کالمز

طریقی مرحوم کی شاعری پر خسرو کا مقالہ

انجمن ترقی کھوار کھوار زبان و ادب کی ماں ہے ۔۔یہ کھوار زبان کا واحد محسن ہے ۔ اس نے شہزادہ حسام الملک کی کاوشوں سے جنم لیا اور ڈاکٹر فیضی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے ہاتھوں پرورش پائی ۔یہ وہ دور تھا کہ اس کے کارکن اس کے دیوانے تھے ۔دن رات کام ہوتا اس وجہ سے بین لالقوامی طور پر انجمن متعارف ہوئی۔ابھی تک کام کر رہی ہے لیکن اگر اس رفتار سے کام ہوتا تو یہ ایک اکیڈیمی بن جاتی ۔شہزادہ تنویر الملک اور صادق اللہ صاحب اب اس کے روح روان ہیں ۔کام ہو رہا ہے ۔لیکن وہ جذبہ دیکھنے میں نہیں آتا ۔۔سالانہ کچھ کتابیں چھپ رہی ہیں ۔کچھ پرانے کارکنوں کے شکوے ہیں ۔۔ان سب چیزوں کو چھوڑ کر انجمن کا وجود بر قرار ہے۔۔ بر قرار رہے گا ۔۔البتہ ایک آرزو یہ ہے کہ اگر اس انجمن کے تحت کھوار زبان پر تحقیقی کا م سنجیدہ طریقے سے ہوتا تو آج کھوار زبان کو جو خطرات لاحق ہیں وہ نہ ہوتے آج سچی بات ہے کہ کھوار کی کلاسکیت معدوم ہوتی جارہی ہے ۔۔اس کے خوبصورت الفاظ بھلائے جارہے ہیں ۔۔موسیقی سے شاعری تک اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ۔۔میں سوچتا ہوں کہ کل تاریخ آج کے کھوار کے محسنوں کو کھوار کا دشمن کہہ کر یاد کرے گی ۔۔انیس اگست کو صبح دس بجے جب ٹاون ہال پہنچا تو محمد چنگیز خان طریقی صاحب مر حوم کے شعری مجموعہ ’’بلائیدو گمبوری‘‘ ۔۔۔۔’’مرجھائے ہوئے پھول ‘‘کی تقریب رونمائی تیار تھی ۔۔محترم مولانگاہ صاحب کا انتظار تھا ۔۔مکرم شاہ صاحب جو کھوار ادب و تاریخ کے چمکتے تارے ہیں کچھ ساتھیوں کو لے کر نگاہ کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔۔نگاہ حاحب علالت کی وجہ سے طویل غیر حاضری کے بعد کسی پرو گرام میں شریک ہورہے تھے ۔۔آپ کی آمد ابر سے چاند نکلنے کے مترادف تھی ۔۔انجمن کے مرکزی صدر شہزادہ تنویر الملک اور جنرل سیکریٹری صادق اللہ صادق کچھ انجمن کے ساتھیوں سمیت موجود تھے ۔۔ہال میں داخل ہوئے ۔۔اے ڈی سی جناب منہاس الدین مہمان خصوصی تھے آپ کا تعلق بھی ایسے خانوادے سے ہے جن کا کھوار ادب پر بڑے احسانات ہیں ۔۔سٹیچ پہ مہمان خصوصی کے ساتھ طریقی صاحب کے بھائی ،محترم مکرم شاہ صاحب ،مولانگاہ صاحب اورانجمن کے صدر بران جمان ہوئے ۔۔پروفیسر ظہور میزبان تھے ۔۔آپ نے جب ’’مہمان‘‘ خصوصی کے لئے لفظ ’’سورچی مینو‘‘ کہا تو دل باغ باغ ہوا ۔پھر جب ’’ مخ پاشیک ‘‘ کہا تو ظہور خود سوال بن گیا ۔۔پروفیسر ظہور کھوار ادب کے میرے نزدیک درخشندہ تارے ہیں آپ کو چاہیے کہ ٹکسالی کھوار اپنے ابو سے حاصل کرے جو کھوار ادب کے ایک حوالے ہیں۔۔