کالمز

کیازہر آلود تعلیم و تربیت مجازی ذات کی تعمیر کا ذریعہ ہے؟

تحریر: سبط حسن

’’بچوں کو بڑوں کی عزت کرنی چاہئے!۔۔۔ کیا بڑوں کو بچوں کی عزت نہیں کرنی چاہئے۔۔۔؟‘‘ ،’’بیوی کو خاوند کا وفادار ہونا چاہئے۔۔۔! کیا خاوند کو بیوی کا وفادار نہیں ہونا چاہئے۔۔۔؟‘‘ ، ’’ملازم کے لئے لازم ہے کہ وہ مالک یا افسر اعلیٰ کا فرمانبردار رہے۔۔۔!، کیا افسر اعلیٰ کے لئے قوانین کی فرمانبرداری لازم نہیں۔۔۔؟‘‘،’’سیاستدان او ربیوروکریسی ریاستی وسائل کو بلا جواز استعمال کرسکتے ہیں۔ بے شک وہ اسے ایک ناپسندیدہ لعنت سمجھتے ہیں مگر پھر بھی یہ ان کے لیے قابلِ قبول ہے۔۔۔!،ایسے میں کیا ایک ادنیٰ درجے کے اہلکار کی رشوت ستانی کو قابل گرفت قرار دینا درست ہے۔۔۔؟‘‘

جب کچھ نظریات کو اجتماعی سطح پر قبول کرلیا جائے تو گویا انفرادی او راجتماعی سطح پر فرد اور اداروں کی کارگزاری کا نسخہ طے کردیا جاتا ہے۔ بظاہر عقائد ونظریات خواہ کس قدر مبہم یا مجرد معلوم ہوتے ہوں، ان کو ماننے والوں کی ذات(Self)انھی نظریات کی ترکیب پر استوار ہوتی ہے۔ مثال کے طو رپر قدیم یونانی تہذیب میں عقیدہ یہ تھا کہ انسانوں کی زندگیوں میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہونا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ ہے او ریہ اٹل ہے۔ آج کے دور میں سب سے ممتاز نظریہ یہ ہے کہ کوئی فرد کس قدر اشیا کو زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہ بھی کہ ان اشیا کی نوعیت کیا ہے؟ انھی اشیاء کے استعمال سے اس کی سماجی شناخت طے ہوتی ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں، آج کے تمام معاشروں میں کسی شخص کی صارفانہ صلاحیت(Consuming Capacity) کو زندگی کے بنیادی نظریے، ذات اور زندگی کی طے شدہ ترکیب (Prescription) کے طور پر مان لیا گیا ہے۔

جس طرح سماجی شناخت کی بنیاد کو صارفانہ اہلیّت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اسی طرح ہر فرد کے کردار کو بھی طے کر دیا گیا ہے۔ کوئی فرد حقیقی طور پر جو کچھ ہے یا اپنی استطاعت کے بل بوتے پر جو ہوسکتا ہے، وہ قابلِ توجہ نہیں۔ ہر فرد کو، اگر وہ بچہ ہے تو اسے بچے کے طے شدہ خدوخال کیمطابق اپنا کردار ڈھالنا ہوگا اور اگر وہ بیوی ہے تو اسے بیوی کے طے کردہ اسلوب کے مطابق چلنا ہوگا۔ اسی طرح ہر کردار، خاوند، ملازم، افسر، چپڑاسی و علیٰ ہذالقیاس سب کو اپنی ذات کی سماجی شناخت انھی طے کردہ سانچوں کے مطابق کھینچ کھانچ کر قابل قبول بنانا ہوتی ہے۔

یعنی یہ کہ طے شدہ نظریات پر استوار ہونے والے معاشرے اور ان میں رہنے والے لوگ شعوری طو رپر قیدی ہوتے ہیں۔ اس قید کی فضا میں، چونکہ حقیقت سے تعلق کی گنجائش ہی نہیں ملتی، لوگ، ان کی ذات اور ان کی سرگرمیاں ایک عجیب قسم کے دیومالائی او ر تجریدی کہرے میں گم ہوجاتی ہے۔ آپ اپنے اردگرد بظاہر گوشت پوست کے انسانوں سے مل رہے ہوتے ہیں مگر دراصل وہ مجرد عقائد ونظریات پر گھڑے ہوئے بھوت ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات، خیالات، نظریات او رنصب العین اسی دیومالائی کہرے کی توسیع ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی زندگی محض مجازی (VIRTUAL)ہوتی ہے۔

