کالمز

ٹوپی شاٹہ کا دن اور کچھ حقائق

تحریر: امیر حیدر بگورو
ایم ایس سکالر :  سماجی لسانیات
ٹرہننگ کوآرڈینیٹر ایف ایل آئی  اسلام اباد

حال ہی میں گلگت بلتستان میں شایان شان طریقے سے  (کھوئی شانٹہ )  کا دن ہر سال کی طرح 25 جون منایا گیا ہے۔ یہ مقامی لوگوں کی شناخت   کو برقرار رکھنے کے لیے   حکومت گلگت بلتستان کا ایک نہایت احسن اقدام ہے ۔ ہمیں حکومت کے ان مثبت اقدامات کو سراہنا چاہئے۔    سوشل میڈیا میں بہت سارے دوستوں کو ٹوپی کا دن مناتے دیکھ کر  مختلف تصاویر میں دیکھنے کے اور بلعموم شینا بولنے والے احباب کے ایک وٹس اپ گروپ(شینا بیاک) جو شینا زبان کی ترویج کے لیے کام کرتا ہے۔ وہاں پر استاد غلام عباس نسیم  کا   ایک وائس پیغا م دیکھا جس میں اس دن کی نسبت اور شینا ثقافت میں ٹوپی کی اہمیت کے بارے میں گوش گزار تھے۔  اور فرما رہے تھے کہ  ہماری ثقافت میں ٹوپی کی اہمیت کیا ہے۔  بات سے بات نکلی  تو  اج لکھنے کا وقت ملا ۔ سو میں لکھ رہا ہوں  تاکہ ہماری  آنے والے نسل اور موجودہ نسل کو ٹوپی کی اہمیت کا پتا  چلے کہ شینا کلچر میں ٹوپی کتنی اہم ہے۔   میں سوشالوجی کا طالب علم تو نہیں تو نہیں ہوں لیکن تھوڑی  بہت لسانی انتھراپولوجی کو پڑھی ہے ۔ جس کی  رو  سے  ماہرین نے کلچر کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو مادی کلچر کہتے ہیں جبکہ دوسرے کو  غیرمادی کلچر کہتے ہیں ۔ مادی کلچر وہ ہوتا ہے جس کو دیکھ سکتے  اور چھو سکتے ہیں  جیسے  ٹوپی، شوکہ،  رہن سہن ، بدوباش  ناچ گانے ، ڈھول   دھمال یہ  سب مادی کلچر ہے جس کو انسان کی آنکھ دیکھ سکتی ہے  جس کو چھو سکتے ہیں جبکہ  ثقافت کی دوسری قسم جو غیر مرئی ہے جس کو انسان کی انکھ دیکھ نہیں سکتی ہے جس کو چھو نہیں سکتے ہیں  جس کا بل واستہ اور بلاواستہ تعلق ہمارے سماجی رویے  جیسے ، برتاؤ ،  اخلاقیات اور سماجی اقدار شامل ہیں۔  ہماری بدقستمی یہ رہی ہے ایک عرصے سے ہمارے لوگوں نے صرف مادی کلچر کو   ہی اپنا کلچر سمجھ رکھا ہے جبکہ  غیر مادی کلچر جو  اپنی  ہیت اور ساخت میں نہایت احسن  اور معاشرے کی انکھ کی حیثیت رکھتا ہے جس کو لوگوں نے یکسر بھلا دیا ہے ۔ یہ اینٹنیجل کلچر ہی  ہے  جو لوگوں کے  سماجی رویوں کا ائینہ دار ہوتا ہے۔  جہاں پر  مادی ثقافت کی اہمیت ہے وہاں پر  یہ غیر مادی ثقات میں بھی اپنی اندر ایک دنیا   سمائی ہوئی ہے۔  ہمیں مادی کلچر کی تشہیر کے ساتھ غیر مادی کلچر  کو بھی لوگوں کے سامنے لانا چاہیے ۔ تاکہ لوگ  کو ہماری ثقافت کے اس حسین پہلوں کا بھی علم ہو۔

