شعر و ادبکالمز

شینا زبان و ادب: روایات و امکانات

تحریر : کریم مدد

انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کائنات ہے, اس کی یہ اندرونی کائنات متنوع احساسات, مختلف جذبات اور بھانت بھانت کے خیالات سے لبریز ہے…. انسان کا تعلق چونکہ سماج سے ہے اس لیے وہ ہر دم کوشش کرتا ہے کہ اپنی اندرونی کائنات کے ان نظاروں میں اپنے جیسے دوسرے افراد کو شریک کریں. لہذا وہ مختلف طریقے اور واسطے ڈھونڈتا رہتا ہے تاکہ اس کے احساسات کی ترسیل ممکن ہو سکے, لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ اندرونی کائنات مادی نہیں بلکہ مجرد مظاہر پر مشتمل ہے اس لیے کوئی بھی طریقہ اتنا کامل نہیں ہو سکتا کہ صد فیصد احساسات کا اظہار ہو سکے. احساسات کے بہتر اظہار کے لیے ا نسان کو اپنے جگر کا خون کرنا پڑتا ہے تب جا کر اظہار کا کوئی پیرائیہ ہاتھ آتا ہے. بقول شاعر:

رنگ ہو یا خشت و سنگ, چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود

اظہار کی اسی مجبوری سے فن کی نشو و نما ہوتی ہے. فن کیا ہے؟ اُسی اندرونی کائنات کا تخلیقی اظہار…… اگر احساسات کا اظہار سُر اور لے میں ہو تو گلوکاری وجود میں آتی ہے, جسمانی اعضا کی حرکات و سکنات میں احساس کا اظہار ہو تو رقص وجود میں آتا ہے. اگر رنگوں کے ذریعے اس اندرونی کائنات کو آشکار کرنے کی کوشش کی جائے تو مصوری, اگر سنگ و خشت سے پیکرسازی کی جائے تو مجسمہ سازی کا فن نمو پاتا ہے. تار, دُھن اور تال اگر احساسات کا ترجمان بن جائیں تو موسیقی کا جنم ہوتاہے اور اگر لفظ اُس کائنات کے نظارے کا ذریعہ بن جائیں تو ادب وجود میں آتا ہے….
فن کی یہ تمام صورتیں دراصل ہماری اندرونی کائنات میں موجود احساسات کی پرچھائیاں ہیں. یہ اندرونی کائنات وجود میں آتی ہے؛ ہماری وراثت سے, ہمارے ماحول سے, والدین کے رویوں سے, معاشرے کے اجتماعی حالات سے, جغرافیائی عوامل سے, فطرت کے مظاہر سے, اپنی محرومیوں, ناکامیوں اور کامیابیوں سے, اپنے غموں, خوشیوں سے, نفرتوں اور محبتوں سے, خوف اور غصے سے, حالات, واقعات اور حادثات سے…. یہی وہ متاعِ بے بہا ہے جو ایک رقاص اپنے رقص کے ذریعے, ایک مصور اپنی تصویر کے ذریعے, ایک موسیقار اپنی دُھنوں کے ذریعے, ایک مجسمہ ساز اپنے مجسموں کے ذریعے, ایک گلوکار اپنی آواز کے ذریعے اور ایک شاعر و ادیب اپنے لفظوں کے ذریعے لوٹا رہا ہوتا ہے. بقول ساحر:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں مَیں

ادب عموماً نظم و نثر پر مشتمل ہوتا ہے پھر نظم و نثر کے متوازی ایک اور شعبہ وجود میں آتا ہے ( یا وجود میں آنا چاہیے) وہ ہے تنقید.

شینا گلگت بلتستان کی اکثریتی آبادی کی بولی ہے اور ادبی زبان بننے کے ارتقائی سفر پر گامزن ہے. بولی کو زبان بننے کے لیے حروف تہجی کا ہونا بنیادی شرط ہے. شینا جو ابھی تک زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک متفقہ رسم الخط رائج نہ ہو سکا.
ماضی میں چند انفرادی کوششیں ضرور ہوئیں ہیں. اپنے طور پر چند اہل ادب و فن اور نے حروف تہجی ترتیب دئیے اور کچھ تحریری مواد بھی اپنا وجود رکھتا لیکن عوامی سطح پر اس مواد کی کوئی پذیرائی نہ ہو سکی. جو چند کتابیں شینا میں لکھی گئی ہیں ان کا مطالعہ مصنف خود ہی کر سکتا ہے, کسی اور کے لیے ان کتابوں کو پڑھنا گویا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے. وجہ وہی کہ شینا لکھنے پڑھنے کی زبان ابھی تک نہیں بن سکی ہے. یہ محض بولنے اور سننے تک محدود ہے. پچھلے کئی سالوں سے حکومتی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو گلگت بلتستان کی تمام بولیوں کے لیے مشترکہ حروف تہجی کا نظام متعارف کروانے پہ کام کر رہی ہے.. کمیٹی کی سربراہی شینا زبان کے بے مثل شاعر اور موجودہ سکریٹری تعلیم ظفر وقار تاج کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے متفقہ طور پر تمام بولیوں کے لیے رسم الخط مرتب کر لیا ہے اور حکومت کی منظوری کے بعد پرائمری سطح پر نصاب کا حصہ بنایا جائے گا. یہ ایک نہایت خوش آئند اقدام ہے اور مقامی زبانوں کے لیے یہ سنگ میل ثابت کی حیثیت رکھے گا. یہ بات بھی اطمنان بخش ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی مقامی زبانیں پڑھ اور لکھ سکیں گی.

