کالمز

غذر سے چین تک ۔ آخری قسط

تحریر: دردانہ شیر

تشقرغان امیگریشن کے مین دروازے پر پاکستان جانے کے لئے مسافروں کا بہت زیادہ رش تھا، جو منوں کے حساب سے اپنے ساتھ سامان لائے تھے۔  ان مسافروں میں زیادہ تر وہ افراد ہمیں نظر آرہے تھے جو بعض کاروباری افراد کا سامان لیکر سوست روانہ کرنے وہاں پہنچے تھے۔ وہ یہ سامان سوست پہنچاتے ہیں تو کاروباری افراد ان کو کرایہ کے ساتھ ساتھ کچھ خرچہ بھی دیتے ہیں۔رش دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوگیا کہ شاید آج ہمیں پاکستان جانا مشکل ہوگا۔

دس بجے امیگریشن اہلکاروں نے پہلے گیٹ میں سامان، بس کا ٹکٹ اوربارڈر پاس چیک کیا اس کے بعد ہم امیگریشن کے مین دفتر میں داخل ہوگئے ہمارے پاس کافی سامان تھا مگر کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ اس میں کیا ہے تمام سامان لیکر ہم امیگریشن کے دفتر سے باہر آے اور بس کا انتظار کرنے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ متعدد افراد اپنے ساتھ بڑی تعداد میں ڈرائی فروٹ لے کر آئے تھے۔ ایک کاروباری نے تین من اخروٹ بھی ساتھ لایا تھا۔ ہم حیران تھے کہ اتنا سامان بس میں کیسے آئے گا؟

اس دوران چند افراد نے اپنے ساتھ لایا ہواسامان وہاں اپنے کسی ساتھی کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ سامان چھوڑنے ادھر آے تھے اور سوست میں ان کا بندہ اٹھا لیگا امیگریشن کے دفتر سے نکلتے ہی انتظار گاہ میں چین کی ڈیوٹی فری شاپ ہے جہاں ہر قسم کی چیزیں دستیاب ہیں آپ وہاں سے کوئی بھی چیز خرید لے کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہر قسم کی شراب موجود ہے مگر خریدنے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر پابندی ہے تو صرف پاکستان سے لائے جانے والے سامان پر، چاہے اس میں ڈرائی فروٹ ہی شامل کیوں نہ ہو!

