کالمز

خواتین کی آزادی سے خواتین تک آزادی

 سعیدالرحمن 

تحریک نسواں کاآغاز بیسوی صدی کے چند انتہائی اہم واقعات میں سے شمار کیا جاتاہے تحریک نسواں یعنی ( Feminism) ابتدامیں ایک مہم کے طورپرشروع کی گئی تھی ۔اس وقت کے رہنماؤں نے اس مہم کے تین مقاصد طے کئے تھے جن میں پہلا خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کاحق تھا ، دوسرا خواتین کو نوکری کرنے یا ذریعہ معاش کاحق اور تیسرااور آخری مقصد شادی شدہ خواتین کے قانونی حقوق بہتر بنانا تھا۔دیکھاجائے تو یہ خواتین کے وہ بنیادی مسائل ہیں جو آج بھی پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی یقین دہانی سب سے پہلے دنیاکے تمام دین و مذاہب بشمول اسلام نے کرائی۔ اسی حوالے سے پھر قانون سازی اورطریقہ کار بھی سمجھایاگیا ۔ہر مذہب کے ابتدائی دنوں میں جیسے ہر نئی چیز بہترین لگنے لگتی ہے اسی طرح تمام احکامات نئے پاکر پورے کئے جاتے رہے ۔وقت کے ساتھ ان احکامات کو بھی پرانے برتن کی طرح پھینک دئیے گئے ۔ٹھیک اسی طرح تحریک نسواں نے ابتدامیں بہت کامیابی کے ساتھ اپنے تین مقاصد پر کام کیا۔ جہاں اس تحریک کے ذریعے خواتین کے حقوق کیلئے کام ہورہاتھا وہاں بہت سے ایسے پاکھنڈی لوگ اس تحریک کاحصہ بن گئے جنکا کھانا پینا اسی تحریک کے ذریعے تیارہونے لگا ۔ تب سے یہ تحریک دراصل تحریک کم اور حقوق کی آڑ میں اپنے مفادات حاصل کرنے کاذریعہ زیادہ بن گئی ۔یہی وجہ تھی کہ تحریک نسواں سے جڑی ایسی ہستیاں اس سے منہ موڑ گئی جنہوں نے اپنی عمریں اسی کیلئے وقف کردی تھیں ۔ یہی سے اس تحریک کا ایسا گھناونا کھیل شروع ہوگیا جس نے حقوق کی آڑ میں ہر خاتون کو بے عزت کردیا۔اس کے بعد یعنی دوسرے اور تیسرے فیز کی تاریخ دیکھنے سے ایسے واقعات کاسامنا ہوتاہے جن کو پڑ ھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اکثر دیکھاگیا ہے کہ ہمارے کچھ دوست خواتین کی مختلف محفلوں میں مخلوط رقص پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں خواتین پر قدغنیں لگانا انسانی حقوق کی پامالی ہے ۔ یا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قدغنیں صرف خواتین ہی پر کیوں مردوں کو اس سے استثنی کیوں حاصل ہے۔ انسانی حقوق کے اچھے سے مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرد کی آزادی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ خود کو کسی دین سے جوڑتاہے آیاکہ اگر وہ مسلمان ہونے کا دعوی کرتاہے تو اس کو اسلامی اصول و قوانین کی پاسداری کرنی پڑتی ہے ۔ اگر ایسی جگہ جہاں لوگ خواتین کے مخلوط رقص کو براسمجھتے ہوں تو انسانی حقوق خواتین کو اس فعل سے روکنے کادرس دیتے ہیں ۔کیونکہ چند خواتین کی خوشی اس پورے علاقے کے لوگوں کی خوشی سے بڑھ کرنہیں ہوتی ۔ یہی جمہوریت کا طریق کار بھی اکثریت کو اقلیت پر ترجیح دی جاتی ہے ایسے میں کوئی بھی خاتون یا مرد کسی ایسے فعل کامرتکب ہوجاتاہے تو انکو سزادینا اول تو قانونی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے اگر یہ ادارے سزانہیں دیتے تو معاشرے میں ان ادارون پر سے اعتماد ختم ہوجاتاہے پھر ہر پرفرد خود ہی انصاف کرتاہے اور خود ہی سزادینے لگ جاتاہے۔اسی طرح کے معاشرے میں جہاں اسلامی سوچ رکھنے والے افراد بستے ہوں وہاں اگر مخلوط رقص ہوں تو وہاں وہ معیوب ہی ہوگااور اسکی مخالفت کرنافطری ہوگامگر ایسے میں ان تنقیدکرنے والوں پر جملے کسنااور انکا مذاق اڑانابدتہذیبی کی اعلی مثال ہوگی۔ اس علاقے کی روایات جس چیز کی اجازت نہیں دیتیں ہوں وہاں ایسی حرکتیں کرناانتہائی نامناسب فعل سمجھاجائے گا۔پھر ایسے واقعات کی آڑ میں کچھ کم فہم لوگ دانشور بننے کی کوشش میں بچگانہ باتیں کرکے اپنی واہ واہ کروانے کے چکرمیں لگے ہوتے ہیں ۔

