کالمز

میں ایک صحافی ہوں

ممتازعباس شگری

میراتعلق صحافتی شعبے سے ہے،صحافت کو ریاست کاچوتھاستون بھی سمجھاجاتاہے،میں آپ کوہروقت ہرلمحہ ہرجگہ باخبررکھناچاہتاہوں تاکہ آپ ملک بھرکے تمام خبروں سے ہمہ وقت مستفیدہوسکیں،آپ کوباخبررکھنے کیلئے میں اپنی کام مسلسل جاری رکھتاہوں چاہیے اس کیلئے مجھے کتنی ہی قیمت چکانی کیوں نہ پڑے،میں راتوں کواٹھ جاتاہوں، چاہے گرمی ہویاسردی،بارش ہورہی ہویاتیزہواچل رہی ہو،مجھے اس کی بالکل بھی پروانہیں ہوتی،میں جنگوں اوردھماکوں میں کھڑاہوتاہوں ،میں جنگوں اوربم دھماکوں میں ہونے والے تمام واقعات کومحفوظ کرتاہوں،میں کسی بھی قیمت پر تاریخ غلط ہونے نہیں دیتا،مجھے عیدرمضان کی چھٹی ہوتی ہے نہ عیدقربان کی،دس محرم الحرام کی چھٹی ہوتی ہے نہ چہلم کی،چودہ اگست یوم آزادی پاکستان کی چھٹی ہوتی ہے نہ چھ ستمبریوم دفاع پاکستان کی،مجھے کسی ملکی یامذہبی تہوارپرکوئی چھٹی نہیں ہوتی،آپ یقین کریں میری ٹی وی،میری اخبار،میراریڈیواورمیراویب سائٹ کبھی بھی بندنہیں ہوتا،میراموبائل فون کبھی بندنہیں ملے گا،میں زخمی ہوتاہوں لیکن میری انگلی کیمرے کی بٹن سے ہٹتی نہیں،میں مارپیٹ کاسامناکرتاہوں لیکن میرے ہاتھ میں مائیک ،کاغذاورقلم ہوتاہے،میرے دفترکے کوئی خاص وقت معین نہیں ہوتا،ہروقت کھلارہتاہے،مجھے آپ کسی بھی وقت کہیں بھی فون کرسکتاہے،سویاہواہوں توجگاسکتاہے،بارش آئے یاطوفان ،اندھی آئے یابرف،جلاوگھیراوہویاکرفیوکاسماں،لوگ گھروں کولوٹ جاتے ہیں مگرمیں دفترکی جانب گامزن ہوتاہوں،میں اس جستجومیں ہوتاہوں کہ مجھے اپنے ناظرین تک اپنے قارئین تک خبرپہنچاناہے،تاکہ وہ حالت کے بارے میں جان سکوں،کیونکہ مجھے پتہ ہے کہیں پربھی کوئی واقعہ پیش آئے تولوگ مجھ سے سنناچاہتے ہیں مجھ سے حقیقت جاناچاہتے ہیں،وہ اس واقعے کی وجوہات جانناچاہتے ہیں، اس کے باوجودکہیں پرمجھے تنخواہ نہیں ملتی اورکہیں میرے پیشہ وروں کوجو ملتی ہے توکیاملتی ہے،میں اکثرملک وقوم کی خاطراعزازی رپورٹرکے نام پرخبریں اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی سعی کرتاہوں ،تاکہ ملک وقوم کی بھلاہوسکیں،اس کے باوجودمجھے کبھی اسلام آباد کے آفس سے فارغ کیاجاتاہے،توکبھی لاہورکے آفس سے وجہ بتائے بغیرنکالے جاتے ہیں،کبھی کراچی کے آفس سے ہم پندرہ سوافراد کوایک ساتھ نکال دیاجاتاہے،توکبھی پورے عملے کوفارغ کرکے چینل کوہی بندکردیتاہے، کبھی میرے اخبارکوملے والے اشتہارات روک لیتے ہیں،کبھی حکومت اپنے منظورنظرلوگوں کوبھی نوازتاہے،لیکن کوئی بھی ہمارے حق میں آوازنہیں اٹھاتا۔

مجھے کوئی لفافہ صحافی کہتے ہیں توکوئی بہکاواصحافی کالقب دیتے ہیں،کوئی بلیک میلرکہتاہے توکوئی گٹرجرنلسٹ کہتاہے،لیکن وہ انہیں نہیں کہہ سکتے جوواقعاہوتے ہیں،مجھے کہناآسان ہے کہہ دیتے ہیں میں ان سب کو مشکل مشکل سے سہہ لیتاہوں،میں عوام کی حقوق کامحافظ ہوں یہ میراانتخاب ہے،صحافت میراجنون ہے میراعشق ہے،اورمجھے میرے انتخاب پر،میرے جنون سے،میرے عشق سے پیارہے،کوئی بھی مجھے میرے جنون سے جدانہیں کرسکتا،اورمجھے اس پرفخرہے،کبھی کبھی مجھے حق و سچ کاآئینہ دیکھانے کی جرم میں پاوں تلے رونددیاجاتاہے،کبھی کبھی حق و سچ نمایاں کرنے پرموت کے گھاٹ اتاراجاتاہے،کبھی نوازشریف کے گارڈمیرے سینے پرچڑھ ڈورتاہے،کبھی اعلیٰ حکام کے پرٹوکول میں مجھے ڈنڈے پڑتے ہیں،کبھی وزاکے خلاف اسکینڈل پرنیوزچھپوانے کے جرم میں کوٹ میں کیس کرتاہے توکبھی ہاتھوں میں ہتھکریاں ڈال کرلوگوں کے سامنے ذلیل کرتاہے،مجھے کل کراچی میں ماراگیاتھا،آج اسلام آبادمیں قتل کیاگیا ،پرسوں لاہورمیں زخمی کیاگیاتھا،آج پشاورمیں دھمکیاں دی جاری ہے،اس کے باوجودنہ ملک کاعدلیہ نوٹس لیتاہے،نہ ملک کے وزیراعظم کونوٹس لینے کی سعادت نصیب ہوتی ہے،نہ وزیراعلیٰ صاحب ٹس سے مس ہوتاہے اورنہ آئی جی حرکت میں آتاہے،

ان سب کے باوجودمجھے اپنے فیلڈپرنازہے،میں ایک ورکنگ جرنلسٹ ہوں ہمہ وقت فیلڈمیں ہوتاہوں مجھے فرنٹ لائن پردیکھاکروکیونکہ میں ایک صحافی ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button