کالمز

 بد عنوانی یا کرپشن

عام طور پر لفظ بدعنوان ہر اس شخص کو کہاجاتاہے جواپنے حدود سے آگے بڑھے اور دوسروں کے حقوق کی پامالی کرے، دوسروں کے کا م میں دست درازی کرے،کسی کے کام میں خلل پیدا کرے،دوسروں کوتنگ کرے، اور ناجائز طریقے سے غیر قانونی دولت کمائے اور غیر اخلاقی کام کرے،چاہے وہ حکومتی کسی عہدے پر ہو، فوج میں ہو، سیاست دان  ہو،دوکاندار ہو، زمیندار یاکسان ہو،صحافی یا تجزیہ نگار ہو، ہمسایا ہو یا رشتہ دارہو، ایک جج ہو یا وکیل،عالم ہو یا معلم، استاد ہو یا شاگرد، وزیر عظم ہو یا عوام الناس، صفائی والا ہو یا مالکن، نوکر ہویا مالک، چوکیدار ہو یا ڈپٹی کمیشنر،یعنی معاشرے کی کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص بھی بد عنوان ہو سکتا ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے پاکستانی معاشرے میں جب سے سیاست دانوں کی بدعنوانی نے شہرت پکڑا تو ہر شخص سیاست دانوں کے پیچھے لگا ہے لیکن سیاست دان کو جو بد عنوان ہے تو اس کو ووٹ دے کر ایوان تک لانے والے کو بدعنوان کیوں نہیں کہا جاتا یعنی پہلی مرتبہ کسی سیاست دان کو اگر ووٹ دیا جائے اور اگر اس نے ووٹر کی توقعات کو پوری نہیں کیا اور ملک اور قوم کی صیح خدمت نہیں کی  تو دوسری مرتبہ اگر اسی سیاست دان کو ووٹ دیاجاتا ہے تو کیا ووٹ دینے والے بد عنوانی کے مرتکب نہیں ہوے کیوں کہ انھوں نے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا ہے جس نے بد عنوانی کیا چہ جائکہ پاکستان میں لوگوں نے ایسے اشخاص کو تیس تیس سالوں تک اپنے اوپر مصلت رکھا ہے اور پھر قانون نے سزا دیا ہو تا ہے اور پھر بھی ایسے لوگوں کو اپنا لیڈر مانتے نہیں تھکتے کیا ایسے لوگ بدعنوانی سے مبرا ہیں۔

اگر کوئی پٹواری عوام کا کام نہیں کرتا تو کیا یہ کرپشن نہیں اور اگر کرتا ہے تو رشوت لیتا ہے تو کیا یہ کرپشن نہیں،ایک سکول ماسٹرایک طالبعلم کی صیح  تربیت نہیں کرتا اور اگر اس کو اپنے مضامین جو پڑھا تا ہے ان میں مہارت حاصل نہیں تو کیا یہ کرپشن یا بد عنوانی نہیں،ایک جاڈو  دینے والا صحیح طریقے سے صفائی نہیں کرتا اور وقت کو  ٹالتاہے اور صرف دکھاوے کی حاضری کرتا  ہے اور دل لگا کر محنت سے درس نہیں دیتا توکیا یہ بدعنوانی نہیں،، اب آپ دیکھئے دکانداروں کوخواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتا ہو انھوں نے ہر جگہ فٹ پاتھ پر سامان رکھ کر پیدال چلنے والوں کی حقوق کی پامالی کیا ہوتا ہے اور لوگ چلنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں بلکہ انتہائی پریشانی ہوتی ہے جگہ کم پڑتا ہے دھکم پیل ہوتی ہے، عورتوں کو تو نہایت ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہر وقت جیب پر ہاتھ رکھنا پڑتا ہے کہ اس دھکم دھکہ میں جیب ہی کوئی خالی نہ کر دے تو کیا یہ بد عنوانی نہیں،اس پر طرہ یہ کہ یہ دکاندار اپنی کاروبار کو رجسٹر نہیں کرنا چاہتے کہ آمدنی زیادہ  دکھائی دے گا تو ٹیکس زیادہ دینا پڑے گا،جب کہ دنیا کی سارے ترقی یافتہ ممالک میں تیس سے چالیس فی صد ٹیکس لوگ خاص کر کاروباری