جس کو انگریزی میں ’’ریفرنس‘‘ کہا جاتا ہے ۔۔تلاوت کلام مجید کے بعد نعت شریف پیش ہوئی ۔۔پھر کتاب کو ہاتھ میں لے کر اس کی باقاعدہ رونمائی کی گئی ۔۔پھر پہلا مقالہ خسرو کا تھا ۔خسرو ایک سلجھے ہوئے قلمکار ہیں ۔۔انھوں نے مختصرمگر جامع انداز میں طریقی کی شاعری پہ تبصیرہ کیا ۔ان کا مقالہ پر معز تھا ۔۔طریقی مرحوم نظم کے شاعر تھے ۔۔ان کا وژن مضبوط تھا ۔ان کے خیالات واضح اور بلند تھے ۔۔آپ اصل میں ایک کلاسیکی دور کے نمائندہ تھے ۔۔ان کی زبان ٹکسالی تھی ۔۔ان کے کلام کی پروف ریڈنگ میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے تھا ۔طریقی صاحب روایات اور معاشرے کے شاعر ہیں ۔۔انھوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ محسوس کرتے لکھ لیتے ۔ان کے پاس شاعری کی خوبصورت زبان تھی اور ان کا اظہار ارفع تھا ۔۔انھوں نے ہر فن سخن کے لئے اپنا راستہ اختیار کیا ۔اسان بحروں میں طویل نظم لکھا کرتے اور موضوع کبھی تشنہ نہ رہتا ۔۔کھوار سے آپ کی والہانہ محبت تھی ۔۔ان کی نظم ۔۔’’کھوار راوور کھوار نیویشور‘‘ایک ترانے کا مقام حاصل کر لیا ہے وہ اپنی ثقافت کے دلدادہ تھے ۔۔ان کو کھو ثقافت سے چاؤ تھی ۔۔خسرو نے اپنے مقالے میں ان سب باتوں کا احاطہ کیا اور ان کی شاعری کے سارے پہلووں کو اُجاگر کیا ۔۔پشاور میں کھوار ادب کے عظیم کارکن سعید احمد ،ذاکر محمد زخمی ، شمس النظر ،محمد عرفان عرفان ،امان اللہ ،حمید اللہ ،طارق اقبال ،مکرم شاہ ،مولا نگاہ ،چترال کے قابل فخر بیٹا اسلم شیروانی ،صدر انجمن نے کتاب پرتبصیرہ کیا ۔مہمان خصوصی اور صدر محفل نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔عنایت اللہ اسیر ،حاجی اکبر حیات نے اپنی نظمیں پیش کیں ۔۔سٹیج سیکرٹری نے کچھ مہمانوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا ۔۔جنہوں نے اس محفل کو زینت بخشی ۔۔ان میں منصور شباب ،شمس النظر ،سول جج خالد بن ولی ، پروفیسر ممتاز حسین ،انجینئر خالد جمیل ،وغیرہ شامل تھے ۔۔کھور ادب کی یہ بھری پوری محفل تھی اس کے منتظمین سید الرحمن سیدی اور صادق اللہ صادق داد کے مستحق تھے ۔۔صدر انجمن کی کاوشیں بار یاب ہیں ۔۔کھوارزبان ایسی محفلوں پہ ناز کرتی ہے اور اپنی اصلیت کو ترستی رہتی ہے ۔۔مجھے خسرو کے مقالے کو پورا سننے کا شرف حاصل ہوا اور ایسی محفل میں اپنی موجودگی پہ ناز کر ہی رہا تھا کہ ایمرجنسی کال نے مجھے بار لے آئی آگے کی تفصیل سیکرٹری انجمن سے لے لی ۔۔انجمن ہماری پہچان ہے ۔اور کھوار زبان ہماری شناخت ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button