کالمز

سولہ دسمبر کا نوحہ 

آج سولہ دسمبر،اس دن کے ساتھ جڑے واقعات کی وجہ سے اُداسیوں کی پرچھائیں دوستوں کے چہروں پر دیکھنے کی تمنا لیکر میں ان کے پاس گیا تھا۔اپنے قربانیوں اور کامیابیوں پرفخر کا احساس دیکھنے کی آرزو لیکر گیا تھا،ملامتِ ضمیر کی حس دیکھنے کا خیال تھا۔ایک درد محسوس کرنا چاہتا تھا۔ایک منفرد تجزیہ کی امید لیکر گیا تھا،ایک قومی اتحاد کے باب میں کچھ معروضات کی ان سے توقع کرتا تھا، دشمن کی پہچان اور اپنی غلطیوں کا تجزیہ سننے کی چاہت لیکر گیا تھا۔ اپنی تاریخ کے بارے ان سے کچھ آگاہی حاصل کرنے کے لئے گیا تھا۔یہ تمنا، یہ آرزو،یہ دردکا احساس، یہ امید ، یہ توقعات یا ان چاہتوں کی دیوار یوں زمیں بوس ہوئی کہ ہم اور ہماری نسلوں کو فارغ وقت میں عشق کی باتوں سے فرصت ملے تو قومی نوحے پر بھی بولے، شاید، بقول اقبال؛

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

دماغ کے کسی کونے میں دور کہیں ایک تمنا انگڑائی لے رہی تھی کہ آج دوستوں کی نشست میں موضوع صرف اور صرف سولہ دسمبر ہو۔آج ہر موضوع میں سولہ دسمبر ڈھونڈا جائے،ہر بات سے سولہ دسمبر کی دَرد کشید کی جائے، ہر ایک بے زباں کو بھی زباں نصیب ہو کہ وہ سولہ دسمبر کی دَرد کا یہ نوحہ بیاں کرے اور ساری دنیا کے سامنے اس کو بیاں کرے،ساری دنیا کو جھنجھوڑے ، ان کی ضمیر کو آوازیں دے دے کر جگائیں کہ ۔۔۔بے ضمیرو اپنی ضمیر کو تھوڑا جگا کے ایک نظر ادھر بھی ڈالو کہ کیسی قیامت برپا کی گئی، کس طرح انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا گیا،کتنے تمناؤں کا خون کیا گیا، کیسے کیسے پھولوں کومسلہ گیا، فرعونیت کی تاریخ کیسی دھرائی گئی ،چمنستان سے کس طرح گلا بوں کو چن چن کر توڑا گیا، کیسی بے دردری سے ان کی روحیں چھین لی،کس حیوانیت سے ان کا پاک لہو بہایا گیا، کس طرح قیامت ڈھادی گئیں۔۔میری تمنا تھی کہ آ ج کے دن انہیں ہر ہر چیز آواز دے ۔۔۔کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کارکردگیوں پر اِترانے والوں۔۔۔!ہم نے تو اس جنگ میں مسجد کے بچوں سے لیکر آرمی پبلک اسکول کے بچوں تک کی قربانیاں دیں ہیں۔سلالہ کے پوسٹوں میں جوانوں کی چھیتڑوں سے لیکر جی ایچ کیو کی درودیوار پر گولیوں کی نشان تک ہماری قربانیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، مسجدوں کی محرابوں سے لیکر مزاروں کے احاطوں تک ہماری قربانیوں کی نشانیں ہیں، پارکوں سے لیکر یونیورسٹیوں تک تمہارے بموں اور گولیوں کے نشان اور شہیدوں کے خوں کے دھبے ہماری قربانیوں کے گواہ ہیں۔ ہم نے تمہیں محفوظ بنانے کے لئے اپنے بچوں کو اس جنگ میں جھونک دیا جس جنگ سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ہم نے تمہارے لئے دہشت گردی کا لیبل اپنے ماتھے پر سجا لیا، ہم نے تمہاری ہی خاطر اپنے لالہ زاروں کو جہنم بنا دیا ، تمہیں محفوظ بنانے کے لئے ہم نے کشمیریوں کی آزادی کی جنگ کو بھی دہشت گردی قرار دیا۔۔۔آج اسی کشمیر میں بے گناہوں کے روز بہتے لہو ،معصوموں اور جوانوں کے بلٹ گنوں سے ضائع ہوتی آنکھیں تمہیں نظر آرہیں ہیں۔۔۔؟؟ہم سے صلہ مانگنے والو۔۔۔!

