا… اس کے ابھی کچھ دیر پہلے کہے کچھ الفاظ نے اس کا سب کچھ ابھی چھینا تھا… یا میں نے حقیقت کا ادراک بہت دیر میں کیا… *چاروں طرف ہر چیز روزانہ کی طرح معمول پر تھی، لڑکیوں کے قہقہے، کینٹین میں برتنوں کی کھٹ پٹ، آنے جانے والوں کے قدموں کی سرسراہٹ، مگر میں صرف دو ہی لفظ سن پا رہی تھی..*
*”کون اللہ”*
____________________
*تم نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے…* سامنے بیٹھی دوست کو دیکھ کر میں نے افسوس سے کہا…
دکھ کے اس چھوٹے سے دورانیے سے خود کو میں نے بہت جلدی نکال لیا تھا… اب آہستہ آہستہ غصہ مجھے اپنی لپیٹ میں لینے لگا…
مجھے یہ سب کچھ ہمیشہ سے پسند تھا… اب میں کیا کروں…دوپٹے سے بےنیاز کندھے اچکاتے بے پروائی سے وہ بولی…
مگر یہ تمھارا تبرج تمھیں جہنم میں لے جا سکتا ہے…… میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا…
تو مجھ میں ایسی فطرت ڈالی ہی نہ جاتی…
تو اللہ پھر تمھیں آزماتا کیسے…؟
کون اللہ…؟
میں نے حیرانی سے اسے دیکھا…
وہ اللہ، جب لوگوں کو بھوک سے غشی کے دورے پڑتے ہیں، تب مدد کو نہیں آتا مگر تم جیسے لوگ آ جاتے ہیں یہ بتانے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو…
وہ آج کیسی باتیں کر رہی تھی… گو کہ ہماری دوستی میں کچھ عرصے کی جدائی آ گئی تھی…اور اب جو سالوں بعد ہم اچانک ملے تھے تو مجھے اس کی یہ حالت وحشت اور بے یقینی میں مبتلا کر رہی تھی…
___________________________
آگ لگ جاتی ہے مجھے جب کوئی میری ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرتا ہے… میں کس سے مل رہی یا کس سے نہیں، کیا کرتی ہوں کیا نہیں… آخر کسی کو کیاااا….؟؟؟
آخری لفظ کو لمبا کھینچتے وہ چلائی…
جسے تم دخل اندازی کہہ رہی ہو…وہ رہنمائی ہے…
ہنہہ…  اس نے غصے سے ہنکارا بھرا…
"اور یہ رہنمائی اسلام کرتا ہے… میں نے پرسکون انداز سے کہا…”
او پلیز… بس کرو… رہنے دو… مجھے میرے اصولوں پر زندگی گزارنی ہے… میرا دل، میری مرضی…
نہیں تمھارا دل، اللہ کی مرضی… یہ نعرہ ایسے بنتا ہے… نہ چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ میرے چہرے پر عود آئی… جس نے اسے طیش میں مبتلا کر دیا… پرس کو اٹھا کر غصے سے مجھے دیکھتی وہاں سے چلی گئی… جو بھی تھا مجھے اس کی اس گمراہی پہ افسوس ہو رہا تھا… کچھ وقت ساتھ گزارا تھا ہم نے… وہ شروع سے ہی باطنی طور پر ایسی تھی یا کسی فتنے نے اسے ایسا بنایا تھا… میں جاننا چاہتی تھی اور وہ مجھے بتا کر نہیں گئی تھی… میں اسے مجبوری نہیں کہوں گی کہ مجبوری انسان کو گنہگار بناتی ہے، سرکش نہیں…
____________________
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟”
"یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو در حقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں…” القرآن
سورہ جاثیہ (23، 24)
__________________
اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی…
دوپٹہ چادر، گلی سڑی لاش کو مبارک…
*دارلحکومت میں شرم وحیا سے بیزار عورتوں کا ہجوم ہاتھ میں بینرز اٹھائے وہاں، جہاں میری گاڑی اشارے پہ رکی تھی، کھڑا تھا… وہ عورتیں پتا نہیں کیا بول رہی تھیں…* کیونکہ آوازیں گڈ مڈ تھیں لیکن بینرز پہ لکھے حروف نہایت واہیات اور غلیظ تھے… رنج و دکھ سے میں کچھ لمحے کے لیے بے حس و حرکت ہو گئی … یہ کون عورتیں تھیں…
 اور زیادہ تکلیف تو اس وقت ہوئی جب انہی کی صف میں، میں نے اپنی اسی دوست کو کھڑے دیکھا… جو اس دن اللہ سے بغاوت کا اظہار کر رہی تھی… اور آج وہ انہی مذہب بیزار عورتوں کے ہجوم میں کھڑی تھی…
میرا دل کیا کہ گاڑی سے اتر کر اسے اس گھٹیا ہجوم سے باہر نکالوں لیکن ٹریفک نے ایسا کرنے سے روک دیا… میں نے اسے آواز لگانا چاہی… کہ خدا کے لیے اس صف کی عورتوں سے باہر نکل آو… لیکن میری آواز گلے میں ہی رندھ گئی… مجھے یقین نہیں ہو پا رہا تھا…
میری ایک استاد اکثر یہ جملہ کہا کرتی تھیں…
عورت چاہے تو اپنے ایمان کو بچانے کے لیے اپنی جان بھی دے سکتی ہے اور بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو دو ٹکے میں اپنا ایمان بیچ دیتی ہیں…
ایمان کے لیے جان دینے کی بات تو سمجھ میں آ گئی تھی جب میں نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنھا اور مشاطہ فرعون کے واقعات پڑھے… مگر میں ہمیشہ اس کا مطلب نہیں سمجھ پاتی تھی… کہ ایمان کیسے بیچا جا سکتا ہے… اور
آج جب سمجھ آئی تو کیا آئی…
یا تو یہ ایمان چن لیتیں… یا پھر دنیا میں چند برسوں کی عیاشی…
یہ عورتیں آزادی کے اس سراب کی دعویدار…. جس کی قیمت دو پیسے بھی نہیں…اس کے لیے دو ٹکے میں اپنا ایمان، اپنی عزت بھیج چکی تھیں…وہ ایمان جس کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں بھی نہیں لگائی جا سکتی…
یہ دوپٹہ اتار کر دنیا میں مقام حاصل کرنے والیں ، حقیقت سمجنے سے قاصر تھیں…
مجھے ان عورتوں کے لیے بہت افسوس ہو رہا تھا…
ٹریفک سگنل سبز بتی پہ منتقل ہوا تو میری گاڑی بھی حرکت میں آ گئی…میں نے بے بسی سے سر کو سیٹ پہ ٹکایا اور آنکھیں موند لیں… میرے دماغ میں اس وقت صرف ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا…
*ہائے کاش انہیں کوئی سمجھائے…*
ایڑیاں اٹھا کر چلنے سے قد بھی کبھی اونچا ہوا کرتے ہیں..
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button