کالمز

گلگت بلتستان میں قبائلی تصادم

تحریر: ظفر اقبال

اج سے کم و بیش پانچ ہزار سال پہلے یعنی تین ہزار قبل مسیح میں گلگت بلتستان کی سرزمین انسانی ہجوم سے خالی تھی۔یہاں جنگلی جانور، دریا، پہاڑ اور جنگل موجود تھے۔  اس خلا کو پُر کرنے کے لئے وسطی ایشیا سے تورانی نسل کے بروشو قبائل اس سرزمین میں وارد ہوئے۔یہ قبائل ہندوکش کے پہاڑوں سے ان وادیوں میں داخل ہوئے۔ان قبائل کی پیشہ گلہ بانی اور کھیتی باڑی تھی۔پُر امن  اور مہذب لوگ تھے۔قلعہ بند ہو کر اجتماعی زندگی گزارتے تھے۔شروع میں ان بروشو قبائل نے بانڈی پور کو اپنا مستقیل مسکن بنا لیا۔یہ قبائل پھر یہاں سے مختلف جگہوں میں پھیلتے گئے۔کشمیر کے بھی پہلے آباد کار بروشو قبائل ہی تھے۔اس دشت بیابان اور بنجر زمین میں ہل چلا کر فصل اگانا یقیناً ایک مشکل مرحلہ تھا ۔لیکن ان قبائل نے اپنے زور بازو سے ان مشکل مراحل سے نبرد ازما ہوئے ۔بانڈی پورہ سے یہ قبائل گلگت، بلتستان، ہنزہ، یاسین اور مختلف جگہوں میں پھیل گئے۔اور اپنی زبان بروشسکی کے مناسبت سے انہوں نے جگہوں کے نام تجویز کی۔گلگت کا نام انہوں نے گری گرت رکھا۔کیونکہ یہاں مارخور بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔اور گلگت کے میدانی علاقے میں آ کے اچھلتے اور ناچتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس جگہے کا نام گری گرت پڑھ گیا۔اسی طرح گلگت بلتستان کی زیادہ تر جگہوں کے نام بروشسکی زبان میں ہیں ۔دریائے سندھ کا نام بھی بروشسکی میں ہے ۔سندھ ”سیندے“ سے نکلا ہے ۔”سیندے“ بروشسکی زبان میں دریا کو ہی بولا جاتا ہے۔تاریخ کے اس موڈ پے ریاست بروشال کی تشکیل نو ہوتی ہے۔جو ائندہ کئی عشروں تک اپنی پوری اب تاب کے ساتھ افتاب تاباں کی طرح افق پے چمکتی رہی۔دشوار گزار جگہوں سے راستے بنائے گئے۔نئی نہریں نکال کر زمینیں آباد کیں گئں۔غرض ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی تھی۔وقت اپنی رفتار سے گردش کرتا رہا اور وہ گھڑی بھی ان پہنچی کہ مغرب کی طرف سے مسلح اریاؤں کی آمد شروع ہو گئی۔جس طرح بروشو قبائل میں مختلف  قبیلے تھے اسی طرح اریاؤں میں بھی مختلف قبیلے شامل تھے۔اریاؤں کے جس قبیلے نے گلگت بلتستان کا رخ کیا وہ شین تھا۔جن کو اریاشین کہا جاتا ہیں۔اریاشین نے جب قلعہ بند بروشو پر حملہ آور ہوئے تو ان کو زیادہ جانی نقصان نہیں پہنچا سکے کیونکہ یہ قلعہ بند تھے۔اس وجہ سے ایک مخلوط حکومت کی بنیاد پڑ گئی ۔بروشو قبائل چونکہ پر امن لوگ تھے خون خرابے سے بچنے کے لئے ان قبائل نے دور دراز کے دشوار گزار علاقوں کو اپنے لئے منتخب کر لیا ۔جن میں یاسین،ہنزہ اور نگر کے علاوہ اور بھی علاقے شامل تھیں۔شین قبائل کی امد کے ساتھ ریاست بروشال کی خودمختاری ختم ہو گئی اور ریاست دردستان کی تشکیل ہوئی۔شین قبائل نے نہ صرف بروشو اقوام سے ان کی ریاست چھین لی بلکہ ان کی عظیم تہذیب اور ان کے تمدن کو بھی یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ریاست دردستان کی سرکاری زبان شینا تھی۔سن ١٨٦٦ تک دردستان کی تہذیب اور زبانوں کے بارے میں مہذب دنیا کو زیادہ معلوم نہیں تھا۔١٨٦٦ میں ڈاکٹر لیٹنر، جو کہ بونجی میں دریائے سندھ کے دہانے تک پہنچ چکے تھے،دردستان کی زبانوں کے بارے میں معلومات اکھٹیں کئں۔ڈاکٹر لیٹنر پہلے یورپین بن گئے جس نے ریاست دردستان کی حدود تک رسائی حاصل کی اور درد قبائل کے بارے میں معلومات اکھٹیں کئں۔اس کے  یکے بعد دیگریں مختلف اوقات میں یورپین اس ائسولیٹیڈ ریجن میں اتے رہیں۔جن میں ہیورڈ،بڈلف،ڈیورینڈ،ینک ہسبنڑ وغیرہ شامل تھے۔
