کالمز

صدا بصحرا …… اصل شر مند گی یہ ہے 

آج کے اخبارات نے بھی الیکٹر انک میڈیا اور پارلیمانی بحث مباحثوں کی طرح اس مسئلے کواُٹھا یا ہوا ہے کہ انٹر نیشنل ما نیٹر ی فنڈ (IMF) کے ساتھ یکطر فہ شرائط پر معا ہد ے کی تیاری کر کے حکومت نے خود کو بھی شر مند ہ کر دیا اور قومی ا داروں کو بھی شر مند ہ کر دیا ہے نیز قوم کو بھی شرمند گی سے دوچار کر دیا ہے حکومت کا بیا نیہ صاف، دو ٹوک او ر واضح ہے حکومت کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک سازش کے تحت وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا نے سے انکار کر کے قرضوں کا سارا طو ق ہمارے گلے میں ڈال دیا اور قرضو ں کے بوجھ سے نکلنے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف سے رجو ع کر نا پڑا اگر 2008 ؁ء سے 2018 ؁ء تک ملک پر حکومت کر نے والی سیاسی جماعتیں محب وطن ہو تیں تو موجو دہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہر گز نہ پڑتا وہ سب چور، ڈاکو او رلیٹر ے تھے اس لئے خود آئی ایم اے کے پاس نہیں گئے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کر دیا تجز یہ نگاروں کا ایک موثر گروہ اس بیا نیے کو ماننے پر اما دہ نہیں حکومت کے حامی طبقوں میں سے غالب اکثر یت نے اس بیا نیے کو مسترد کر دیا ہے اس بیا نیے کو ثابت کر نے کے لئے دلا ئل نہیں ملتے اگست 2018 ؁ء میں اقتدار حاصل کر نے کے بعد موجو دہ حکومت کو بے پنا ہ کا میابیاں ملی تھیں سعو دی عر ب، متحد ہ عر ب امارات اور عوامی جمہو ریہ چین کی طرف سے 9 ارب ڈالر کی امد اد آئی تھی یہ بہترین پیکچ تھا جو حکومت کی کا میاب سفارت کاری کا نتیجہ تھا اس لئے عوام کی تو قع یہ تھی کہ اب مہنگائی میں کمی ا ٓئے گی عوامی مسائل حل ہو نگے اور ترقیاتی منصو بوں کا اجرا ء ہو گا جب عوامی توقعات آسمان کو چھو نے لگیں تو اوپر سے آئی ایم ایف کا پیکچ آگیا اب اصل شرمندگی یہ نہیں کہ وزارت خزانہ کے تین کلیدی عہد ے پاکستان سے چھین لئے گئے گورنر سٹیٹ بینک بھی اُن کا،چیئر مین ایف بی آر بھی ان کا اور مشیر خزانہ بھی ان کا ہے

راتیں اس کی ہیں نینداس کی ہے دماغ اس کا ہے
تیری زلفین جس کے شا نوں پر اویزاں ہو گئیں

