کالمز

چلاس کو آلودہ پانی فراہم کیا جارہا ہے، ذمہ دار کون؟‌

تحریر:شفیع اللہ قریشی

شہر چلاس سمیت پورے ضلع دیامر میں مہلک بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ سامنے آگئی۔جس میں ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی لاپرواہی سے عوام پریشان۔آئے روز بیماریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔جہاں انسان اور جانور (مال مویشی) ایک ہی جگہ سے پانی استعمال کرنے لگے۔انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے رویہ لمحہ فکریہ ہے۔

فوکس دیامر ناو!

مہلک بیماریاں(ٹی بی،خسرہ،پولیو، خناق، نمونیہ، گردن توڑ بخار، یرقان وغیرہ) جو دنیا سے تقریباًختم ہو چکی ہیں لیکن پاکستان سمیت گلگت بلتستان میں بڑھتی جارہی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں محکمہ صحت کی غفلت، والدین کا ویکسی نیشن سے انکار اور ماحولیاتی آلودگی بنیادی وجہ ہے جس میں آلودہ پانی سر فہرست ہے اس وقت ضلعی ہیڈکوارٹر شہر چلاس میں گندہ نالوں جو تقریباً سب کے سب اوپن ہیں جہاں ان کی بدبو بیماریوں کا باعث بنتی وہیں ان کا پانی زیر زمین صاف پانی کو آلودہ کرنے کا بھی باعث ہے۔حکومت کی جانب سے ان گندے نالوں کو ڈھانپنے کے حوالے سے متعدد کوششیں تو وقت پر نظر آتی ہیں لیکن ان کوششوں میں کامیابی دکھائی نہیں دیتی۔ 

شہر کو پینے کے پانی کا سپلائی واحد نالہ بٹوگاہ ہے جہاں سے پائپ لائن منصوبے سے گزر کر شہر کے اندر مخلتف مقامات پر تین مخصوص(ہرپن داس۔پی ڈبلیو ڈی۔شاہین ولیج) ٹینک بنے ہوئے ہیں جس میں زہر آلود پانی سے بیکٹیریا جراثیم پیدا ہوتے ہیں محکمہ واٹر اینڈ پاور اور ضلعی انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔جس کے باعث شہر میں لوگ مخلتف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔یہ پانی ایک میگاہ واٹ بجلی گھر کے سٹوریج ٹینک جہان شہری ہر روز غسل کرتے ہیں وہاں سے بجلی گھر مشینوں میں لوہے سے رگڑ کر گزر جاتا ہے جہاں سے شہر کو بجلی مہیا ہے۔گزر کر اوپن نالی میں آتا ہے پھر لکیج نما پائپ سے ایک چھوٹی سی واٹر ٹینک جہاں مال مویشیوں کا پیشاب شامل اور جانور پانی پیتے ہے پھر بغیر فلٹریشن ٹینک کے میں جمع ہو کر شہر کے اندر مخلتف مقامات پر بنے ٹینک میں آتا ہے اور شہریوں کو پینے کے لیے وقت وقت پر سپلائی کیا جاتا ہے۔پینے کے صاف پانی کو ہر ماہ بعد واٹر کلورینیشن کی اشد ضرورت ہے۔واٹر ٹینگو میں خاص قسم کے کیمیکلز ڈال کر ایک مخصوص بیکٹریا گندے پانی میں ملانے سے ڈرین کے زہریلے گندے پانی کے مہلک جراثیم مار کر بدبو جو کہ کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتی ہے کو ختم کر دے گا۔مگر ایسا خیال کسی کو بھی نہیں آیا۔بٹوگاہ نالہ جو کسی دور میں صاف شفاف نالہ تھا اب محض نالے سے لیکر واٹر ٹینک تک رینگتا ہے وہ بھی گندے نالے کی صورت میں۔ عوامی حلقے کہتے ہیں کہ اگر اس کو آلودگی سے پاک کر دیا جائے تو اس کا پانی آبی حیات اور فصلوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

صاف پانی ایک صحت مند معاشرے کی اولین ضرورت ہے اور انسان کا بنیادی حق ہے جسے مہیا کرنا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔وطن عزیز میں بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کے بعداب پانی بھی نہ صرف نایاب ہو چلا ہے بلکہ پینے کے صاف پانی کے معیار کے حوالے سے منظر عام پر آنے والے کچھ تلخ حقائق کے مطابق اب یہ نعمت بھی انسانی صحت کیلئے غیر محفوظ ہے۔قومی تحقیقاتی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینے کا 82 فیصد پانی انسانی صحت کیلئے غیر محفوظ ہے۔ واٹر ریسرچ کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 23بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹیریا ‘ آرسینک،مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔

شہر چلاس سمیت پورے ضلع دیامر میں 98 فیصد پانی غیر محفوظ اور زہر آلود ہے۔

عوامی حلقوں کہنا ہے کہ حکومت نے پینے کے پانی کا فقدان پر قابو تو پایا مگر افسوس صد افسوس کہ اس گدلہ آلود زہریلے پانی کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے خیال نہیں آیا جلد اس پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔لہذا وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن،چیف سیکٹری گلگت بلتستان بابر حیات،سیکٹری ہیلتھ اور کمشنر دیامر سید عبدالوحید سے پرزور اپیل ہے کہ اس مہلک بیماریوں کا سب بنے والا زہر آلود پینے کے پانی کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے حکومت سطح پر اقدامات کر کے عملی جامہ پہنایا جائے اور اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button