 ٹوپی  کے بارے میں  تقریبا تمام زبانوں  اور ثقا فتوں میں بہت سارے محاورے ، میٹافرز اور ضربالمثال ملنگے ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس میں، فوج میں اور دوسرے سرکاری اداروں میں لوگ ٹوپی پہن کر ڈیوٹیاں دے  ہوتے ہیں  ہم نے کھبی یہ نہیں سوچا ہے کہ وہ لوگ ٹوپی کیوں پہن لیتے ہیں۔  اس مضمون کو پڑھنے کے بعد اپ اندازہ ہو جائے گا لوگ ٹوپیاں کیوں پہن لیتے ہیں ۔  ٹوپی کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھ اپنے دوست اور استاد محمد زمان ساگر کا ایک قصہ یاد آیا ۔ ائیں اپ کو بھی سنا تا ہوں۔ میرا دوست کہتا ہے جب وہ شروع شروع میں پشاور میں ایک ادارے میں کام کرتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک دوست جس کا تعلق انڈس کو ہستان سے ہے۔ دونوںایک ہی روم میں رہتے تھے۔ کہتا ہے ایک دن میں روم میں تھا اس کا کوہستان سے تعلق رکھنے والا ایک دوست  دوڈتا، ہانپتا کاپتا ہوا  کمرے کی طرف آ رہا ہے۔ اس کی سانس چڑی ہوئی ہے ۔ ساگر کہتا ہے میں ڈر گیا کہی کوئی بدماش اس کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔ جو ہی وہ دروازے کے اندر آ گیا  میں نے پوچھا کیا ہوا ہے خیریت تو ہے۔ تو کہتا ہے ہاں ۔خیریت ہے بس تھوڑا مسئلہ یہ ہوا ہے  کہ ٹوپی پہنے بغیر مارکیٹ تک گیا تھا وہاں جا کر دیکھا تو میرا بڑا بھائی مجھ سے ملنے ایا تھا اور میرے پاس سر میں ٹوپی نہیں تھی اس لیے دوڑ کے آ رہا ہوں تاکہ ٹوپی پہن  کر بڑے بھائی سے مل لوں ۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا ہے  کہ ٹوپی اور شانٹی کا دن   حکومتی لیول پر  شایان شان  طریقے  سے منایا گیا ۔ بہت سارے احباب کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے  کہ ٹوپی کے پیچھے چھپے اصل محرکات کیا ہے۔ یا اگر میں یوں کہوں کہ ٹوپی کی شینا کمیونٹی میں اہمیت کیا ہے۔  تو ائیں اس مضمون میں اپ کو ٹوپی کی اہمیت  کے ان تمام پہلوں کا ذکر کرو  جس سے ہمارے نئی نسل بلکل بھی واقف نہیں ہے۔  اس مضموں کے ذریعے  ہم ٹوپی کے  پیچھے  چھپے ہوئے ان تمام  سماجی رویوں کو سامنے لے آئیں۔ اور ان کو اس دستاویزی شکل میں اپنی اگلے آنے والے نسل کے  محفوظ کرینگے ۔ ایک بات کا خصوصی طور پر یہاں پر ذکر کرنا نہایت اہم ہے۔  گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر  6 زبانیں  بولی جاتی ہیں  اور ہر زبان والوں میں قوی امکان ہے کہ ٹوپی کے پیچھے  یہ عوامل الگ الگ ہو۔ لیکن یہاں پر میں خاص طور پر شینا زبان بولنے والے لوگوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔  جن کی وسعت گارگل لداخ سے شین بر نگر ، حراموش، بگروٹ تا داریل چلاس اور بونیال  تک کم و بیش تمام لوگوں   کی ٹوپی کے پیچھے چھپے عوامل عام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ تو ناظرین ائیں دیکھتے ہیں ٹوپی  کا ہمارے کلچر کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اگر ہم اپنے شین کلچر کی طرف دیکھ لیں تو   ٹوپی کو پہنے  سے لیکر ٹوپی کو اُتانے جیسے مختلف  ضرب  المثال ، کہاوتیں، میٹافرز ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ شین کلچر میں ٹوپی کی کتنی اہمیت ہے۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں گلگت بلتستان میں شینا بولنے  والے  لوگ کسی شخص کی سر پر پہنے ٹوپی سے سمجھ جاتے تھے کہ آیا یہ شخص کسی کا غلام ،  ہے آزاد ہے، کس قبیلہ سے ہے، اس کی مالی  حیثیت کیا ہے، اس کا سماجی رتبہ کیا ہے، کیا وہ معتبر ہے، کسی قبیلے کا سردار ہے، کہیں  پر فیصلہ کرنے والا (استکال) ہے،   کہیں مانگنے والا ہے،  کوئی ضرورت مند ہے،  کسی مصیبت میں پھنسا ہوا سوال گر ہے ،  الغرض ٹوپی  اور اس  کے پہننے کے مختلف  طریقوں  پہچان لیتے تھے۔  