مسافر بے چینی سے بس کا انتظار کر رہے تھے اتنے میں دور سے بس نمودار ہوئی۔ دو منزلہ بس تھی۔ لوگ خوش ہوگئے میں حیران تو اس سامان سے تھا جو تقریبا ایک چھوٹے ٹرک کے لوڈ برابر ضرور ہوگا بس کھڑی تھی جب ڈرائیور نے بس میں سامان رکھنے کے لئے اس کے خانے کھول دئیے تو میں حیران ہوا کہ اس میں ٹرک کے برابر سامان آنے کی گنجائش تھی سامان لوڈ ہوتا گیا اور جو سامان بچ گیا اس کو بس کے اندر مختلف کونوں میں رکھا گیا میں سوچ رہا تھا کہ مسافر بس میں اتنا سامان رکھنے کی آخر اجازت کس نے دی ہے چین میں بسوں کی سیٹیں بھی عجب سے ہیں بسوں میں بیڈ طرز کی سیٹیں ہیں جہاں پر مسافر کو ایک کمبل کے ساتھ سرہانہ بھی دیا جاتا ہے تاکہ ٓارام سے مریض کی طرح لیٹ کر سفر کر سکے ہمیں بھی سیٹ کے ساتھ ایک کمبل ملا تھاہم تو خوش اس بات پر تھے کہ پہلی بس میں ہی ہمیں سیٹ مل گئی اور جو زیادہ رش تھا وہ لوگ صرف سامان لوڈ کرنے آئے تھے البتہ دس کے قریب مسافروں کو اس بس میں جگہ نہ ملی تو ان کو امیگریشن والوں نے نیٹکو کی ہائی روف میں پاکستان بھیجنے کا وعدہ کیا۔ نیٹکو کی گاڑی بھی وہی کھڑی تھی، میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان سے دو سے تین کلو بادام اور اخروٹ لیکر جب میں چائینہ گیا تو کسٹم والوں نے آئندہ مجھے ڈرائی فروٹ نہ لانے کا کہہ دیا مگر ان کے ملک سے لوگ اتنا سارا ڈرائی فروٹ پاکستا ن لے جاتے ہیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے اگر ڈرائی فروٹ کو چائینہ سے لانے کی پابندی نہ لگائی گئی تو گلگت بلتستان کے ڈرائی فروٹ کی ایک سے دو سال بعد مارکیٹ ہی ختم ہوجائیگی۔ جب گلگت بلتستان میں بڑی مقدار میں ڈرائی فروٹ ہے تو چین سے پاکستان لائے جانے والی ڈرائی فروٹ پر بھی پابندی لگائی جائے اور کہا جائے کہ گلگت بلتستان میں ڈرائی فروٹ ہے تو چین سے ڈرائی فروٹ لانے کی کیا ضرورت ہے۔ جو چیزیں ہمارے ملک میں وافر مقدار میں موجود ہیں ان کو چین سے لانے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر یہاں کے ڈرائی فروٹ کو بھی چین لے جانے کی اجازت دی جائے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر کاروبار ہوسکے ہم پاکستان سے سامان لے جاکر چین میں فروخت کرسکے اور چین کا سامان پاکستان میں فروخت کیا جاسکے جب کہ میں نے اپنے چار دفعہ چین کے سفر کے دوران یہ دیکھا کہ پاکستان سے کوئی بھی سامان لے جائے تو چائینہ کسٹم اور امیگریشن کے زمہ داران سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں مگر وہاں سے جو مرضی آے آپ لیکر آجائے کوئی نہیں پوچھتا اس سے نقصان ہمارا ہے ہم یہاں سے نقد رقم لیکر جاتے ہیں اور وہاں سے سامان لیکر آتے ہیں۔

چونکہ سی پیک کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلیاں آنے والی ہے اس حوالے سے پاکستانی حکام کو بھی چینی حکام سے بات کرنی ہوگی مال کے بدلے مال ورنہ اگریہاں سے ہم نقد رقم لیکر جائے اور وہاں سے سامان لیکر آجائے تو نقصان ہمارا ہوگا اس سلسلے میں دونوں حکومتوں کو سوچنا ہو گا چونکہ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ پاکستان سے لانے والے سامان میں منشیات لائی جاتی ہے اب ایک یا دو مجرم ایسا کرتے ہیں تو اس کا سزا دیگر افراد کو دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں منشیات کا کاروبار کوئی بھی کرتا ہے تو وہ نہ صرف چین بلکہ دونوں ملکوں کا مجرم ہے مگر ان چند مجرموں کی سز اہر پاکستان سے چین آنے والے شہری کو نہیں ملنی چاہے قارئین کرام بات کئی سے کئی پہنچ گئی ہماری دو منزلہ بس سوست کی طرف رواں دواں تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ چین سے جب اپ اپنا سامان بس میں ڈالتے ہیں تو راستے میں کئی بھی چیکنگ نہیں ہوتی اور آپ سیدھے سوست امیگریشن پہنچ جاتے ہیں ہماری بس خنجراب پہنچ گئی تھی چائینہ بارڈر فورس نے تمام مسافروں کو بس سے اتارنے کا حکم دیا تمام مسافروں کو روڈ پر لائن میں کھڑے کر کے ان کے بارڈر پاس دیکھنے کے بعد دوبارہ بس میں بیٹھا دیا گیا اب ہمیں اپنی دھرتی ماں پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لئے ایک سے دو منٹ کا سفر تھا ہم نے اب تمام رکاوٹوں کو عبور کیا تھا اب آخری پاک چین دوست کا مین گیٹ کو کراس کرنا تھا اور چند لمحوں میں پاک چین کا مین گیٹ کراس کرہی لئے تھے بس میں سوار افراد نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعریں لگایں اور سامنے ہمارے خنجراب سیکورٹی فورس کی چیک پوسٹ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا وہاں پر پولیس کے چند اہلکار چوکی کے باہر کھڑے تھے بس میں داخل ہوگئے اور بڑے پرجوش طریقے سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں احساس ہوا کہ کتنا پیارا ہے ہمارا ملک جہاں نہ تو کسی شہری کو روک کر اس کا موبائل کا ڈیٹا چیک کیا جاتا اور نہ ہی ہر دس قدم پر تلاشی لی جاتی ہمارے ملک میں لوگ اتنے آزاد ہیں جس کی جو مرضی آئے حکمرانوں کو شوشل میڈیا پر گالیاں دیں کوئی پوچھتا ہی نہیں یہ ہے اصل آزادی