جب سے ریاست بروشال کی زوال ہو چکی تھی تب سے شین اور بروشو(یشکون) قبائل کے درمیان اختلافات کی بنیاد پڑ چکی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ان اختلاف میں شدت پیدا ہو گئی۔اور بعض اوقات لڑائیوں  میں بھی اس نسلی تعصب کو بنیاد بنا کر قتل و غارت گری کی جاتی تھی۔تراخان حکومت کی سرکاری زبان بھی شینا  تھی۔اور ریاست کے  اہم عہدوں پر شین سردار تعینات تھے۔تراخان دور حکومت کے دوران یاسن  کی بروشو اقوام کے ساتھ  ناروا سلوک روا رکھا گیا۔یہی وجہ تھی کہ جب ان  قبائل کو ١٩ویں صدی کے اوائل میں نڈر قیادت نصیب ہوئی تو گلگت میں تراخان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔یہی نہیں بلکہ ہنزہ اور نگر کے بروشو اقوام نے بھی گلگت پر پے درپے حملے کر کے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دئیں تھیں۔یہی شین قبائل تھے جنہوں نے بروشو کے ہاتھوں اپنی بربادی کا بدلہ لینے کے لئے موڈوری قلعے میں یاسن کے بروشو قبائل کی نسل کشی کی ۔جن میں پونیال،گلگت، ہراموش،گور،سائی بونجی، استور اور چلاس کے شین سردار شامل تھے۔ہنزہ نگر کے بروشو اقوام سے بدلہ اینگلو بروشو وار میں شین قبائل نے لے لی۔
ان دو اقوام کے درمیان اختلافات تو صدیوں سے ہیں۔اج ٢١ویں صدی ہے دنیا اپنی ترقی کی عروج پہ ہے ۔لیکن حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں یہی نسلی تعصب کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے۔۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ہم ایک قوم تو درکنار ایک گروہ بھی نہیں بن سکتے۔ایک طرف بلتی قوم کے ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے۔بلتیوں کی اپنی الگ شناخت ہے انکی ٹوپی گلگتی ٹوپی سے مختلف ہے ۔اگر ٹوپی اور ثقافتی تہور منانا ہی مقصود ہے تو بلتی ٹوپی کو الگ شناخت دی جائے۔اپنی ٹوپی زبردستی ان کو نہیں پہنائی جا سکتی۔اس حوالے سے اہل بلتستان کے شديد تحفظات ہیں اور ہونا بھی چائیے۔اس لئے اس متنازعہ ثقافتی تہوار پے نظر ثانی کی ضرورت ہیں۔گلگت بلتستان میں بسنے  والی تمام اقوام  بلتی،وخی،بروشو ،شین،گجر،ڈوم ،کرمین تمام کو برابری کی بنیاد پے انکی پہچان کو برقرار رکھا جائے۔ہنزہ میں برسوں تک خاندان الیش اقتدار پے برجمان رہیں ۔یہ بروشو نہیں تھے لیکن انکے وزرا  جو کہ بروشو تھے جن کا تعلق ایک ہی خاندان درمتنگ سے رہا۔ جو کی وزیر مامت سے ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے اور وزیر ساجد اللہ بیگ پر ختم ہوجاتا ہے ۔سوائے قبیلہ برونگ ایک دفعہ اور برتلنگ قبیلہ دو دفعہ وزارت کے عہدے پر فائر ہوئے۔باقی پورے ادوار میں درمتنگ ہی وزارت کے عہدے پے فائز رہیں ۔درمتنگ کو  تھپ کین بھی کہا جاتا ہیں۔