شیینا بیاک میں موجود غلام رضا  ولایتی  آف سکردو کہتا ہے   کہ ٹوپی  ہمارے کلچر کا نہایت اہم جز تھا  وہ ایک شینا ضرب المثل دے کر کہتا ہے ( ً مئی کھوئی ٹیری ہن ) یعنی میری ٹوپی ٹیڑی ہے اس ضرب المثل کو وہ یوں بیان کرتے ہیں۔  شینا میں اس ضرب المثل کا مطلب ہے کہ میں ایک آزادشخص ہوں ۔ مجھ کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔  ایک اور جگہ پر ولایتی بھائی فرماتے ہیں (کھوئی  نہ بنی جیک جرو بلنو ) کیا یتیم ہو گئے ہو ٹوپی نہیں پہنتے ہو۔  اس کا صاف مطلب یہی تھا ٹوپی نہیں پہننے  کو بے سر پرست ہونے کی علامت تھی ۔  شینا بیاک میں موجود ایک اور ممبر ایکٹویسٹ انجینئر شجاعت بھائی فرماتے ہیں کہ شیینا کلچر میں  ٹوپی کی بڑی صفات ہیں  اگر شینا کلچر میں ٹوپی کو تبدیل کیا جائے تو بھائی تو الگ لوگ بھائی بن جاتے ہیں تو تمام خوشی غم کے موقعے میں  سگے بھائیوں کی طرح ساتھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فرماتے ہیں۔اگر کوئی شینا ثقافت کے لوگ اپنی ٹوپی اپنے دشمن کے پاؤں میں رکھتے تھے تو ان کے خاندان کی  برسوں پرانی دشمنی کو معاف کیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی شجاعت بھائی فرماتے ہیں شینا کلچر میں تین قسم کی ٹوپیاں کی پہنی جاتی تھی۔ سفید، براون اور کالی ٹوپی  ان سب ٹوپیوں کی اپنی ایک اہمیت تھی۔ رندو سے تعلق رکھنے سماجی کارکن اور کاروباری شخص حاجی ذرمست خان بھائی فرماتے ہیں۔  ٹوپی پہننے والے طریقے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کس قبیلہ کا  ممبر ہے۔ ایک اور شینا بیاک  کا ممبر  عبدل حسن بھائی جو شین بر نگر سے ہیں شینا ثقافت میں ٹوپی کی اہمیت  اس طرح بیان کرتے ہیں۔ شین بی نگر میں ٹوپی کو پاؤں رکھنا نہایت اعاجزی کے ساتھ معاف مانگنے کے لیے استعمال  کیا جاتا ہے۔  دوسر ا اگر کوئی شخص ٹوپی ہاتھ میں اُ ٹھا لے تو اس سے بددعا دینا سمجھا جاتا تھا۔اگر کوئی بندہ ٹوپی ٹیڑی کر کے پہنتا ہے تو  اس سے مشن میں کامیابی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اگر ٹوپی ماتھے کے اوپر رکھ کر بیٹھا  ہے تو  اس کا مطلب بہت لگن اور محنت سے کام کرنے والے شخص کی علامت سمجھی جاتی تھی۔  اگر کوئی  شخص اپنی ٹوپی کو اگے کرے تو اس مطلب تھا بندہ  غریب ہے اس کی مدد کی ضرورت ہے۔ موصوف مذید فرماتے ہیں ٹوپی کو رول کے (کھوئی پھراٹ )باہر نکالنے کا مطلب کسی کو دھمکی دینے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ٹوپی کا سلائی والا جوڈ یہ حصہ اگے  کی طرف کرنے کا مطلب  کسی  کے ساتھ لڑائی کرنا یعنی غصہ کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔آخر میں فرماتے ہیں ٹوپی کو عام جگہ سے نیچے کر کے پہنا شریف النفس شخص کی علامت سمجھی جاتی تھی۔  گلگت شہر سے تعلق رکھنے والے بیاک کا ممبر مظہر بھائی ٹوپی کی اہمیت  ثقافتی اقدار میں کچھ یوں بیان کر رہے ہیں۔ اگر کوئی والد اپنی اولاد کو آک کرنا چاہتا  تو  اس کو  شینا میں (کھوئی ٹم کہتے تھے) جب ایک دفعہ والد کھوئی  ٹم کرتا  تھا تو اس کے بچہ اور اس کا رشتہ وغیرہ ختم ہو جاتا تھا ۔ دوسرا ٹوپی درمیان میں  رکھنے سے دو خاندانوں کی اپس کی دشمنی ختم ہو جاتی تھی۔  تیسرا اگر کوئی شخص اپنے سر کی ٹوپی کسی کے سر میں رکھ دیتا تھا تو وہ شخص اس کا رضائی بھائی بن جاتا تھا۔ ہمارے کلچر میں کسی کے بھی سر میں ٹوپی  رکھنے سے اس کی زمداریاں بن جاتی تھی۔ کوئی بھی شخص بغیر سوچے سمجھے اپنی ٹوپی کسی کے بھی سر پر نہیں رکھتا تھا۔  بیان کی ایک اور ممبر محمد شفیع ساغر دراز انڈیا سے فرماتے ہیں  گارگل میں کالی ٹوپی پہننے کا مطلب شادی شدہ عورت سمجھی جاتی ہے  جبکہ غیر شادی شدہ کے  سفید ٹوپی کا استعمال کیا جاتا ہے  دوسر ا ہمارے پاس  محاورہ ہے ٹوپی کو کھولا رکھنے کا اس محاورے کا مطلب بندہ امیر ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے حراموش سے  تعلق رکھنے شاکری بھائی فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں ہی ہمارے ایرا ء میں ٹوپی بہنے بغیر باہر نکلنے کو برا سمجھا جاتا تھا۔ موصوف کا خود تعلق بگروٹ سے ہے۔ بگروٹ  میں بھی ٹوپی سے متعلق بہت سارے محاورے  اور اس کی اہمیت  ہے۔ باقی تمام پہلو ں اوپر جو بیان کیا گیا ہے وہی ہیں تاہم ایک بات کا ذکر کرنا یہاں ضروری ہے۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں سر میں پہنی ہوئی ٹوپی کو  مذاق میں اتارنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا  تھا۔ اگر کوئی شخص مذاق مین اتار لیں تو  اس سے توہین سمجھی جاتی تھی یوں یہ معملہ دنگا فساد تک پہنچ جاتا تھا۔  دوسرے ٹوپی نہیں پہنے کو غریب ہونے  کا طعنہ دیا جاتا تھا۔

پس مندرجہ بالا تمام باتوں کا نچوڑ  یہ بنتا ہے کہ  شینا ثقافت  میں جب کسی کو ٹوپی پہنائی جاتی ہے  تو اس کو عزت اور تکریم دی جاتی ہے۔ اس شخص کو اپنے ہی گھر کا ایک فرد تصور کیا جاتا ہے۔   وہ شخص رضاعی بھائی بن جاتا ہے ۔اس شخص پر زمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے بدقستمی تو دیکھو آج کل یہی ثقافتی ٹوپی پنجاب /وفاق سے ائے ہوئے ہر ایرے گیرے  خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کو  بغیر اس ٹوپی کی اہمیت جانے دھڑلے سے پہنایا جاتا ہے۔   میری ان تمام احباب اور حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس ٹوپی پہناتے ہوئے کم از اس ٹوپی کی ہمارے ثقات میں اہمیت کے بارے میں بتایا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button