چار بجے کے قریب سوست میں ہماری بس پاکستان امیگریشن کے آفس کے باہر آکر رک گئی کسٹم اور امیگریشن کے حکام کو شاید اطلاع ملی تھی انھوں نے تمام مسافروں کوسامان چیک کرانے اور ساتھ ساتھ بارڈر پاس لیکر آفس پہنچنے کی ہدایت کی تمام مسافر اپنے پاسپورٹ اور بارڈر پاس لیکر امیگریشن کے دفتر پہنچ گئے برادرم ابرار علی جو سوست امیگریشن تعینات ہیں ہمیں دیکھ کر ہی کہا کہ دردانہ شیر بھائی چائینہ سے بڑی جلدی پہنچ گئے میں ان کو بتایا کہ بھائی جان سفر بہت اچھا رہا البتہ تاشقرغان میں کسٹم حکام کے رویے کے حوالے سے انھیں بھی سب کچھ بتا دیا کہ وہاں پر اگر ہم چند کلو ڈرائی فروٹ بھی لیکر جاتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں ابھی ہم میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھی عزیزم ندیم علی رفع جو پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں میں سے ایک ہے اور اس دفعہ غذر سے امیدوار قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی بھی تیاری کر رہاہے اور گزشتہ کئی سالوں سے سوست میں مقیم ہے اور چائینہ کاروبار کرتا ہے ہماری چائینہ سے واپسی کی اطلاع ملنے پر وہاں پہنچ گئے تھے ہم نے امیگریشن کے آفیسر برادرم ابرار علی سے اجازت مانگی اور سامان میں نے اپنے کار میں رکھا چونکہ گاہکوچ سے سوست تک میں اپنے کار میں گیا تھا اور کار عزیزم ندیم علی رفع کے حوالے کر کے چائینہ روانہ ہوا تھا ہمیں برادرم ابرار علی اور عزیزم ندیم علی رفع نے بہت زور دیا کہ سوست میں رات گزار کر کل نکل جاو مگر سوست کی سردی کو دیکھ میں اور نیت ولی نے وہاں سے گاہکوچ کے لئے روانہ ہونا ہی مناسب سمجھا اور سوست میں چائے پینے کے بعد گاہکوچ کی طرف روانہ ہوگئے اور ایک ہی روز میں تشقرغان چائینہ سے گاہکوچ پہنچنے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا

قارئین کرام میر اسفر نامہ آپ کو کیسا لگا اس حوالے مجھے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کرنا اور اس سفر نامہ کے دوران اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو معافی چاہتا ہوں اور جن دوستوں نے چائینہ اور گاہکوچ سے سوست تک سفر میں ہماری عزت افزائی کی اور مہمان نوازی کی ان سب کا دل کی اتھاہ گہراہوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اﷲتعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو(آمین )

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button