انسانیت کے حقوق کا ڈھونگ رچانے والو۔۔۔! تمہیں پاکستانیوں کی دہشت گردی کی تمہاری جنگ میں دی گئیں قربانیاں کہاں نظر آتیں

تمہیں کشمیر کی جلتی لالہ زاروں سے لیکر فلسطین کے شہیدوں تک، برما کے مظلوموں سے لیکر شام کی بے آبرو ماؤں تک افغانستاں کے بزرگوں سے لیکر عراق کے بچوں تک کوئی بھی تو نظر نہیں آیا ۔۔ہم نے تو اپنے علاقے تمہیں عطاء کر دیں، اپنے ائیر بیسس تمہارے حوالے کردیئے ،تاکہ وہاں سے اپنی فوج کو آگے بھیجدو اور افغانستان کو نیست و نابود کردو جن پر مبہم الزام لگا کر تم نے مجرم بنا دیا تھا۔ اس جنگ میں جتنی قربانیاں ہم نے دی تھیں اتنی تمہاری نسلوں نے نہیں دی ہوگی۔۔۔ مگر افسوس کہ ان قربانیوں کے باوجود بھی، ہم ہی ظالم ،ہم ہی دھوکہ باز،ہم ہی بلیک میلر ٹھہرے۔لیکن ہمیں یقین ہے اور ناز بھی، کہ ہم وہ جنگ جیت چکے ہیں ،جس جنگ کو تم اپنی شاطرانہ چالیں چل کر ہماری سر زمیں تک لے آئے تھے،ہماری فوج اور عوام اس جنگ کو اپنے نام کر چکے ہیں ، تمہارے کرائے کے وہ قاتل ہم سے ہمارے بچے ،جواں،مائیں بہنیں ،بزرگ سب چھین کر بھی ہمیں ہرانے کے بجائے ہمیں متحد کر چکے ہیں۔جس جنگ کو تم نے ہم پر صرف اس لئے تھوپ دیئے تھے تاکہ ہمیں کمزور کرسکو۔۔ ہم نے قربانیاں دے کر اس جنگ میں سرخروئی حاصل کی ہیں۔یہ سرخروئی ہمیں ایک عشرے سے زائد کی جانی مالی قربانیوں کے بعد جاکر حاصل ہوئی ہے۔اس سرخروئی کو مستقبل کا مؤرخ بیان کر کے جھومے گا اور تمہاری نا انصافیوں کا نوحہ لکھتے ہوئے تمہیں کوسے گاانشاء اللہ۔۔۔

