کالمز

ڈگری برادر نوجوان اور بےروزگاری

تحریر____ ضیا ٕاللہ گلگتی

نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتےہیں۔اس لیے کسی بھی معاشرے میں نوجوانوں کو بےحد اہمیت دی جاتی ہیں۔آج گلگت بلتستان میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فاٸدے اٹھانے کی بجاٸے انہیں بےروز گاری کےسیلاب کی نذر کردیاہے۔ایک سروے کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد ایک لاکھ 100000 تجاوز کرچکی ہے۔جس میں ہر سال مسلسل اضافہ ہورہاہے۔یہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندی کا نتجیہ ہے۔گلگت بلتستان میں قاٸم ہونے والی ہر نٸ حکومت نے اپنے سیاسی دکان چمکانے کےلیے نوجوانوں کےلیے کٸ سبز باغ دکھاٸے۔لکین پھر یہ سارے سبز باغ کوٸی قابل ذکر کامیابی حاصل کٸے بغیر ٹھپ ہوگیں۔گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خوش قسمت خطہ ہے۔جہاں نوجوانوں کی بھاری تعداد موجود ہے۔

Economic Survey Of Pakistan

کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان میں 20سے30سال تک کے نوجوانوں کی تعداد چار لاکھ (400000) سے تجاوز کرچکی ہے۔یقیناً یہ گلگت بلتستان کےلیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔جیسے ہم اپنے ذہانت،منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرسکتےہیں۔یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ ایسا کرےگا کون ؟

کیا گلگت بلتستان کے سیاستدان نوجوانوں سے فاٸدے اٹھانے کی بجاٸے انہیں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کےلیےاستعمال کرتےرہیں؟

کیا گلگت بلتستان کے حکومت نوجوانوں کو مناسب روزگار دینے کی بجاٸے انہیں یونہی سبز باغ دکھاتےرہیں گے؟

تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں مناسب روزگار دینا آخر کس کی فرض ہے؟

حقیقت یہ یہ ہےکہ ضرورت مند مگر بےروزگا نوجوانوں کے کوٸی آٹسٹ کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتےہیں۔یہ بےچارے کس سے فریاد کرے کس کو اپنے مدد پر آمادہ کرٸے۔کس سیاستدان یا اثرورسوخ والے کی منتیں کرے۔

14اکتوبر کو فاطمہ جناح وومن ڈگری کالج گلگت میں ایگری کلچر اور فشرز میں سکیل 11 اور 12 کی بھرتی کےلیے 1200 کی تعداد (بقول ctsp invigilator)میں کیڈیٹ نے ٹسٹ دیا جبکہ پوسٹ کی تعداد صرف 2 اور 4 تھے۔ان میں M.phil ایم ایس سی اور MA کے ڈگری ہولڈرز بھی بھاری تعداد میں شامل تھے۔یاد رہیے کہ ہر ایک امیدوار نے CTSP کیلے(220)روپے کا پٸے آرڈر یابینک ڈرفٹ جمع کروایا۔اس وقت ملک میں کسی بھی آسامی کےلیےہر بھرتی کیلے درخواستیں طلب کرتےہیں تو ساتھ میں ان بےروزگار نوجوانوں سے 500سےلیکر 1000تک پے آرڈر بھی طلب کرتےہیں۔اس طرح ہر سال لاکھوں روپیے۔آسامیوں کی مد میں اٹھالیاجاتاہے۔14 تاریخ کی ٹسٹ میں تو ctsp والوں نے موباٸل رکھنے کے بھی 30 روپے الگ سے چارج لیتےہیں۔

لکین دلچسپ بات یہ ہےکہ 75منٹ کے اس ٹسٹ میں امیدواروں کو 75 سوال MCQ کے جواب دینے ہوتےہیں۔جس کے زریعے امیدواروں کے زہانت جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔CTSP کی اہمیت اپنی جگہ لکین سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ بڑے بڑے سرکاری ،نیم سرکاری اداروں ، نے امیدواروں کے انتخاب کی زمہ داری خود اٹھانے کی بجاٸے CTSPپر کیوں ڈالی ؟

دوسری اہم بات یہ ہےکہ بےروزگار نوجوانوں سے ان کی تعلیمی اسناد کی فوٹوکاپیوں دو تین سیٹ اورساتھ میں پےآرڈر کس کھاتے میں لیےجاتےہیں؟

اور جی ہاں TCSبھی کرناہیں۔جس پر 200روپے کی خرچہ الگ سے آتاہے۔آخر بےروزگار نوجوانوں پر اس قدر زیادتیاں کیوں کی جارہی ہیں؟

ان کےوالدین پر اس قدر مالی و زہنی بوجھ کیوں ڈالا جارہاہے؟

جی بی کی نٸ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی آسامی کےلیےکسی قسم کی کوٸی فیس نہ لیےاور بھرتی کا طریقہ کار کو آسان اور شفاف بنانے کےلیے میرٹ پر سختی سے عملدارآمد کیاجاٸے۔FPS اور CSS کے امتحانی نظام اور انٹریوز کرنے کےطریقہ کار پر پوری قوم کو اس لیےاعتماد ہےکہ وہ سوفیصد میرٹ پر ہوتاہے۔اور سفارش و رشوات کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔

کیا حکومت وقت کے تمام محکمےاور ادارے اس طرح کی مثالی کارگردگی نہیں دکھاسکتی؟

ایک اندازے کےمطابق گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی کثیر تعداد اپنے علاقوں میں روزگار کےذراٸع نہ ہونے کی وجہ سے ملک عزیز کے دوسرے شہروں میں ہجرت کرنےپر مجبور ہے۔حکومت نے مقامی لوگوں سے روزگار کے تمام ذراٸع چھین لیےہیں۔معدنیات پر پابندی کافی سال پہلےلگاٸی جاچکی ہے۔اب مختلف حلیے بہانوں سےبڑھتی ہوٸی سیاحت اور تجارت کےپیش نظر غیر آٸینی ٹیکس نفاذ کےڈرمے کرکے مزید نوجوانوں کو بےروزگاری کے طرف دکھیل رہےہیں۔حکومتی اقدامات سے گلگت بلتستان میں بےروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں مل رہاہے۔جو بعد میں مسلہ بن سکتاہے۔کیونکہ بےروزگاری معاشرتی براٸیوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔

جی بی حکومت کو چاہیے بےروزگار نوجوانوں کہ موجودہ صورتحال کا فوری نوٹس لیے اور ان اعلی تعلیم یافتہ افراد کیلے مناسب روزگار کابندبست کرے۔کیونکہ یہ سب نوجوان اس وطن کا سرمایہ بھی ہیں اور روشن کی نوید بھی۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button