کالمز

سو دیشی باشندوں کا عزم 

سو دیشی کا لفظ انگریزی کے انڈی جینس (Indigenous) کا تر جمہ ہے مگر ہمارے لئے انگریزی سے زیا دہ نا ما نو س اور اجنبی معلوم ہو تا ہے سوات کے پُر فضا مقا م بحرین میں 16سو دیشی برادریوں کے نما ئندو ں کی کانفرنس ہوئی تفصیلات اخبارات میں آرہی ہیں سو شل میڈیا پر تصا ویر کی دھوم مچی ہوئی ہے دھوم بھی وائر ل کا آزاد تر جمہ ہے کانفرنس اس لحا ظ سے اہم ہے کہ کر اچی، اسلام اباد یا لا ہور کی جگہ اُس مقام پر منعقد ہوا جہاں سو دیشی برا دریاں رہتی ہیں دوسری بڑی خصو صیت اس کا نفرنس کی یہ ہے کہ اس کی قراردادوں میں حکومت اور بین الاقوامی اداروں سے کوئی مطا لبہ نہیں کیا گیا اعلا میہ میں سو دیشی برادریوں کے نما ئندوں نے اس عزم کا بار بار تکرار کیا ہے کہ وہ اپنی زبان، اپنی ثقا فت اور اپنی شنا خت کے تحفظ کے لئے ملکر کام کرینگی اور خود اپنی تہذیب و تمدّن کو تر قی دینے کے منصو بوں پر عمل کر کے دکھائینگی اپنے مقا صد کے حصول اور مقا صد کی طرف پیش رفت کے لئے کانفرنس کے شر کاء نے ”ماونٹین کمیو نیٹیز کو لیکیٹو“ پہاڑی برادریوں کی اجتما عیت کے نا م سے ایک پلیٹ مہیا کرنے کا اعلا ن کیا کانفرنس کا اہتما بحرین میں قائم ادبی و ثقا فتی تنظیم ادارہ برائے تعلیم و تر بیت (IBT) نے سڈنی یو نیور سٹی آسٹریلیا کے شعبہ بشریا ت کے تعا ون سے کیا تھا

کانفرنس میں تور والی، گاوری، اوشو جو، کوہستانی، انڈس کوہستانی،شینا، بلتی، بر وشسکی، وخی (گوجا لی)، گوجری، کھوار، کلا شہ،ید غہ، گوار بتی، دمیلی اور پا لو لہ سمیت16سو دیشی برادریوں کے 42نمائندوں نے شر کت کی ادارہ برائے تعلیم و تر بیت کے سر براہ اور معروف دانشور، کا لم نگار، محقق زبیر تور والی کانفرنس کے روح رواں تھے سڈ نی یو نیورسٹی کی نمائیندگی مادام جیکے لیں ٹر وے( Jakeline Troye)نے کی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد کانفرنس میں پڑھے گئے مقا لات کا مجمو عہ شائع ہو گا

یہاں تک سب باتیں درست ہیں آگے گہری کھا ئی ہے وطن عزیز کے اندر پبلک سیکٹر کی 29یو نیور سٹیاں ہیں نجی شعبے میں 40سے زیا دہ یو نیور سٹیاں کھل چکی ہیں کسی بھی یو نیور سٹی میں شما لی علا قوں کے سود یشی با شندوں کی تہذیب و ثقا فت یا زبان و ادب پر تحقیقی کام کرنے کا شعبہ نہیں ہے کسی بھی یو نیور سٹی میں سوات، گلگت بلتستان، چترال، دیر، کوہستان اور ہزارہ کی سو دیشی برادریوں میں کام کرنے والی ادبی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ادبی مجا لس، کانفرنسز، سمینا ر ز اور مذاکرے منعقد کرنے کی کوئی کھڑکی دستیاب نہیں کسی بھی یو نیورسٹی کے پا س شما لی علا قوں کی ثقا فت پر تحقیقی کام کرنے والوں کی کتا بوں کو شائع کرنے کا بندو بست نہیں انجمن تر قی کھوار چترال نے 1990ء اور 1995ء میں دو بین لاقوامی کانفرنسوں کا اہتما م کیا دونوں کی رو داد وں اور پیش کئے گئے مقا لا ت پر مبنی کتاب اکسفورڈ یو نیور سٹی نے شائع کیں پاکستان کی کسی یونیور سٹی کے پا س ان کتا بوں کی اشاعت کے لئے گنجا ئش نہیں تھی

جو لائی 2020ء انجمن تر قی کھوار چترال کے زیر اہتما م چو تھی ہندو کش کلچرل کانفرنس ہو رہی ہے یہ 1970ء میں کوپن ہیگن ڈنمارک میں منعقد ہونے والی پہلی ہندو کش کلچرل کانفرنس کی گولڈن جو بلی کا سال ہے مجوزہ کانفرنس میں سو دیشی برا دریوں کی ثقا فت و ادب پر ایک مستقل سیشن رکھا جارہا ہے مگر مسئلہ وہی ہے شرا کت داری کے لئے پاکستان میں نہ کوئی یو نیور سٹی تیار ہے نہ کوئی ادارہ ہاتھ بٹا نے پر را ضی ہے ایک بار پھر ڈنمار ک، نیدر لینڈ، سویڈن، امریکہ، جر منی اور انگلینڈ کی یو نیور سٹیاں اور ان ملکوں کی سائنسی و ثقا فتی تنظیمیں شرا کت داری پر آما دہ نظر آتی ہیں ادارہ برائے تعلیم و تر بیت (IBT)اگر دوسری کا نفرنس کرائے گی تو اس کو آسٹریلیا، سویڈن اور امریکہ سے مد ملے گی اپنے وطن کے کسی ادارے سے مد د نہیں ملے گی خیبر پختونخوا کی زبانوں کو تر قی دینے کے لئے جنوری 2011ء میں صو بائی اسمبلی نے پرور مو شن آف ریجنل لنگویجز اتھارٹی کا بل پا س کیا اتھارٹی بن گئی محکمہ ثقا فت میں اتھارٹی کے دو اجلاس بھی 2012ء میں منعقد ہوئے اس کے بعد انتخا بات ہوئے نئی حکومت آگئی اور اسمبلی کا مذکورہ ایکٹ کوڑے دان میں پھینک دیا گیا اس ایکٹ کی رو سے سو دیشی با شندوں کو ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر اپنی زبان اپنی تہذیب و ثقا فت او ر اپنی شنا خت کے حوا لے تحقیق مجلے شائع کرنا تھا سمینا ر اور مذا کرے منعقد کرنا تھا تحقیق کام کرکے دستا ویزی فلموں، کتا بوں، میلوں اور نما ئشوں کے ذریعے سو دیشی ثقا فتوں کو محفوظ کر نا اور پرواں چڑ ھا نا تھا بحرین میں کانفر نس آف انڈ ی جینس کمیو نی ٹیز(CIC) کے کامیا ب انعقاد کے بعد اُمید پید ا ہو گئی ہے کہ اب علا قائی ادب اور ثقا فت کو فروغ دینے کے لئے مقا می دا نشوروں کی ٹیمیں حکومت پر انحصار کئے بغیر آگے بڑ ھینگی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button