II

سماجی یا اجتماعی سطح پر، افراد کے مابین ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی کا احساس اس بات پر ہوتا ہے کہ سب کے کرداروں کا ردّعمل متوقع او رطے شدہ اسلوب کے مطابق ہو۔ یہ بالخصوص ان معاشروں کے لئے بہت بنیادی ہوتا ہے جو عقائد ونظریات پر استوار ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ایک اجتماعی وابستگی کا احساس موجزن رہتا ہے۔ فاشزم فرد کے حقیقت سے تعلق کو توڑنے کے لئے اسی اجتماعی وابستگی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔۔۔ فاشزم میں کوئی فرد تصور ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اجتماعی روش سے قطع نظر اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھ سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی انفرادی رائے یا زندگی کے رویوں کو اجتماعی سطح پر پذیرائی نہیں ملتی۔ وہ اجتماعی سطح پر بے معنی ہوجاتے ہیں بلکہ قابل گرِفت قرار دیے جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں اقلیتی گروہوں کے تحفظ یا ان کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

فاشزم کی فضا میں، اجتماعی وابستگی کے زیرِاثر فرد کا دیگر ساتھیوں اور اجتماعی گروہ کے ساتھ جذباتیت(Sentimental)پر مبنی ایک تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ جذباتیت کی بنیاد اُتھلے جذبات پر ہوتی ہے۔ جس طرح شرمساری کے تانے بانے سماجی اور انفرادی رویوں کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح جذباتیت کا ایک وسیع ترگورکھ دھندہ، اسی شرمساری کے زیر سایہ پلتا رہتا ہے۔ جذباتیت، دراصل اس ادھورے پن اور کمی کو پورا کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو اس وسیع ترسماجی نظام کا خاصا ہوتا ہے۔ مثال کے طو رپر روایتی سطح پر ماں اور بچوں کے درمیان حقیقی اور صحت مند جذبات کی بجائے جذباتیت یا اس کی بلیک میل کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس رشتے کی حقیقی اساس کوئی نہیں ہوتی، اسے جذباتیت کے وسیلوں سے کھڑا رکھا جاتا ہے۔ اسی لئے اس رشتے میں حقیقی کشش کے نہ ہونے کے باعث قدرتی پن نہیں ہوتا۔ یہ محض فرض کی بجا آوری ہوتی ہے یا جذباتیت۔۔۔ یہی حال دیگر رشتوں میں نظر آتا ہے جہاں حقیقت سے عاری صورتحال کو جذباتیت کی کمک پر کھڑا کیا جاتا ہے۔

III

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ شرمساری اور جذباتیت پر مبنی ذات کا ماڈل حقیقت پسندانہ نہیں ہوتا۔ یہ تجریدیت کے کہرے میں گم رہتا ہے۔ اس لحاظ سے اس پر انحصار کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا، اس لئے اس کو سماجی توقعات کے مطابق حقیقی دکھانے کے لئے سوانگ رچانا ضروری ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جو رویہّ حقیقی ہو، اس کو حقیقی دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی لئے جذباتیت اور شرمساری کے ماڈل کے پس منظر میں ہمیشہ عدم قبولیت یا متروک ہوجانے کا خوف یا خدشہ رہتا ہے۔ جذباتیت اور شرمساری، ذات کے جس ماڈل کو فروغ دیتے ہیں، وہ دراصل جعلی ہوتا ہے۔ اس جعلی پن کے غیر حقیقی وجود کو حقیقی بنانے کے لئے کچھ زیادہ ہی چمک دمک کو شامل حال کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے آج کل دلہنوں کا میک اپ اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ وہ ان کے قدرتی حسن کو اجاگر نہیں کرتا بلکہ حسن کا ایک نیا روپ عطا کردیتا ہے۔ یہ نیا روپ اصلی نہیں ہوتا، اسی لئے پہلی شب کو جب دلہن میک اپ اتار کر سامنے آتی ہے تو وہ دلہن کی بہن معلوم ہوتی ہے۔

