کالمز

پولو چھش، چھش اور ہم۔۔۔

پچھلے کئی عشروں سے گلگت بلتستان کی پولو ٹیم اپنی روائیتی حریف یعنی چترال ٹیم سے مسلسل ہارتی ہوئی ائی ہے۔ٹیم کی شکست کے درپردہ کچھ بھی محرکات  ہو سکتے ہیں جن کی نشان دہی کرنا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی اولین زمہ داریوں میں شامل ہونے چائیے۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ حکومت نے کھبی اس کو سنجيده نہیں لی۔نہ ان کمی بیشیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔کھلاڑی سست ہیں ،گھوڑے سست ہیں ،بجٹ کم ہے،پریکٹس نہیں ہے،آخر کچھ تو وجہ ہے جس کی وجہ سے ہماری ٹیم مسلسل ہارتی ہوئی ائی ہے۔ایک طرف شندور میلے کی مد میں گلگت بلتستان کے خزانے سے خطیر رقم خرچ ہو رہی ہے اور دوسری طرف ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے گلگت بلتستان کے عوام کو ذہنی  بٹوارا  کر کے رکھ دیا ہے۔کھیل سے قبل اور دروان کھیل عوام بھی کبھی جیت کا نہیں سوچتے وہ نفسیاتی دباؤ میں ہار کی  مالا بنا کر پہلے ہی گلے میں ڈال لیتے ہیں۔اس شکست نے گلگت بلتستان کو کئی محازوں پر پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے ۔دور ہی ایسا ایا ہے کھیل ہی کھیل میں سیاسی مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں ۔کے پی کے والوں نے اس شکست کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمیں سیاسی محازوں پر براہ راست چیلنج کیا ہے ۔گلگت بلتستان کی بین الاقوامی متنازعہ حیثیت کو ملحوظ خاطر میں نہ لاتے ہوئے شندور پر غیر قانونی قبضہ کئے ہوئے ہیں ۔اور مسلسل ہمارے  حدود میں درندازی کرتے ہوئے ایک طرف قرمبر جھیل تک پہنچ گئے ہیں اور دوسری طرف ہندرپ نالے سے لے کر بسری تک کے علاقوں پر غیر قانونی قبضے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس غیر قانونی  قبضے کے خلاف اب تک کوئی موثر حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کے دیگر اکائیوں کے ریاستی باشندوں نے اس سارے عمل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہیں۔

حالیہ دنوں معروف قوم پرست رہنما شفقت انقلابی نے ریاست جموں کشمیر کے آزادی پسندوں کے نام ایک خط میں اہم انکشافات کیے تھے،اور اس خط کو عالمی فورمز پر اچھی خاصی پزیرائی ملی تھی۔اور غالب امکان ہے کہ اس کی  بازگشت اقوام متحده کے ایوانوں میں بھی سنائی دی ہے۔اس خط کے منظر عام پر انے کے کچھ ہی دنوں بعد ہندرپ کا واقعہ پیش ایا۔بلتستان سے لے کر پھنڈر تک احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ان مظاہروں میں جناب نواز خان ناجی نے اہم باتیں کئیں۔لیکن کچھ لوگوں نے ناجی صاحب کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اِن احتجاجی مظاہروں کو کسی اور ڈگر پر ڈالنے کی نا کام کوشش کی گئی۔اور تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ ناجی عوام کو تعلیم دشمنی کی طرف لے جا رہے ہیں ،اور علاقے میں انتشار پھیلانا چاہیتے ہیں ۔لیکن ناجی صاحب کی بتائی ہوئی باتیں دور حاضر میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات کی عکاس تھیں ۔اور تقاضوں کے عین مطابق تھیں۔
آرام طلبی اور عیاشی کے دلدل میں ہم پھنستے جا رہے ہیں۔اور اس سے باہر نکلنے کی بظاہر کوئی صورت تو نظر نہیں ا رہی۔
ناچ گانے (چھش چھش) کے دلداده ہوچکے ہیں ،اس میں  مرد حضرات ہی نہیں خواتین بھی شامل ہیں ،یہی نہیں بلکہ خواتین ناچ گانے میں مردوں سے   بھی  سبقت لے چکیں ہیں۔
ماضی میں ہماری سماج میں عورت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے ۔معاشرے کی لوک کہانیاں عورت کی زات کے گرد گھومتی ہیں اور عورت کی بہادری ،دانشمندی کی لازوال مثالیں ان قصے کہانیوں میں موجود ہیں۔اجتماعی فیصلوں میں عورت کی رائے شامل ہوتی تھی ،دوران جنگ یا حالت امن میں عورت کو مجلس مشاورت میں شامل کی جاتی تھی۔  ماضی میں ہماری سماج میں عورت کو نچانے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔یہی وجہ تھی کہ ہمارا ماضی بہادری کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن آج  عصبیت ختم  ہو چکی  ہے،ہمارے مفادات کچلے جا رہے ہیں ،ہم علاقائیت ،مسلک زبان اور قبیلوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں بعض عناصر جو  بیرونی ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں، ہماری عورت کی عزت کو سرے بازار نیلام کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔غیرت ختم ہو  گئ ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی یہاں سے لڑکیاں تو کبھی لڑکے اغواء ہو رہے ہیں۔زیادہ دور نہیں جاؤں گا ایک صدی پیچھے جائیں یہی غذر والے تھے جن کی گھوڑوں کی ٹاپ سے زمین لرزه ہوتی تھی ،ان کی دہشت چار سو پھیلی ہوئی تھی۔اور آج یہی قوم اپنی بقا کے لئے بیکاری بن چکی ہے۔ نواز خان ناجی نے ٹھیک کہا تھا کہ کوہستان اور افغانستان کے ہمسائیگی میں سوئزلینڈ نہیں بن سکتا ۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، یہاں ناچ کر اپنی وجود کو بچا کے رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے،یہ وہی  معاشرہ ہے یہاں خون دینا اور لینا پڑتا ہے ،اس معاشرے میں اپنی بقا کو بچانے کے لئے شدت پسند ہی ہونا پڑتا ہے ۔کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے ۔
یہ خاموش مزاجی تجھے جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو
ریاست کی خاموش پالیسی کا ہمیں علم تو نہیں ہے لیکن غذر کے نہتے عوام کو ہراساں کر کے ان کے نالا جات پر قبضے کی پالیسی کئی اہم سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button