طبقہ دیتا ہے اور ادھر  ہمارے ملک میں ٹیکس دینے کو کوئی تیار نہیں کیا یہ کرپشن نہیں،کیاپاکستان میں تنخوا ہ دار طبقہ اور کمیشن ایجنٹ ہی ٹیکس دینے کے لئے پیدا ہوا ہے یہ بے چارے تو ان ڈائرکٹ ٹیکس بھی دیتے ہیں صرف ایک لائف  بوائے صابن پر بھی شائد ڈھائی روپیہ ٹیکس دیتے ہیں تو یہ دکاندار،ٹیکس کیوں نہیں دیتے اور ہڑتالیں کرتے ہیں، اور اس ان ڈائرکٹ ٹکس میں تو بے چارہ غریب مزدور بھی پیساجاتاہے ، سڑکوں پر گاڑی والوں نے بدعنوانی کی انتہا کیا ہو تا ہے وہ غلط پارکنگ کر کے خود کھسک جاتے ہیں اور ان کے آنے تک ٹریفک جام ہوتا ہے کیا یہ کرپشن یا بدعنوانی نہیں۔چوراہوں میں ٹریفک جام ہے اور ٹریفک پولیس غائب ہو تاہے کیا یہ بدعنوانی نہیں، اور اگر موجود ہے تو اپنا فرض اد ا نہیں کر رہا تو کیا یہ بدعنوانی نہیں یا غلط ڈرایؤنگ کرنے پر ڈرایؤر کے ساتھ قانونی کاروائی کرنے کی بجائے  رشوت لیتا ہے تو کیا بد عنوانی نہیں اور کیا وہ چالان کٹانے کی بجائے رشوت دے کر جان چھڑانے والا ڈرائیور یا شہری بد عنوان نہیں۔ شہر میں چوریاں ہوتی ہیں آئے دن وارداتیں ہوتی ہیں اور پولیس اپنا کام نہیں کرتا  یا رپورٹ کر نے والے سے رشوت مانگتا ہے یا چور سے رشوت لے کر اسے چھوڑتا ہے  یا رپورٹ درج نہیں کرتا  اور رشوت  مانگتا ہے، تو کیا  یہ کرپشن نہیں۔ایک جج اور وکیل برسوں تک ایک کیس کا فیصلہ نہیں کرتے اور کئی فیصلے تو ملزم کے جیل میں مرنے کے بعد اس کے حق میں کئے گئے، انسان کی عمر کیس کے فیصلے تک کم پڑتی ہے، کیا یہ کرپشن کے ذمرے میں نہیں آتا،  ایک عدالت سزا دیتی  ہے دوسیری  اسے بری کرتی، کیا سرکاری افیسرز یا ایم این اے یا ایم پی اے سرکری گاڑی کو اپنے ذاتی نجی کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کیایہ کرپشن نہیں، کیاایک عالم  اپنے علم کا  نا جائز فائدہ اُٹھاتا ہے جیسے مسلکی تفرقہ بازی  اور مذہب کو آڑ بناکر ہڑتالیں وغیرہ کرانا یا اپنے مخالفین کے خلاف اس علم کو استعمال کرنا کیا یہ بد عنوانی نہیں، ایک رکشہ ڈرایؤر یا ٹیکسی ڈرایؤر سواری کی نا واقفیت کا غلط فائدہ نہیں اُٹھاتا اور اس سے دو گنا زیا دہ کرایہ مانگنا کرپشن نہیں،پاکستان میں عام طور پر افیسرز دفتر کے مالی چوکیدار یاچپڑاسی کو اپنے گھر کے کاموں کے لئے استعما ل کرتے ہیں سرکاری ڈرائیور کو اپنی ذاتی گاڑی یعنی اپنی بیوی بچوں کے گاڑیوں کو چلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیایہ کرپشن نہیں،  صحافی بڑے بلند بانگ دعویٰ کرتے  ہیں کہ میں صحافت کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں لیکن وہ لوگوں سے پیسہ لے کر دوسروں کی عزت کی دھجیاں اُڑانے میں فخر محسوس کرتے ہیں یہاں تک کے اپنے ملک کے خلاف کام کرتے  ہیں باتیں کرتے ہیں دشمن ملک کے حق میں کا م کر کے فخر محسوس کرتے ہیں چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا ملک میں انارکی پیدا کر کے حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں حکومتوں کو گرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر وہ حکومت  ان کی بات نہ مانے تو کیا کیاہتھکنڈے حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہیں ،حکمرانوں سے لے کر بیو روکریٹ تک سب سے  نا جائز فائدہ اُٹھاتے ہیں، کیا یہ سب کچھ بد عنوانی نہیں،جیسے آج کل سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے یہ سب کچھ اسی زمرے میں آتا ہے۔