شرمساری اور جذباتیت کے ماڈل میں خوشی کا سرچشمہ فرد کے اندر نہیں بلکہ باہر ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے کام اور سرگرمیوں کی تصدیق وتوقیر کا انحصار بھی اس کے کنٹرول سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے جذبات، خیالات اور ترجیحات کی تصدیق اپنے طور پر نہیں کرپاتا اور نہ ہی ان کے ساتھ اپنی شناخت قائم کرپاتا ہے۔ نفسیاتی طو رپر اسے اپنی ذات کا خبط سا ہوجاتا ہے او رہرلحظہ دوسروں کی تعریف اور تصدیق کی کمک درکار رہتی ہے۔ اسی احساس کی تصدیق کے لئے ذات کو دولت، آن بان، طاقت او رمادی اشیاء کی ملمع کاری کی مدد سے زیادہ بڑا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سارے گورکھ دھندے کی تہہ میں دراصل ایک گہرا خالی پن (Emptiness) ہوتاہے۔ یہ خالی پن دراصل وہ شرمساری او رجذباتیت کا ماڈل ہے جو ذات کی گہرائی میں جاگزیں ہوگیا ہے۔

شر مساری او رجذباتیت کا ماڈل نسل درنسل چلتا ہے اور اس کے تحت کوئی بھی فرد انسان بننے کی بنیادی آزادیوں سے محروم کردیا جاتا ہے یعنی یہ کہ کوئی شخص اپنے حواس کی بدولت جو کچھ مشاہدہ کررہا ہے، وہ اپنی جگہ پر خواہ کتنا ہی درست ہو، اس کے لیے بہر حال شرمساری اور جذباتیت سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی آزادانہ حقیقت او رحیثیت بے معنی ہے۔ واضح رہے کہ سائنسی سوچ کی بنیاد مشاہدے پر ہوتی ہے۔اسی طرح سوچنے کی آزادی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ سوچنے کا دائرہ اسی طے شدہ ماڈل میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ اس کے باہر جانے کا مطلب اجتماعی ڈھانچے سے فرار کے مترادف ہے جو شرمساری کا باعث بنے گا۔ تاویل یا توجیہہ دراصل انفرادی آزادی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس لئے اس کو ختم کرنے کے لئے اوّل تو تاویل کی اجازت ہی نہیں، اگر کرنا بھی ہوتو اسی ماڈل میں دیے گئے پیمانوں کو ملحوظ رکھنا لازم ہوگا۔ اگر کسی شخص کو احساس کی آزادی مل جائے تو بھی انفرادی آزادی کا ایک روزن کھل سکتا ہے مگر اس مذکورہ ماڈل میں محسوس کرنے کے طے شدہ سانچے ہیں۔ عورت/بچوں/مردوں سے منسوب احساس مخصوص او رطے شدہ ہیں۔ مثال کے طور پر عورت کو جذباتیت پر مبنی رویہ اپنانا چاہئے او رمرد کو شدید دکھ میں بھی آنسو پی لینے چاہئیں۔

احساس کی آزادی ہوگی تو پسند، ناپسند کا معاملہ پیدا ہوگا۔ پسند، ناپسند ہوگی تو انتخاب کی آزادی کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ چونکہ یہ ماڈل انفرادی لطف اور اس کی نفی کرتا ہے، اس لئے کوئی بھی فرد اس نظام میں انتخاب کی آزادی سے محروم رہتا ہے۔ بعض اوقات فرد انتخاب کی آزادی استعمال تو کرتے ہیں مگر دراصل وہ صرف اسی چیز کو منتخب کرتے ہیں جس کی اس ماڈل میں لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایسے میں انتخاب کرنے کی آزادی محض ڈھونگ ہوتا ہے۔

مجازی ذات سے اس وقت تک چھٹکارا نہیں مل سکتا، جب تک اس ذات کی تعمیر کرنے والے تجرید پسند نظریات اور اس کی حفاظت پر مامور شرمساری او رجذباتیت کا ماڈل ختم نہیں ہوجاتا۔ اس کے لئے یکسر نئے نقطہ ہائے نظر کی ضرورت ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button