یہی حال گزشتہ دنوں گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں پرائیویٹ چینل کی خاتون ہوسٹ کے مارننگ شو میں مادر علمی میں زیر تعلیم طالبات و طلباء کے مخلوط رقص پیش کرنے کے بعد ہوا۔جو لوگ ایسی محفلوں کے حق میں بولتے ہیں وہ یاتو اپنی واہ واہ کروانے کی خواہش رکھتے ہیں یا تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شراب وشباب کے عادی ہوتے ہیں ظاہر ہے اگر ایسی محفلوں کی کمی ہوگی تو ان صاحبان کی خواہشات کہاں سے پوری ہونگی۔ یہاں پھر تحریک نسواں سے دور ہونے والے رہنماؤں کی باتیں سچ ثابت ہوتی ہیں کہ تحریک نسواں کے پہلے فیز کے بعد خواتین کے حقوق کے نام سے مذہب اور مردوں سے نفرت سکھائی جارہی ہے ۔بھارتی تحریک نسواں کی مشہوررہنماکا کہنا ہے کہ جو لوگ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دراصل انہی کے گھروں کی خواتین کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے وہ نہ ہی اپنی بہو،بیٹیوں کو جائیدادکا حصہ دیتے ہیں اور نہ اپنی ماں بہن کو اسکا حق دیتے ہیں اسکے برعکس یہی روشن خیال طبقہ کاحال یہ ہے کہ جب ماں باپ کام کے نہیں رہتے تو انکواولڈ ہومز میں رکھ آتے ہیں تاکہ انکو انکی خدمت نہ کرنی پڑے۔

چونکہ نادانستہ طور پر اس واقعہ میں مخصوص مسلک کی خواتین ملوث ہیں اسلئے ہر بندہ اسکو ایک نیارخ دینے کی کوشش کررہاہے۔ کوئی ثقافت کا لبادہ اوڑھ کربچنے یابچانے کی سرتوڑ کوشش میں لگاہے تو کوئی اسے مذہب سے جوڑ کرمذہب کے ساتھ اپنی پرانی نفرت یابھڑاس نکالنے کی کوشش کررہاہے اسکے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان حضرات سے ہمدردی جتاکر اپنی واہ واہ کروانے کیلئے سرگرم ہے ۔یہی نہیں اس واقعے کے بعد ایسی چند خواتین بھی پردے پر نمودار ہوکران افراد کامذاق اڑانے لگی ہیں جوخود دور جدید کی تحریک نسواں سے متاثر ہوکر مردوں اور مذہب سے نفرت کیلئے بہانے ڈھونڈرہی ہوتی ہیں۔اسی واقعے کو بنیاد بناکر یہ خواتین مردوں کی غیرت کو للکارنے میں لگی ہوئی ہیں مگر اسکا نقصان چونکہ ان کو نہیں ہونا کیونکہ ان کا ایجنڈا توطے ہوتاہے انکا تو ہوم ورک ہی یہی ہوتاہے اسلئے انکو فرق بھی نہیں پڑتا۔اس کا نقصان تو مردوں کے غیض و غضب کے نتیجے میں طلاق ہوکر پوری عمر کیلئے بیوہ ہوجانے والی اس خاتون کو ہوتا ہے ، اسکا نقصان تو وہ بہن اٹھاتی ہے جو ایسے واقعات کے بعد اپنی بیٹیوں پر سے اعتماد ختم کردیتے ہیں۔گلگت بلتستان میں تین مسالک موجود ہیں سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ بے حیائی کیلئے انکے ہاں کوئی جگہ نہیں اور اسکا ثبوت گزشتہ دنوں ہونے والے پروگرام کے بعد علاقائی تمام اخبارات میں تینوں مسالک کی طرف سے مذمتی خبریں آئیں ۔

مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ مسلمانوں کے زوال کاسہرا ان مردوں کے سر سجتاہے جنہوں نے اسی عورت کو غلط استعمال کیا کہیں اسکو کھیل کی چیز بنا کراس سے خوب کھیلا گیا، کہیں اس کو طشت میں رکھ تحفے کے طور پر پیش کیا گیا اور کہیں ایسا بھی ہوا کہ توہم پرستی کے دور میں اپنے دیوتاوں کی خوشنودی کیلئے نوجوان لڑکیوں کو قربان کیا جاتا تھاپھر وہ دور بھی رہاہے کہ جب عورت کو مردوں کے دلوں سے راز نکالنے کیلئے شہوت پرستی کے بھینٹ چڑھاکراپنے مقاصد حاصل کئے جاتے رہے۔ اس بات سے تو کسی کوانکار نہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے لوگوں کی اپنی کچھ مخصوص اقدارو رویات ہوتی ہیں ۔ وہ لوگ ان روایات کی پاسداری کرتے ہوتے ہیں ایسے میں چند افراد اٹھ کر ان روایات کے نام پر کچھ ایسا کرنے کی کوشش کریں جو وہاں اس علاقے کے لوگوں کو معیوب لگنے لگے اور اس کی روک تھام کیلئے وہ لوگ اگر سرگرم ہوتے ہیں تو دنیا کے کس قانون میں وہ لوگ غلط ہوگئے ۔یا یوں کہیے کہ وہ لوگ دلیل سے ثابت کریں کہ جو کچھ دوسرے لوگ کررہے وہ غلط ہے اور انکی روایات کے خلاف ہے تو یہ کونساگناہ کردیا ۔ جہاں ہم کہتے ہیں انسان آزاد ہے اور وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے جیسے چاہے رہ سکتا ہے تو ایسے میں ان بے چاروں کی آزادی کہاں چلی گئی ۔ اسکا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ چند افراد کیلئے اکثریت کونظر انداز کیا جائے ۔اس سے بڑھ کر ہمارے چند تاریخ سے نابلد دوست ایسے بھی ہیں جن پر ہمیشہ جذبات حاوی رہتے ہیں وہ دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ جی مرد خود تو ننگے پھرتے ہیں جبکہ عورت ننگی ہوتوانکو برالگنے لگتا ہے ، اب اس سوچ پر بندہ کیا کہے ۔۔؟ یہ بات کون نہیں جانتامرد خود تو کبھی ننگا نہیں ہوا جب کبھی ننگی ہوئی ہے تو وہ عورت ہے اور عورت کو ننگاکرنے والے اسی سوچ کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو خواتین کے حقوق کی بات کر کے دراصل خواتین تک پہنچنے کی آزادی حاصل کرتاہے۔

میری ان تمام حضرات سے التجا ہے کہ جدیدیت یا روشن خیالی کے چنگل سے نکل کر حقیقت پسند بننے کی کوشش کریں ۔ جدت انسان کے سوچ و خیال میں آتی ہے اسی نئی جہت اور سوچ کے نتیجے میں وہ تخلیقی سوچ کوپروان چڑھایاجاسکتا ہے ۔ ایسا دنیامیں کہیں بھی آج تک نہیں ہواکہ کسی قوم نے اپنی اقدارو روایات کو جدت پسندی کی بھینٹ چڑھاکر ترقی کی منازل طے کی ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button