کالمز

گلگت بلتستان اوئرنس فورم، جوانوں کی بیداری کا ایک موثر پلیٹ فارم

تحریر :شریف ولی کھرمنگی
بیجنگ چائینہ

گلگت بلتستان ستر سالوں سے بنیادی شہری حقوق سے محروم ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی یہاں اظہار رائے کا وہ جمہوری حق نہیں جسے مہذب دنیا بنیادی ترین حقوق میں اولین حق سمجھتے ہیں۔ جسکی حالیہ واضح مثالیں علاقے کی موثر ترین آواز آغا علی رضوی، شیخ علی محمد کریمی، انجنئر شبیر، یاور عباس اور دوسرے پر امن اور محب وطن افراد کو دہشت گردی ایکٹ کے شیڈول فور میں ڈالنا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ حافظ سلطان رئیس اور دوسرے رہنماوں پر گلگت میں پر امن احتجاج کے دوران شیلنگ کرکے زخمی کرنے کی صورت میں واضح ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جوانوں میں محرومیوں کا احساس دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن وطن کی محبت کوٹ کوٹ کربھرا ہوا ہونے کی وجہ سے کوئی ایسی تخریبی حرکت ان سات دہائیوں میں نہیں ہوا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہیگا یہ معلوم نہیں۔

ستر سالوں کے دوران گلگت بلتستان میں مختلف پلیٹ فارمز بنتے بگڑتے اور ختم ہوتے رہے۔ مگر عوام کو کسی طرح ایک متفقہ مطالبے پر یکجا نہیں کرسکا۔ جبکہ اکثریت ا?ج بھی ملک عزیز کا باقاعدہ حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں، اسکے باوجود کہ ایسا ہونا ا?سان ہوتا تو ستر سالوں میں ہوچکا ہوتا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مقامی افراد نے دوسرے آپشنز پر غورو فکر کرنا شروع کیا۔ کسی نے آزاد ریاست کا فارمولا پیش کیا، کسی نے آزاد کشمیر میں ضم ہونے کا مشورہ دیا، کسی نے اسی علاقے کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے کی بات کی تو کسی نے ہانگ کانگ وغیرہ کے طرز کا فارمولا پیش کیا۔ البتہ مقامی سطح پر ہونیوالے انتخابات میں چند ایک کے علاوہ انہی افراد کو عوام نے حق نمائندگی بخشی جو اسی ملک میں ممکنہ حیثیت دلانے کے وعدے کرتے رہے جو کہ اب تک ایفا نہیں ہوسکا۔

گلگت بلتستان اوئرنس فورم نے علاقے کے سیاسی و سماجی بڑوں کی اس فکری تقسیم کو درک کرتے ہوئے اس مسئلے کو ایک متفقہ بیانئے پر منہج کرنے کیلئے سوچ و بچار کی ، ساتھ ساتھ انہوں نے محسوس کیا کہ علاقے کے امور کو صرف علاقے کے اندر تک محدود رکھنے سے ایسا عملی فائدہ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ وفاقی جماعتوں کی طرفسے صرف نظر کرنے اور عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے میں شامل کرنے کی وجہ سے ہمارے حقوق کا اصل مسئلہ صرف ہماری حد تک محدود نہیں۔ اسلئے انہوں نے بڑے شہروں میں گلگت بلتستان کے سیاسی سماجی اور تعلیمی افراد کیساتھ ملکی شہرت یافتہ افراد کو بھی مدعو کیا تاکہ وہ بھی ان امور میں دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل سے انکو ہائی لائٹ کریں نتیجتا جیو نیوز جیسے ملک کے سب سے بڑے ٹیلی ویڑن پر پروگرامز منعقد ہوئے، صحافیوں نے موقر قومی اخبارات میں ہمارے مسائل پر مضامین تحریر کئے، اور سیاسی جماعتوں میں حالیہ انتخابات میں اپنے منشور میں گلگت بلتستان کے حقوق کی شقیں شامل کرلیں جو کہ اسی فورم نے بار بار ان کو باور کرانے کا بھی نتیجہ ہے۔