ایک متفقہ رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے شینا زبان کا تحریری ادب نہ ہونے کے برابر ہے. تصنیف و تالیف تو درکنار شینا زبان کے شاعر بھی آج گلوکاروں کی وجہ سے ادبی طور پر زندہ ہیں. اکثر شعرا کو عوام تک رسائی ہی نہیں اور عام لوگ گلوکار کو ہی شاعر سمجھتے ہیں. ” شاعر و گلوکار” کی بھونڈی ترکیب اتنے تواتر سے استعمال کی جاتی رہی ہے کہ اب شاعر کے لیے لازمی بن گیا ہے کہ وہ گلوکاری بھی کرے. اب یہ احساس ہی جاتا رہا ہے کہ شاعری الگ فن ہے اور گلوکاری الگ… عزیز الرحمان ملنگی اور ظفر وقار تاج کو بھی ہم شاعرو گلوکار کہہ جاتے ہیں اور سلمان پارس اور جابر خان جابر کو بھی….
ہمارے شاعر شاعری کو تخلیق ہی اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی شاعری گائی جا سکے اس لیے وہ پہلے دھن بنانے کی تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں پھر قافیے ردیف کا پیچھا کرتے ہیں یوں ان کے ایک ہی کلام میں مختلف اور متضاد خیالات در آتے ہیں اور اکثر مصرعے بھرتی کے ہوتے ہیں.
شینا میں شاعری کی اصناف بھی واضح نہیں ہیں. اگر اصناف سخن کا وجود ہے بھی تو شعوری سطح پر اُن کو برتنے کی کوششیں بہت کم ہوئی ہیں. وجہ وہی کہ ہم نے شاعری کو محض گانے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے. گلوکاری کے لیے شاعری تخلیق کرنے سے شینا شاعری میں فکری عناصر کا قحط ہے. ہماری شاعری کے مضامیں انتہائی محدود ہیں. اب تک کی شاعری جو دراصل گلوکاروں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے اس میں لب و رخسار اور عشق و محبت کے علاوہ کوئی اور مضمون شعوری طور پر نہیں برتا گیا. کچھ ملی نغمے اور دھرتی ماں کے گیت بھی البتہ سننے کو ملتے ہیں. اگر ادب معاشرے کا آئینہ ہے تو شاعر و ادیب پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے ہر پہلو کی تصویر کشی کرے. فطرت نگاری, نچلے طبقے کی زندگی, مظلوموں مزدوروں اور عوامی مسائل کی عکاسی, بچوں, خواتین اور نوجوانوں کے مسائل, بالا دست طبقے کے مظالم, حکومت و ریاست کے جبر وغیرہ کے بارے میں شینا شاعری میں سکوت طاری ہے.

شاعری سے ہٹ کر شینا میں نثر کا وجود ناپید ہے. ڈرامے اور تقاریر و خطبات کے علاوہ اور کوئی نثری صنف ابھی نہیں پائی جاتی. ایک وقت تھا کہ دادیوں اور نانیوں کی زبانی لوک کہانیاں سینہ بہ سینہ چلتی رہتی تھیں لیکن اب نہ ہی ایسی دادیاں اور نانیاں رہیں نہ ہی ان کو سننے والے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں. یوں اب وہ قصے کہانیاں دھندلی ہوتی جا رہی ہیں. ان لوک کہانیوں کو تحریری شکل دینا لازمی ہے کیونکہ یہی کہانیاں شینا نثر کے لیے خشت اول کا کام دیں گی.
جہاں ادب ہوگا وہاں تنقید کے شعبے کا ہونا لازمی امر ہے. تنقید کے ذریعے ہی کسی فن پارے کو جانچا پرکھا جاتا ہے, اس کی خوبیاں خامیاں معلوم کی جاتی ہیں اور اس ادب پارے کی قدر و قیمت کا تعین کیا جاتا ہے. نقاد وہ شخص ہوتا ہے جو اس فن کی گہرائی اور گیرائی کا درک رکھتا ہے. ہر زندہ زبان میں ادب اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے. شینا زبان چونکہ ابھی تک تحریری زبان نہیں بن سکی ہے اس لیے تنقید کا شعبہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا. اہل علم و فن کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.

اب جب کہ شینا ادب کے کارواں میں سنجیدہ, با شعور اور توانا لب و لہجے شامل ہو چکے ہیں تو ان پہ یہ بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ شینا ادب کو معاشرہ کا آئینہ بنائیں اور ایسی روایتوں کی بنا ڈالیں کہ جس پہ ایک مضبوط اور مستحکم عمارت استوار ہو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button