یارو۔۔۔!میری اپنی حالت بھی کچھ ان دوستوں سے مختلف تو نہیں تھی البتہ صبح سے ایک درد کی کسک تھی جو بھاری بھرکم ہتھوڑے کی طرح دل و دماغ پر ضربیں لگا رہاتھا ، ہم تینوں اکھٹے ہوگئے تھے اور صرف دس سیکنڈ اس موضوع ’’سولہ دسمبر‘‘ پرسرسری بات کر کے ہم اپنے پسندیدہ موضوع کی طرف پلٹے تھے۔ لیکن میری خواہش تھی کہ ہم سقوط ڈھاکہ پربھی بات کرے، اس کے وجوہات کو پرکھے، اصل حقائق کو تاریخ کی روشنی میں کھنگالے، اپنی اپنی رائے دے، آئندہ ایسے مسائل سے نجات پانے کے طریقوں پر غورو فکر کرے۔ آرمی پبلک سکول کے شہداء کو یاد کر کے آئندہ ایسے واقعات سے قوم کے نونہالوں کو بچانے کے بارے اپنے گزارشات پیش کرے۔دن میں دومرتبہ ہم کھانے کے سلسے میں اپنے اپنے کمروں سے نکل کر ایک جگہ بیٹھتے تھے اور کافی لمبی نشست ہوتی تھی اس نشست میں ہم ہر طرح کے موضوعات پر بات کرتے تھے۔مگر آج میری خواہش تھی کہ ہم صرف ان موضوعات پر بات کرے لیکن بے سود۔ ابتداء میں ہی ایک دوست نے کہا تھا کہ آج کے دن پشاور کا واقعہ ہوا تھا۔۔کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آ ج کے دن ہم نے بنگال بھی تو کھودیا تھا۔سلسل�ۂ گفتگو جاری رکھتے

ہوئے اس نے اتنا کہا تھا کہ ’’اس واقعے سے اتنا ہوا تھا کہ ہم اچھے اور برے طالبان کے بحث سے نکل کر ایک ہوگئے تھے‘‘۔میرا کہنا تھا کہ یہ واقعہ دو پہلوؤں سے بہت اچھا تھا ،پہلا یہ کہ اس میں ایک قومی بیانیہ تشکیل پایا تھا جس میں نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل ہوئی اور ملک و قوم دشمن عناصر کی بیخ کنی کی گئی ، دوسرا عمران خان صاحب کو دھرنے والی بند گلی سے سرخرو ہوکر نکلنے کا اچھا بہانہ ملا تھا۔ وہ قہقہا لگا کر میری رائے کی تائید کی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہمارا موضوع تبدیل ہوا تھا اور اس سے پہلے کہ ہم سقوط ڈھاکہ پر بھی بات کرتے دوست اپنے پسندیدہ ترین موضوع پر آگئے تھے۔

افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ ہمارے ہاں تاریخ کے دونوں پہلوؤں پر کبھی بات نہیں کی گئی۔بہتر ہوتا کہ دونوں پہلوں پر بات کر کے فیصلہ آنے والی نسلوں پر چھوڑتے۔ آ ج نئی نسل گومگو کا شکار ہے ہمیں نہ اپنی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ اپنی دشمن کی پہچان ہے ۔تاریخ کی کتابوں کو ہاتھ لگانا ہم اپنا توہین سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارا اپنے تاریخ سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے، ہمارے لئے سب کچھ آج کا میڈیا اور ان کے آل اِن آل اینکر پرسنز ہیں۔ان کے تجزئے ،تاریخی حقائق کا تذکرہ، مستقبل کی پیش بندی ، موجودہ حالات پر گفتگو ہی ہمارے لئے سب کچھ ہیں۔خودسے تحقیق، حقائق کی چھان بین ، اصلیت کا پردہ فاش کرنا، واقعات پر بات، مختلف پہلوؤں سے ان کا باہم مقابلہ،ہمارے لئے کوئی معانی نہیں رکھتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کی کوشش یہ ہو نی چاہئیے کہ ایک قومی تعلیمی نظام اور قومی نصاب کی ترتیب ہو اور سب کے لئے اسی حکومتی نصاب اور نظام تعلیم کو لاگو کیا جائے۔بلاشبہ اس تعلیم و نصاب کی تشکیل کے لئے وقت اور سرمایہ لگادے اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔تعلیمی اداروں میں تاریخ کے ساتھ دینی نصاب کو بھی مربوط و مضبوط بنا یا جائے تاکہ ہماری نسلیں ایک اچھے علمی ماہر کیساتھ ایک اچھا مسلماں بھی بن کر ابھرے اورایک ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں اپنے نقوش سبط کرے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button