گزشتہ چند مہینوں کے اندر ملک کے کئی بڑے شہروں سمیت سکردو میں ایک موثر پروگرام کا انعقاد کیا اور ستر سالہ محرومیوں کو ملکی اور عالمی میڈیا تک پہنچایا۔ اس پلیٹ فارم میں بلا امتیاز تمام مختلف موقف رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنماوں کو دعوت دینے کیساتھ ساتھ ملکی سیاسی و صحافتی ہائی پروفائل افراد کو بلا کر ان سے علاقے کے معروضی حالات پر گفتگو کروائی جن کو ملک بھر میں بھرپور پزیرائی ملی اور علاقے کے تعلیم یافتہ جوان داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔ کیونکہ اس سے قبل اس سطح پرایسے منظم پروگرام گلگت بلتستان کے نام پر بنے کسی پلیٹ فارم سے منعقد نہیں ہوسکا تھا۔

ایسے میں حسب سابق ان پر اعتراضات اٹھنا کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی۔ بلکہ پہلے پروگرام کے بعد ہی کئی افراد نکتہ چینی کرتے نظر ا?ئے تھے۔ اب جبکہ اوئرنس فورم کے متحرک تعلیم یافتہ دوست اس عزم کیساتھ اٹھے ہیں کہ وہ علاقائی امور میں اپنی استطاعت اور قابلیت کیساتھ ہر ممکن سطح پر کردار ادا کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے اعتراضات اور الزامات کو خاطر میں لانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی کو چھوٹا ثابت کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہوتا کہ ہم دوسرے کو نیچا دکھانا شروع کردیں۔ بلکہ اپنے بل بوتے پر، اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو بروئے کار لانے سے ہی ہمارا قد اونچا ہوسکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں یہ روایت بہت کم نظر ا?تی ہے۔

گلگت بلتستان کا مسئلہ ستر سالوں کا الجھایا ہوا مسئلہ ہے، اسلئے یہ توقع بالکل بھی نہیں کہ ایک دم سے یا کچھ ہی مہینوں میں یہ معاملہ سلجھ جائیگا۔ یقیناًاس گتھی کو سلجھانے میں وقت لگے گا۔ جس کیلئے جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ درست راستے کی نشاندہی اور ایک بیانئے پر اکٹھا کرنے کیلئے ہرنطریئے کے افراد کو قائل کرنا مشکل ترین کام ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ کچھ نظریات انتہائی شدت پسندانہ ہیں، جو کہ اپنے کہے کے علاوہ کسی کا نہ سننا گوارا کرتے ہیں نا سمجھنا، تو ان کیساتھ الجھنا میرے خیال میں وقت کا زیاں ہے۔ جب اکثریت عوام اور خاص طور پر سیاسی و سماجی معاملات کا درک رکھنے والے پڑھے لکھے جوان اور بزرگ رہنما ایک متفقہ بیانیے پر اکٹھے ہوجائیں گے تو "میں نا مانوں” والی سوچ خود بخود دیکھتی رہ جائیگی۔

میری تمام تر نیک خواہشات گلگت بلتستان کے تمام باشعور جوانوں خاص طور پر گلگت بلتستان اوئرنس فورم کے منتظمین کے ساتھ ہیں جو علاقائی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنی مصروفیات کوترک کرکے قوم کیلئے وقت نکالتے اور اپنی نسلوں کے بنیادی حقوق کیلئے ہر ممکن سطح پر اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ کوئی عملا میدان میں کام کرتے ہیں تو کوئی قلمی اور بیک سپورٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے، اسلئیہمارے جیسے علاقے سے ہزاروں میل دور بیٹھے افراد کو بھی ا?پ لوگوں کو قلمی ، سماجی اور مورل سپورٹ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انشاللہ ہر تعمیری کام میں شانہ بشانہ پائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button