اگر ایک ہمسایابھی اپنا فرض ادا نہیں کرتا  اور ہمسایوں کوتنگ کرتا ہے یا ایک ر شتہ دار اپنے کسی رشتہ دار کی کسی کمزوری سے غلط فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب ہی تو کرپشن ہے۔ا لغرض کوئی بھی انسان اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے یا ہر وہ کام جو وہ کرتا ہو وہ د یا نت داری،سچائی، اور ایمانداری سے نہ کرتا ہو بد عنوانی ہے، لیکن ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے۔ چھوٹے بچوں یا بچیوں کو گھروں میں نوکر  رکھ کر ان پر تشدد کیا جاتا ہے،  ہوٹلوں میں خودطرح طرح کے کھانوں کا دستر خوان سجا کر ان معصوموں کو پیچھے کھڑا کیاجاتا ہے،اور بہت سی ایسی حادثات ہوے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کرکے مارکر گندے نالیوں میں پھینک دئیے گئے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

آخر کب یہ قوم سدھر جائے گی کب عقل آئے گی،ایک بندے نے ایک بات شیر کیا تھا کہ کسی جاپانی نے کسی مسلمان سے پوچھا کہ رمضان کے مہینے میں آپ لوگ ایسا کیا کام کرتے ہیں کہ بڑا چر چا کرتے ہیں کہ روزہ  ہے روزہ  ہے کہتے پھرتے ہو تو مسلمان نے جواب دیا کہ اس ماہ میں ہم جھوٹ نہیں بولتے،کسی کا حق نہیں کھاتے، کسی کو دھوکہ نہیں دیتے، ایمانداری سے کام کرتے ہیں تو وہ جاپانی  پریشان ہو کر کہتا ہے یہ تو ہم روزانہ کرتے ہیں کیا آپ سال میں صرف ایک  ماہ یہ کام کرتے  ہیں، تو دوستو دوسروں کا کرپشن نظر آجا تا ہے لیکن اپنا کسی کو نظر نہیں آتا۔ القصہ ان تما م کا ذمہ دار حکومت پر ہے اگر حکمران ایماندار، دیانت دار، ملک اور قوم کا خیر خواہ ہو گا تو ملک سے یہ ساری بد عنوانیا ں ختم ہونگی کیوں کہ جس کی بھی حکومت ہوتی ہے اس کی سب سے بڑی کرپشن ججوں کی تعیناتی سے شروع ہوتی ہے اگر جج سیاسی بنیاد پر اپنے من پسند لوگوں کی بجائے صحیح اور ایماندار اور دیانت دارجج میرٹ کی بنیاد پر مقررکئے جائیں تو ملک میں انصاف کی بالا دستی ہوگی اور اگر انصاف کی بالا دستی ہوگی اور جج فیصلہ خدا خوفی اور میرٹ کی بنیاد پرکرے گا تو حق دار کو اس کا حق ملے گا اور ہر چور اچکا ڈر اور خوف  سے ہی صحیح ٹھیک کام کرے گا اور اسی طرح اگر قانون کی بالادسی ہوگی تویہ ساری برائیاں خود بخود ہی ختم ہوگی۔  تو آئے اپنا احتساب کریں کہ کہیں ہم خود بھی سیاست دانوں کی طرح بد عنوان تو نہیں اور اگر ہم سب ایمانداری کے ساتھ اپنا احتساب کریں گے تو ملک سے بدعنوانی خود بخود ختم ہوگا  اور آئیں ہم سب کر ملک سے اس بدعنوانی کو ختم کرنے میں ملک اور حکومت کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو  توفیق دے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button