کالمز

ایس سی او کی اجارہ داری

دور حاضر ٹیکنا لوجی کا دور ہے، اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس ٹیکنالوجی سے خالی نہیں رہا، چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا کھیل کا ، زراعت ہو یا صنعت و تجارت ، طب کا شعبہ ہو یا میدان جنگ ہو،لباس، کھانا، سفر ، سواری،رہن سہن غرضیکہ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر دوبارہ بستر پر جانے تک انسان ٹیکنالوجی میں گھرا ہے ۔ گلگت بلتستان ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ملک کے دیگر حصوں سے بہت یچھے رہ گیا ہے جسکی بہت ساری وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ اسپیشل کمیونکیشن آرگناٸزیشن (ایس سی او ) ہے جس نے نہ صرف پراٸیویٹ کمپنیز کا راستہ روکے رکھا ہے بلکہ یہاں کے غریب اور پسماندہ عوام کو جدید دور کے سہولیات سے محروم کٸے رکھا ہے ۔ جب کوٸی پراٸیویٹ کمپنی یہاں پہ تھری جی یا فور جی سروسز آفر کرنے لگتی ہے تو مزکوہ کمپنی اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی نظر آتی ہے ۔ اور اپنی تمام تر تواناٸی اس کمپنی کا راستہ روکنے کیلٸے لگاتی ہے مگر جب بات سروسز دینے کی ہو تو اللہ کی پناہ۔ ۔۔ ایک گھنٹہ بارش ہوجاٸے تو دو دو دن ڈی ایس ایل بند ہوجاتا ۔ کمپلین کیلٸے فون کریں تو کوٸی کال نہ اٹھاۓ اور اگر خوش قسمتی سے کال اٹھا بھی لیں تو لہجہ ایسا کہ جیسے مفت میں ڈی ایس ایل سروس کیساتھ تین وقت کا کھانا بھی دے رہے ہوں ۔ لینڈ لاٸن خراب ہونے پہ لاٸن مین کو ایک ١٨ گریڈ کے آفیسر جتنا پروٹول دینا لازم ہے، اور اگر جابے انجانے میں آپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ صاحب کو برا لگے ۔۔ پھر تو سمجھو کہ آپ رل گٸے ۔نہ صرف آپ کا نمبر روز روز خراب ہوگا بلکہ آپ کو خود ایس سی او آفس جاکر منتیں کرنا ہونگی تب جاکے آپ کے نمبر کے آگے سے لال کلر میں کیا گیا گول داٸرہ ہٹایا جاٸیگا۔ موباٸل فو رجی کی خستہ حالی نے بھی ہر طبقہ کو بدحال کٸے رکھا ہے۔ فور جی کے نام پہ لوگوں کے جیبوں کو خالی کرنا معول بن گیا ہے مگر مجال ہے کہ فور جی کے نام پہ خریدی گٸی سم دوسری کمپنیز کی ٹو جی کا مقابلہ کرسکے ۔ کال ملاو تو کال نہیں ملتی اور ڈیٹا آن کرو نیٹ نہیں چلتا ایسے میں آپ کے پاس صبر ایوب کے علاوہ کوٸی اور راستہ اس لیے بھی میسر نہیں کہ آپ جس کمپنی کے یوزر ہیں وہ اپنی تواناٸی سروس کو بہتر کرنے میں استعمال کرنے کے بجاٸے دوسری کمپنیز کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں لگا رہی۔ ہمیں یاد ہیں وہ دن جب گلگت بلتستان میں موباٸل سروس کا آغاز ہوا تھا اور ایس کام نے اپنی خدمات پیش کی تھیں ۔ بھلے لاٸن میں گھنٹوں کھڑے رہ کر پانچ پانچ ہزار میں ایک سم حاصل کی جاتی تھی مگر یہ کریڈٹ بہرحال ایس کام کو ہی جاتا ہے کہ اس دور دراز پہاڑی علاقہ میں موباٸل سروس متعارف کروایا مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس احسان کا بدلہ غیر معیاری سروس ، اوور بلنگ ، نامناسب رویہ اور دیگر کمپنیز سے دور رکھ کر لے ۔ ایس کام موباٸل سروز کے آغاز ہونے کے کچھ عرصے بعد دیگر کمپنیز نے بھی لاٸسنز کیلٸے اپلاٸی کیا تو ایس کام نے کورٹ کا دروازہ کٹھکٹھاتے ہوٸے موقف اختیار کیا کہ جی بی ایک متنازعہ علاقہ ہے لہذا کسی پراٸویٹ کمپنی کو لاٸسنز جاری کرنے سے مساٸل پیدا ہوسکتے ہیں مگر بعد ازں پرائيویٹ کمپنیز نے لاٸسنز حاصل کرکے سروسز بھی دٸیے اور ایس سی او والوں کے خدشات کے برعکس نتاٸج دیکھنے کوملے اور دوسری کمپنیز کے آنے سے ایک کمپنی کی اجارہ داری ختم ہوٸی اور کمپنیز کے بیچ کمپٹیشن کا فاٸدہ بھی عوام کو معقول ریٹس کی صورت میں ملنے لگا ۔ اب کی بار مزکورہ کمپنی زد کٸے بیٹھی ہے کہ دیگر کمپنیز کو فور جی کا لاسنز نہ دیا جاٸے تاکہ ہم عوام سے اسلیے جی جی کراتے رہیں کہ سب سے پہلے یہ سروس ہم نے دی تھی تو کسی اور کمپنی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہاں پہ سروسز دے اور ہماری ناقص الحال سروس کا فاٸدہ اٹھا کر ہمارا بستر گول کرواٸے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button