کالمز

بلتستان میں حالیہ برفباری اور ممکنہ سیلابی خطرات

تحریر: اشرف حسین شگری

بلتستان ریجن میں اس سال اچھی خاصی برف باری ہوئی اور بیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ایک طرف تو سردیوں میں زیادہ برفباری میدانی علاقوں کے لئے باعث رحمت ہے ، کیونکہ ان کیلئے گرمیوں میں کافی مقدار میں پانی مل جاتا ہے اور خشک سالی سے بچ جاتے ہیں تو دوسری طرف پہاڑی علاقوں اور خاص کر گلیشیئرکے نزدیک رہنے والوں کے لیے باعث زحمت بھی بن سکتی ہے۔ اس سال بلتستان ریجن میں کافی برف باری ریکارڈ کی گئی، اور بلتستان میں موجود سارے گلیشیئر کی حجم میں اضافہ ہوا ہے۔گلیشیئراور ان کے اثرات کے حوالے سے پچھلے سال ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں گلیشیئرکے حوالے سے کافی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

گلیشیئربرف کا ایک بہت بڑا جسم ہوتا ہے۔ برف کے بہت بڑا ایریا گرمیوں میں بھی مکمل طور پر پگھلتے نہیں ہے اور ہر موسم سرما میں مزید برف شامل ہو جاتے ہیں۔ ہر برف کا ٹکرا دباؤ پیدا کرتا ہے، یہ دباؤ برف snow کے نچلے حصوں کو برف ice میں بدل دیتے ہیں۔یہ عمل کئی سالوں تک ہوتا ہے ، پھر گلیشیئر حجم میں بڑھنا شروع کردیتا ہے۔ پھر یہ اتنا بھاری ہو جاتا ہے کہ کشش ثقل کی وجہ سے برف نیچے کی طرف حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ نیچے پانی کی طرح بہتا ہے لیکن بہت آہستہ آہستہ، ایک گلیشیئر نارملی صرف 50 میٹر (160 فٹ) فی سال چلتا ہے، اور اگر تیزی سے حرکت کریں تو 20۔30 میٹر (70۔100 فٹ) روزانہ کے حساب سے حرکت کر سکتے ہیں۔ خالی ہونے والی جگہ نئے آنے والی برفباری لے جاتی ہیں۔

گلیشیئر بہت اہم ہوتے ہے۔ ان کے ماحول پر بھی ایک بہت بڑا اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے اور بھاری جسم کے حامل ہوتے ہیں۔ جب وہ حرکت کرتے ہیں، تو وہ پہاڑوں اور زمین کو تباہ کر دیتے ہیں۔ چونکہ وہ کافی عرصہ پہلے منجمد ہو گئے ہیں ، اور برف کے کریسٹلز اور ہوا کے بلبلے اس کے اندر اچھی حالت میں موجود ہوتا ہے، جو کہ سائنسدانوں کے لئے بہت زیادہ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

ماضی کے نسبت اب گلیشیئر زیادہ سے زیادہ پگھل رہے ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔ بلتستان ریجن سلسلہ کوہ قراقرم کے گلیشئیرز کے زد میں آتے ہیں ، سلسلہ کوہ قراقرم تقریباََ 40 گلیشئیرز پر مشتمل ہے جس میں سب سے بڑی اور اہم (سیاچن گلیشیئر) 46.6 میل (75 km) ، باٹورا 34 میل54.7km) (اور بالتورو 32.5 میل (52.3km) اور دیگر گلیشئیرز جیسے گوڈوان آسٹن، بیافو ، ہسپر،چھوگولیسا،گوڈوگورو، بیارچیڈی کبڑی، وِجنے،ہسپروغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں میں اب موسم سرما میں بھی دریاوں کی بہاؤ زیادہ رہتے ہیں، جو کچھ سال قبل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔ جو کہ پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان میں موجود گلیشیئر کی پگلنے کی وجہ سے ہیں جو کہ کشش ثقل اور . عالمی گرمی global warming کی وجہ سے متاثرہو رہا ہے۔