جب میر ایشو اول کے بعد میوری تھم ریاست ہنزہ کے گدی پے برجمان ہوئے تو ان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ قبیلہ تھپ کین (درمتنگ) طاقتور قبیلہ اور مغرور ہونے کی وجہ سے ان کی اقتدار کو خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔اور انکی مکمل نسل کشی کا منصوبہ تیار ہوا۔اور ان کی استحصال کے لئے دو قبائل   قبیلہ ہمچاٹنگ اور قبیلہ حسین کذ   کو زمہ داری سونپی گئی۔اور سالانہ تہوار تھمشلنگ میں بروم موس( علی آباد )میں انکا قتل عام کیا گیا۔تمام افراد  ایک ہی جگہے میں قتل ہوئے اور ایک بھی فرد زندہ نہیں بچ سکا۔اور یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جس سال تھپ کین کا قتل عام ہوا اسی سال ہنزہ میں فصليں نہیں اُگ سکیں۔پریشان حال قبائل نے قبیلہ تھپ کین کے نرینہ اولاد کی تلاش شروع کی اور ایک معصوم لڑکا  درم چھرم جو اس حادثے سے بچ چکا تھا وہ اس وقت اپنی ماں کے ساتھ ننیال میں موجود تھا۔اس کو بہت کوشیشوں کے بعد  ڈھونڈ لیا گیا۔اس کی ماں نے خوف کے مارے اسکی شناخت چھپائی تھی۔اور اس لڑکے کے ہاتھ سے تخم ریزی کرائی جس سے تازہ فصل پیدا ہوئیں۔درم چھرم کے سات نرینہ اولاد ہوئے۔جن میں سے تین افراد چھمر، درم ملتس اور درم دلتس نے غذر میں سکونت اختیار کی ۔چھمر چھشی میں آباد ہوا جن کو چھمرے کہا جاتا ہے، درم ملتس اور درم دلتش یاسن میں آباد ہوئے۔راقم کا تعلق بھی اسی قبیلہ درم دلتس سے ہے۔یاسن میں درمتنگ قبیلے کو فھتا کین کہا جاتا ہے۔اور ہنزہ کی طرح یاسن میں بھی تخم ریزی(بو-فاو) اسی قبیلے کے گھر سے شروع ہوتی ہے۔اور  فھتا کین ہر کام کی شروعات کرتے تھے ۔نہر میں پانی چھوڑنا ہو یا ذمینداری کا آغاز یاسن میں اسی قبیلے کے فرد کے ہاتھوں سے شروع ہوتا ہے۔۔یاسن(یاسین) میں یہ رسم خوشوخت دور اقتدار میں بھی  رائج تھی اور ان سے قبل بھی یہ رسم بدستور زمانہ قدیم سے چلی ارہی ہیں۔غرض گلگت بلتستان میں قدیم سے یہ نسلی تعصب اور قبائلی جنگ و جدل چلی ارہی ہے۔اس باہمی تصادم نے اس خطے کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ۔اب یہ خطہ مزید ایسے اختلافات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اج ہمیں باہمی یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت ہیں۔
یہی نسلی اختلاف نے ہماری خودمختاری کو داؤں پے لگا دیا۔کرنل مرزہ حسن خان اور اس کی ٹائگر فورس نے گلگت بلتستان  کو جب آزاد کرایا تو ہنزہ کے خاندان الیش نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط طور پے الحاق کیا کہ ہم ایک رونو کو کیسے اپنا قائد بنائے۔گستاخی معاف لیکن یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔اج گلگت بلتستان کے ہر فرد کو نسلی،لسانی،مذہبی اور تمام  اختلافات کو بھول کر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے  حقوق کی جنگ لڑنی ہے۔ہمارے حقوق کے راہ میں حائل قوتیں  بہت چالاک اور مکار ہیں۔وہ ہمارے ان اندرونی اختلافات سے بخوبی واقف ہیں تب ہی وہ ہمیں وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے ہم حقدار ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button