کالمز

گلگت بلتستان کے ٹیپو سلطان … راجہ گوہر امان

رشید ارشد

قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش کے سینے کو چیرتی ہوئی شاہراہ ریشم پر گزرتے ہوئے جگلوٹ کے مقام سے آگے گلگت کی طرف مناور سے پہلے بھوپ سنگھ پڑی ہے  یہ صرف ایک چٹان نہیں بلکہ ہماری عظمت رفتہ کی شان ہے،ہماری وطن سے محبت اور جاں فروشی کی داستان ہے۔

اسی شاہراہ ریشم سے گزر کر گلگت پہنچیں اور گلگت شہر کے وسط میں این ایل آئی مارکیٹ میں ایستادہ گلگت قلعے کی میناروں پر ایک نظر ڈال کر آگے کی طرف سفر جاری رکھیں شہر کے مضافاتی علاقے بسین،ہینزل،شروٹ شکیوٹ سے گزر کر آپ وادی غذر میں داخل ہوں گے،اس وادی کو شہدا کی سر زمین کہا جاتا ہے،شہدا کی شہادتوں کی داستان یہاں 1947سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے شروع ہوتی ہے،شروٹ شکیوٹ سے دریائے غذر کے بائیں  جانب سفر کر تے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گزرتے ہوئے ضلع غذر کے صدر مقام گاہکوچ پہنچیں گے سفر کرتے جائیں گے تو گوپس آئے گا گوپس سے ایک راستہ شندور اور چترال کی طرف جاتا ہے اور ایک راستہ یاسین کی طرف جاتا ہے،آپ شندور کی طرف نہیں یاسین کی طرف سفر جاری رکھیں یسین شہر کے درمیان ایک چھوٹا سا صاف شفاف پانی کا نالہ بہہ رہا ہے  اس نالے کی دوسری طرف طاوس گاؤں ہے اسی طاوس گاوں میں اونچی سی جگہ میں خوبانیوں کے باغ کے درمیاں چند قبریں ہیں انہی قبروں میں ایک قبر ہے،یہ وہ قبر ہے جب صاحب قبر زندہ تھے تو انگریز اور ڈوگرے گلگت بلتستان پر میلی آنکھ سے بھی دیکھنے کی جر ات نہ کر سکے،جب ڈوگروں کو خبر ملی کہ فوت ہوئے ہیں تو دوڑے آئے لیکن اس قبر نے بھی کو بتا دیا کہ تمہارے ناپاک قدم اس سرزمین پر نہ میری زندگی میں پڑ سکے تھے تو نہ میری موت کے بعد پڑیں گے ہاں البتہ میری موت کے بعد بھی تمہارے مقدر میں موت اور رسوائی ہے،یہ قبر گلگت بلتستان کے ٹیپو سلطان راجہ گوہر امان کی ہے۔

اب ہمیں تاریخ پر پڑی مسلکی،علاقائی اور عصبیتوں کی گرد کو جھاڑ کر تاریخ کی تصحیح کرنی ہوگی نہیں تو ہم بھی تاریخ کی گرد میں کہیں گم ہوں گے اور ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گلگت بلتستان کے اولین قوم پرست راجہ گوہر امان تھے جنہوں نے میسور کے شیر ٹیپو سلطان کی طرح اپنی زندگی میں بیرونی حملہ آوروں کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے نہ دیا راجہ گوہر امان گلگت بلتستان کی تاریخ کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جن کی زندگی میں بیرونی حملہ آور گلگت کی سر زمین پر قدم نہ رکھ سکے لیکن ہم نے اسی ہیرو کو اپنی علاقائی اور مسلکی عصبیتوں کی بھینٹ چڑھا کر تاریخ کو مسخ کر نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی،ہمارے کچھ نام نہاد مورخین نے راجہ گوہر امان کے خلاف اپنے چھوٹے پن کا بھر پور مظاہرہ کیا،خیر یہ ایک الگ بحث ہے،تاریخ کے ساتھ بلد کار کرنے والوں کے حوالے سے پھر کھبی نشست ہوگی،

۔ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے عوام اس عظیم سپوت کی بہادری کو یاد کرتے ہیں گلگت بلتستان کے اس عظیم تاریخ کے درخشندہ ستارے کا تعلق خوش وقت خاندان سے تھا یہ مشہور حکمران یاسین و گلگت سلیمان شاہ کے بھائی ملک امان کے بیٹے تھے راجہ گوہر امان کے کثیر تعداد بھائیوں میں کم از کم پانچ قتل ہوئے راجہ گوہر امان یاسین میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہیں راجہ گوہر امان وہ عظیم ہستی تھے جس نے بھوپ سنگھ پڑی میں انگریزوں، ڈگروں اور سکھوں کو چنے چبوائے یہیں گوہر امان والی یاسین نے گلگت ایجنسی کے لوگوں کی فوج کے ساتھ ڈوگرہ جرنیل بھوپ سنگھ اور اس کی تین ہزار ڈوگرہ،سکھ اور انگریز فوج کو گھیر کر موت کے منہ میں دھکیل دیا گلگت بلتستان کے کے اس عظیم ہیرو گوہر امان دی گریٹ کی بہادری کی وہ لازول مثالیں ہیں جس کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں اس کی بہادری کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہے راجہ گوہر امان کی وفات کے بعد بھی کئی سالوں تک ڈوگروں،سکھوں اور انگریزوں نے غذر کارخ کرنا چھوڑ دیا تھا اور ان میں اتنا خوف سوار تھا کہ کئی یاسین جائینگے تو راجہ گوہر امان کے ہاتھوں مارا نہ جائے آج بھی راجہ گوہر امان کی قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے انگریز ڈرتے ہیں آ ج بھی راجہ گوہر امان کی بہادری کی داستانیں ہمارے بزرگ سناتے ہیں اس بہادر سپوت نے بہادری کی وہ لازول دستانیں رقم کی ہے جس کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ راجہ گوہر امان ایک صحیح راسخ العقیدہ مسلمان تھے جب تک زندہ رہے ڈوگروں کی مجا ل نہ ہوئی کہ وہ گلگت کی راجدھانی پر قبضہ  کر سکیں۔

آج بھی آپ شاہراہ ریشم سے گزرتے ہوئے مناور سے آگے اور جگلوٹ سے پہلے پھوپ سنگھ پڑی سے گزریں تو اوردیکھیں تو گلگت بلتستان کے ٹیپو سلطان کی وطن کے لئے دی جانی والی عظیم قربانی کی گواہی یہاں کا ایک ایک پتھر دے رہا ہوتا ہے،میں تو جب بھی اس مقام سے گزرتا ہوں اس عظیم جرنیل کی عظمت کو سلام ضرور پیش کرتا ہوں۔

راجہ گوہر آمان نے پوری زندگی اپنی سر زمین کی حفاظت میں گزاری،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اس حقیقی ہیرو کو سلام پیش کرتے کریں کیونکہ زندہ قومیں اپنے اسلاف اور محسنوں کے کارنامے یاد رکھتیں ہیں

(حوالہ۔دردانہ شیر)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button