زیادہ سے زیادہ پہاڑوں میں درجہ حرارت گرمیوں کے دوران 30 ڈگری سیلسیس تک جاتا تھا، لیکن اب یہ 40 ڈگری سیلسیس تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق زمین کی درجہ حرارت کے بڑھنے کے علاوہ، پہاڑی علاقوں میں آبادی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی ٹریفک بھی گلیشیئر کے پگھلنے کے عمل کو تیز کرتاہے۔

اس سال زیادہ برفباری اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمیوں کی آغاز سے ہی پہاڑوں اور گلیشیئرکے نزدیک کے علاقوں میں برفانی تودہ گرنے اور سیلاب کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خاص کر ضلع شگر کی بات کروں تو دریائے شگر کی دونوں اطراف کے آبادی میں لینڈ سلائیڈینگ کا زیادہ امکانات ہیں، اسمیں سے کچھ علاقے ہر سال سیلابی ریلے کی زد میں رہتے ہیں۔ اس سال ان علاقوں کے مکینوں کو قبل ازوقت احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور محفوظ مقام کی طرف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔ شگر میں زیادہ تر ان نالوں اور علاقوں میں سیلاب کے زیادہ امکانات ہے ان میں یونو نالہ، کشمل نالہ، داسو اور تستون ، اور دوسری طرف وزیرپور/گلاپور کے نالے شامل میں، اسکے علاوہ تمام آبادیوں یا اس کے قریب سے گزرنے والے نالوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص کر سکورا نالہ چھورکاہ جس میں تو ابھی کچھ دن پہلے ہی برفانی سیلاب آگیا اور کچھ گھروں میں بھی پانی گھسنے کی اطلا عات ملی۔ ابھی گرمیوں کا آغاز بھی نہیں ہوا اور برفانی سیلاب آنا شروع ہوگیا۔

اس سال اگر موسم صاف رہا تب بھی اور اگر بارشیں ہوئی تب بھی سیلاب آنے کا روشن امکانات ہیں۔ لہذا ضلعی انتظا میہ اور ڈیزاسٹرریسک منیجمنٹ والے قبل از وقت ان علاقوں کی نشاندہی کر کے ان علاقوں کی مکینوں کو فلاڈ وارننگ جاری کر کے اور ان کو محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ اور تمام ضلعی مشینری کو فعال کریں تاکہ خدانخواستہ اگر ایسی کوئی سیلابی صو رتحال پیش آئے تو مقامی آبادی کو منتقل کرنے کیلئے مشکلات پیش نہ آئے، اور کم سے کم جانی ومالی نقصان ہو سکے۔

اسکے علاوہ وہ تمام علاقے جو سیلاب کے زد میں ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو موسمی تبدیلی کے ساتھ محفوظ جگہوں پر منتقل ہوجائے، اور ان نالوں سے متصل زمینوں پر قیمتی اجناس کم سے کم اگایا جائے اور جانوروں کو بھی نشیبی علاقوں اور نالوں کے نزدیک نہ چھوڑا جائے ، اسکے علاوہ گھروں میں بھی قیمتی اشیاء زیورات اور نقدی رکھنے سے گریز کریں ، تاکہ ایمرجنسی صورتحال میں اگر گھر چھوڑنا پڑے تو کم سے کم مالی نقصان ہوسکے۔ بلتستان کے زیادہ تر رہائشی غریب ہیں، اور وہ آب و ہوا کی تبدیلی جیسے سیلاب اور ، برفانی تودے کا اچانک گرنے جیسے بڑے پیمانے پر تباہ کن واقعات کا رد عمل نہیں کرسکتے ہیں، ممکنہ سیلابی علاقوں میں لوگوں کی ماحولیاتی نظام، ارضیاتی اور بنیادی ڈھانچے کو بچانے کے لئے طویل مدتی منصوبوں یا کمیونٹی کی بنیاد پر تباہی کے خطرے کے انتظام، موافقت اور ان سے بر وقت نمٹنے کے لئے لایحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت ناگہانی آفتوں سے نمٹا جاسکے۔ گلگت بلتستان کے تمام ضلعوں میں ڈیزاسٹرریسک منیجمنٹ کے دفاتر کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ ان ناگہانی صورتوں میں یہ بروقت کاروائی کی جاسکے اور کم سے کم جانی و مالی نقصان ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی ارضی و سماوی آفتوں سے بچائے آمین ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button