کالمز

حسیں اِک چاند سا بیٹا، شیخو سلیم سے شیخو سمیر تک

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

وہ دن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ڈھل رہا تھا جب میں بوبر میں عیدالفطر کی نماز سے فراغت کے بعد سوئے گلگت روانہ ہوا تھا۔ گلگت میں بچے انتظار کر رہے تھے۔ وہ غالباً عید کی خوشیاں اپنے بابا کے ساتھ منانا چاہتے تھے اور بابا بھی ایسا کہ ایک عرصے تک بچوں سے دُور غمِ دوران و غمِ روزگار کے سلسلے میں گھر سے باہر تھا۔ جونہی پردیسی بابا یعنی میرے قدم حویلی کے بیرونی دروازے سے اندر پڑے تھے میں نے چاند کو دیکھا تھا یہ الگ بات کہ رویتِ ہلال کمیٹی دو دن پہلے چاند کو آسمان پر ڈھونڈ رہی تھی۔ میں حیران ہوا تھا لوگ چاند دیکھ کے عید مناتے ہیں میں عید منانے کے بعد چاند سے روبرو تھا۔ اس زمینی چاند سے بغلگیر ہوتے ہوئے مجھے کئی سال پہلے کریم منزل کے صحن میں سجا مشاعرہ یاد آیا تھا، اپنی شادی یاد آئی تھی، شادی میں پڑھے گئے سہرے یاد آئے تھے اور اپنے دوست پروفیسر اشتیاق احمد یاد کا وہ دعائیہ سہرا اور اس دعایہ سہرے کا وہ انوکھا شعر یاد آیا تھا جس میں یاد صاحب نے کہا تھا اور خوب ہی کہا تھا؎

خدا تجھ کو عطا کر دے حسین اِک چاند سا بیٹا
بصیرت اور حکمت کا وہ اِک سالار ہو جائے

آج میں اسی زمینی چاند اپنے پیارے بیٹے شیخو سمیر سے ملا تھا۔ یہ میرا شیخو سمیر تھا ہندوستان کے آخری تاجدار شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی اکلوتی اولاد شیخو سلیم نہیں۔ شیخو سلیم اور میرے شیخو سمیر میں بڑا فرق ہے۔ شیخو سلیم مغل شہنشاہوں کا خون اور اکبر بادشاہ کی امیدوں کی آخری کرن بلکہ میرے شیخو سمیر کا شجرۂ نسب علم و ادب کی دُنیا کے بے تاج بادشاہ حضرت شیخ سعدیؒ سے ملتا ہے۔ اس لیے شیخو سلیم مے و میکدہ کا دلدادہ جبکہ میرا ننھا شیخو سمیر بقول پروفیسر یاد بصیرت و حکمت کا سالار۔ یہ بات مبالغہ آرائی نہیں حقیقت ہے۔ میرا اکثر وقت لیپ ٹاپ پہ ممتاز علمائے دین کی تقاریر اور دنیائے اسلام کے مشہور قاری صاحبان کی تلاوت سننے میں گزرتا ہے۔ ایسے میں اگر یہ ننھا شیخو جتنی بھی کھیل میں مصروف ہو۔ تلاوت کی آواز سن کے حاضر ہوتا ہے۔ اور اپنی ننھی انگلیاں ہونٹ پہ رکھ کر آشا کو خاموش ہونے کا اشارہ کرتا ہے۔ بچے من کے سچے ہوتے ہیں اور بات کے پکے۔ میں ان کو اکثر کہتا ہوں جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتی ہو تو خاموش رہ کر تلاوت سننا چاہئیے اس سے ثواب ملتا ہے۔ اس لیے شیخو تلاوت کے اختتام تک ایسے خاموشی سے میری گود میں بیٹھ جاتے ہیں کہ ان کی خاموشی اور معصومیت پہ میرے دل میں جہاں تشکر کا جذبہ اُبھرتا ہے وہاں اس ننھے شیخو کی زندگی اور درازیٔ عمر کے لیے دُعا بھی نکلتی ہے۔ یہی میرے چاند کا قصہ ہے۔ ہاں میرے زمینی چاند، میرا بیٹا، میرا شیخو۔ ہر ایک کا اپنا چاند ہوتا ہے۔ رویتِ ہلال کے نام اپنے اشعار میں دوستِ محترم جمشید دُکھی اپنے چاند کا تذکرہ یوں کرتے ہیں؎

کبھی خیال کبھی دل کے گھر میں رہتا ہے
کوئی تو ہے جو مسلسل سفر میں رہتا ہے
جنہوں نے چاند نہ دیکھا ہے وہ تلاش کرے
ہمارا چاند ہماری نظر میں رہتا ہے

دوستو! میں یہ بان مکتی کیوں باندھ رہا ہوں اور شہنشاہ اکبر اور ان کے شہزادے شیخو سلیم کا تذکرہ کیوں چھیڑ رہا ہوں۔ شہنشاہ اکبر تاریخ میں بہت ہی عادل اور نیکوکار مشہور ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک عادل بادشاہ کی اولاد سکون مے و میکدہ میں ڈھونڈتی ہے اور اس قدر بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کی عظیم سلطنت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ یہاں تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئیے فلم مغلِ اعظم) ہماری اولاد ہمارے لیے چاند تاروں کی حیثیت رکھتی ہے۔ کون کم بخت ہوگا جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتا ہو۔ اب جب محبت ہے، اُلفت ہے اور ان کے لیے بہتر مستقبل کی چاہت ہے تو ہمیں ان کی بہترین تربیت کرنی ہوگی۔ ان کو وقت دینا ہوگا۔ دسترخوان کو پاک رکھنا ہوگا۔ اپنی اولاد کے ساتھ علمائے حق اور ممتاز اسکالرز کے ویڈیوز کو سننا ہوگا۔ ہاں علمائے سو کے شر سے ان کو دور رکھنا ہوگا۔ اس سے ان میں خوداعتمادی آئے گی اور ان کی بہتر انداز میں تربیت ہوگی۔ پھر وہ یقیناً زندگی کے میدان میں چاند تاروں کی طرح اپنی روشنی سے معاشرے کو منور کریں گے۔ انشااللہ العزیز!

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ تذکرہ ہو رہا تھا دوستِ محترم پروفیسر یاد صاحب کے دعائیہ سہرے کا۔ چلے لگے ہاتھوں یاد صاحب کا پورا سہرا ہی پڑھ لیجئیے اور لطف اُٹھائیے۔

تری شادی سے تیرا گھر گل و گزار ہو جائے

نئی یہ زندگی تیری ہمیشہ پیار ہو جائے

رہو ہر پل کریمی دُور دُنیا کی مصیبت سے

تمہارا ہمسفر تیرا سدا غمخوار ہو جائے

بنے بھابھی ہمارے دوست کے دل کی حسیں دھڑکن

ہمارے دوست بھابھی کے گلے کا ہار ہو جائے

ترا کنبہ ہمیشہ درد کی دولت کو کر دے عام

جہاں سارا تیرے کنبے کا پھر دلدار ہو جائے

خدا تجھ کو عطا کر دے حسین اِک چاند سا بیٹا

بصیرت اور حکمت کا وہ اِک سالار ہو جائے

ترے فن میں ہمیشہ نورِ وحدت کی ہو آمیزش

ترے علم و ہنر سے شاد یہ سنسار ہو جائے

پروفیسر اشتیاق احمد یاد میرے دوست، میری دُعا ہے کہ اللہ پاک آپ کے کہے ہوئے شبتوں کو قبولیت کی منزل سے ہمکنار فرمائے۔ آمین!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button