کالمز

سرسبز پاکستان کا خواب گلگت بلتستان میں ادھورا کیوں ؟

تحریر: اسرارالدین اسرار

ماحولیاتی آلودگی کےبارے میں فکر مند لوگ گرین پاکستان کے منصوبے کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ اس میں اپنا حصہ شامل کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں یہ مہم جاری ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی زیادہ ضرورت گلگت بلتستان کو ہے ۔ ماضی کی نسبت گلگت بلتستان میں درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے نہ صرف یہاں کا قدرتی حسن متاثر ہورہا ہے بلکہ گذشتہ سالوں کے دوران قدرتی آفات کے باعث نقصانات کے حجم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں شجر کاری مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر درخت اگانے کی ضرورت ہے ۔ مگر بد قسمتی سے اس ضمن میں رکاوٹ وہی لوگ ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس مہم کو آگے بڑھانے میں مدد کریں۔ شنید ہے کہ گرین پاکستان کا منصوبہ یہاں پر متعلقہ محکمہ اور ٹھکیداروں کی با ہمی چپقلش کے باعث التوا ء کا شکار ہے۔ خدیشہ ہے کہ اس مد میں رکھی گئی رقم وفاق کو واپس جائے گی ۔ اس مسلے کا بروقت حل نہ نکالا گیا تو گلگت بلتستان سرسبز پاکستان جیسے عظیم منصوبے کے ثمرات سے محروم رہ جائے گا۔

گلگت بلتستان میں فروری اور مارچ شجر کاری کا موسم ہوتا ہے ۔ گرین پاکستان منصوبے کے علاوہ یہاں محکمہ زراعت ، جنگلات اور ایفاد کی ذمہ داری ہے کہ و ہ گلگت بلتستان میں شجر کاری مہم کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی مدد کریں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی اکثریت شجر کاری میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہر دوسرا فرد درخت لگا نے کا متمنی ہے کیونکہ درخت لگانا یہاں کے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہی نہیں بلکہ کئی لوگوں کا روزگار پھلدار اور غیر پھلدار درختوں سے وابستہ ہے۔کیونکہ وہ پھل یا لکڑی بھیج کر اپنا روزگار کماتے ہیں۔ مگر تعجب کا مقام ہے لوگوں کی طرف سے مسلسل شکایا ت آرہی ہیں۔ جو بھی فرد مذکورہ محکومو ں کے پاس جاکر درخت مانگتا ہے تو محکمہ میں بیٹھے لوگ ہزار بہانے تراشتے ہیں۔ ایک محکمہ دوسرے کے سر پر ڈالتا ہے اور دوسرا تیسرے کے سر پر ذمہ داری ڈالتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سائل تھک ہار کر درخت لگانے کا ارادہ ترک کرتا ہے ۔

جو لوگ سرسبز پاکستان میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں ان کو اس مہم سے محروم رکھنے والے کسی ریاعت کے مستحق نہیں ہیں۔ ارباب اختیار کو اگر فرصت ہو تو ان افراد سے پوچھ گچھ کرنا چاہئے جن کا کام درخت لگانا اور لوگوں کو درخت لگانے کی ترغیب دینا ہے وہ خود اس مہم میں سب سے بڑی رکاوٹ کیوں بنے بیٹھے ہیں؟ محکمہ ذراعت کو چاہیے کہ وہ طلب کے مطابق سال بھر درخت پیدا کریں مگر وہ سال بھر صرف سرکاری خزانے سے پیسے بٹورتے ہیں اور درختوں کا جب موسم آتا ہے تو جاگ جاتے ہیں تب ان کے پاس لوگوں کی ڈیمانڈ کے مطابق درخت نہیں ہوتے ہیں ۔ یہی حالت محکمہ جنگلات کی ہے۔ ان محکموں کا کام خود درخت لگانا ہے مگر یہاں لوگ خود درخت لگانا چاہتے ہیں محکمہ اگر صرف ان کو درخت فراہم کرے تولوگ اس کو احسان سمجھتے ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہئیے کہ یہ تمام محکمے مل کر زور و شور سے شجر کاری مہم چلائیں اور درخت لوگوں کی دہلیز پر پہنچا دیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہے ، اس مقصد کے لئے بنائے گئے محکموں کے پاس درختوں کی شدید قلت ہے ۔ اگر کوئی ان سے درخت مانگے تو چند درخت فراہم کر کے ان پر احسان بھی جتا تے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو درخت مانگنے پردھتکارا جاتا ہے ۔ ایسے نا اہل افراد کی موجودگی میں سرسبز پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button