اصل شرمند گی یہ بھی نہیں کہ اب روپے کی قدر کے مقابلے میں ڈالرکا نرخ آئی ایم ایف مقر ر کر یگی اصل شرمند گی یہ بھی نہیں کہ سود کے خاتمے پر آئی ایم ایف نے پابند ی لگائی ہے ہماری پارلیمنٹ سود کے خاتمے کا بل پاس نہیں کرسکے گی اصل شرمند گی یہ بھی نہیں کہ اب ملک میں گیس، بجلی، پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں پر نظر ثانی کاکام اوگرا اور دیگر وفاقی اداروں سے لیکر آئی ایم ایف کو دیا جارہا ہے اصل شر مند گی یہ بھی نہیں کہ اب جا ن بچانے والی دو اوں کے نرخ آئی ایم ایف مقر ر کر یگی غریبوں کے لئے آٹے، دال،چینی او رگھی میں سبسڈی دینے کا اختیار پاکستان کی حکومت کوحاصل نہیں ہو گا اصل شرمند گی یہ بھی نہیں کہ وفاق اور صوبوں میں فنا نس، خزا نہ اور منصو بہ بند ی کے حکام کا تقر ر آئی ایم ایف کریگی اصل شرمند گی یہ بھی نہیں کہ پاکستان کے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کو 9 مہینوں میں 38 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اگلے تین سالوں کے اندر سٹاک ایکسچینج کی مندی میں مزید اضافہ ہوگا اور تنزل کی طرف سفر جاری رہیگا اصل شرمند گی یہ ہے کہ پاکستان بحیثیت ملک بحیثیت قوم اپنا اعتبار اور اعتماد کھو چکا ہے انگر یز ی میں اس کو ”ٹرسٹ ڈیفیسیٹ“کہتے ہیں انگر یز ی کے ایک مشہور مقو لے کا اردو ترجمہ ہے ”جب تمہا رے ہا تھ سے دولت گئی تو کچھ بھی نہیں گئی، جب تمہا رے ہا تھ سے صحت گئی تو تم نے بہت کچھ کھو دیا اور جب تمہا را اعتما دو اعتبار نہ رہا تو تمہا رے ہاتھ کچھ بھی نہ رہا ”آج اس مقام کو ہم نے چھو لیا ہے عالمی برادری میں ہمارا بھروسہ، اعتبار اور اعتماد ختم ہوا ہے گذشتہ 70 سالوں میں ہماری حکومتوں نے 12 دفعہ آئی ایم ایف سے بھاری سود پرقرض لیا ہے یہ تیر ھوان قرض ہے جو لیا جا رہا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آئی ایم ایف نے قر ض دینے سے پہلے وزارت خزانہ کی چا بیاں ہم سے لیکر اپنے بندوں کے ہاتھوں میں دی ہوں قرض کے معا ہد ے پر ہماری طرف سے دستخط کر نے کے لئے اپنے بند ے اہم عہد وں پر بٹھائے ہو ں اعتماد کا یہ فقدان اچانک ظہو ر میں نہیں آیا 2 سال پہلے ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ پاکستانی حکومت کے اہم اداروں کا باہمی اعتماد ختم ہوا فوجی عدالت نے 40 شہر یوں کے قتل میں مجر م ثابت ہو نے والے مجرم کو سزا ئے موت دی تو سول عدالت نے اس کو بری کر دیا سول انتظا میہ نے عوامی مفاد میں ایک حکمنا مہ جاری کر دیا تو عدالت نے اُس پر غیر معینہ مد ت کے لئے حکم امتنا عی دید یا سول بیو روکر یسی نے کسی منصو بے کے لئے فنڈ جاری کر دیا تو عدالت نے منصو بے کو روک دیا سول بیوروکریسی نے کسی منصو بے پر کام کا آغاز کیا تو مقا می ٹاسک فورس کے کما نڈر نے میٹنگ بلا کر کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا اوپر سے اشا رہ ہوا تو ایک ادارے نے چھا پہ مارکر سول انتظا میہ کے دفتر کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا اوپر سے اشارہ ہوا تو یونیورسٹی کے اساتذہ اور سول سروس کے پڑھے لکھے افیسروں کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں اُن کا تماشا لگا یا گیا اوپر سے اشارہ ہوا تو سیاستدانون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو ئے ہر شخص کو اس خوف میں مبتلا کیا گیا کہ کل مجھے ہتھکڑ یاں لگا ئی جا سکتی ہیں بس اوپر سے اشا رہ ہو نا چاہیے بقول فیض ؎

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کوئی نہ سراُٹھا کے چلے

خوف کی اس فضا میں گو رننس کا بر ا حشر ہوا ہے بے گنا ہ شخص کو پکڑا گیا تو اُس پر جرم ڈالنے میں کئی مہینے لگ گئے افیسروں نے ایکا کر لیا کہ کوئی کاغذ ہمارے دستخطوں سے آگے نہیں جائے گا سڑک، بجلی گھر یا ہسپتال اور کالج کے لئے 2013 ؁ء میں زمین لی گئی تھی معاوضہ طے ہو چکا تھا ایوارڈ منظور ہوا تھا کاغذات پر 8 افیسروں کے دستخط ہو ئے تھے اب ایک غریب آدمی کو 16 ہزار روپے کا چیک دینا ہے تو متعلقہ افیسر اس پر دستخط کر نے سے گریز کر تا ہے ایسے 5 ہزار متاثرین گذشتہ 2 سالوں میں 120 کلو میٹر کا سفر طے کر کے دسویں بار دفتر میں حاضر ہو ئے مگر چیک نہیں ملا چیک پر دستخط کر نا منع ہے بھروسہ، اعتماد اور اعتبار کھو چکا ہے اورا صل شرمند گی یہی ہے، فیلڈ میں بیٹھا ہواریونیو افیسر دوسرے افیسرپر اعتبار نہیں کرتا ایک ادارہ دوسرے ادارے پر اعتبار نہیں کرتا نو بت یہاں تک پہنچی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی حکومت پر اعتبار نہیں کرتی یہی اصل شرمند گی ہے اس شرمند گی سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام ادارے آئین کو تسلیم کریں نیب کے واچ ڈاگ سے واچ کو ہٹا یا گیا ہے اب ڈاک کو بھی ہٹا نا ہو گا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button