کالمز

گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرو

تحریر: مقصد مراد شادم خیل

تاریخ کی حفاظت اور بقا کسی بھی قوم کی وجود کے لئے اشد ضروری ہے لیکن  خدا نہ کرے اگر اس قوم کی  تاریخ پر حملہ کیا جاتا ہے اور نئی نسل کو اس کی تاریخ سے دور کیا جاتا ہے تو پھر اس قوم کو شکست دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے آج ہمارا سارگن گلگت بلتستان کی تاریخ  میں بھی اس قدر الجھنیں ڈال دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں ۔ مملکت خدا داد پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے کے بعد ایک طرف گلگت بلتستان کے غیو و بہادر عوام وطن عزیز کی دفاع میں اؤل داستے کا حصہ رہے تو دوسری طرف زولفقار علی بھٹو جیسے سیاسی اور کرپٹ حکمرانوں نے گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ رول ہٹا کے نہ صرف گلگت بلتستان کی خود مختاری پہ حملہ کیا  بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش اور بد نیتی کے ساتھ گلگت بلتستان کو ایک نئی غلامی کی طرف دھکیل دیا۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے1948 میں اپنی مدد آپ کے تحت  ڈوگروں سے آزادی حاصل کی اور خود پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو دوسری  طرف ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی ہی نہیں ہیں۔ ہاں یہ بات تو درست ہے کہ گلگت بلتستان کے غیور عوام نے خود یہ علاقہ ڈوگروں سے آزاد کروایا لیکن جب الحاق کا معاملہ آتا ہے تو یہ الحاقی معاہدے کراچی میں طے ہوتے ہیں جس میں گلگت بلتستان کا کوئی فرزند موجود نہیں ہوتا اور تاریخ میں اس معاہدے کو  معاہدہ کراچی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قارائن کرام میری اس تحریر کا ہر گز یہ مقصد یہ نہیں ہے کہ الحاق کا فیصلہ درست نہیں تھا بلکہ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آیا جب ایک معاہدہ  دو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے تو اس میں دونوں فریقین کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہیں۔ دونوں طرف سے شرائط و ضوابط لاگو ہوتے ہیں لیکن  پس پردہ بغیر کسی شرائط  کے گلگت بلتستان کی مسقبل کا سودا کیا گیا جو کہ قابل مذمت ہے۔

ان تمام معاملات کو سمجھنے کے لئے ہم گلگت بلتستان کا مختصر تایخی جائزہ لینگے  تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ 1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو گلگت بلتستان کا یہ خطہ کشمیر کے زیر نگرانی میں تھا اس سے پہلے یہ خطہ چھوٹی چھوٹی  ریاستوں میں منقسم رہا جن میں اسکردو اور گلگت علاقے کے انتظامی مراکز رہے ہیں جن پر مختلف وراثتی بادشاہتیں قائم رہی ہیں۔

قارئین کرام ساتویں صدی سے لے کر اکیسویں صدی تک گلگت بلتستان پر مختلف خاندانوں کی حکومت رہی ہے جن میں گلگت کے تراخان، ہنزہ کے عیاشو، غذر کے بروشے، نگر کے مغلوٹ، یاسین کے خوش وقت، اسکردو کے مقپون، شگر کے انچن اور خپلو کے  یبگو خاندان قابل زکر ہیں۔ داریل اور تانگیر میں قابائیلی نظام تھا۔ 1890 میں  ڈوگروں نے ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز برصغیر کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ 1935 میں انگریزوں نے یہ علاقہ  ریاست جموں و کشمیر سے ساٹھ سال کے لئے لیز پر لیا اور اس علاقے کو گلگت ایجنسی کے نام سے انتظامی اکائی قرار دیا۔ لیکن جب برطانیہ کی حکومت نے تقسیم ہند کا اعلان کیا تو یہ معاہدہ کالعدم قرار دیا گیا اور یوں ایک بار پھر یہ علاقہ مہاراجہ جموں و کشمیر کے ہاتھوں میں گیا۔ 1948 کو گلگت بلتستان کے باسیوں نے مہاراجہ کشمیر کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور یوں مہاراجہ کشمیر کے نمائندے برگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے آزاد ریاست گلگت بلتستان کا اعلان کیا اور راجہ شاہ رائیس خان کو ریاست گلگت بلتستان کا  سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد اکابرین گلگت بلتستان نے مملکت خداد داد پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر  17 دنوں تک باہمی مشاورت کے  بعد وہاں سے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو خطوط ارسال کیے گئے اور اپنی  خواہش کا اظہار کیا تو سردار عالم خان بطور پولیٹیکل ایجنٹ گلگت پہنچا اور 13 دسمبر 1948 کو ریاست گلگت بلتستان کے انتظامات سنبھال  لیے۔ اس  الحاق کے بعد  خطے میں کالا قانون  FCR فرینٹئر کرائم  ریگولیشن کا نفاظ کیا گیا جس کی رو سے تمام انتظامی و عدالتی اختیارات سردار عالم خان کو دیئے گئے۔ اور اس جناب کے فیصلے کے خلاف نہ تو کہی اپیل کرنے کی گنجائش موجود تھی اور نہ ہی اپیل کرنے کا حق  دیا گیا تھا  اس کے فیصلے کے آگے سر جھکا کر تسلیم کرنا ہی تھا۔ اس کے ٹھیک ایک سال کے بعد پاکستان اور کشمیر  حکومت کے درمیان کراچی میں ایک معاہدہ طے ہوتا ہے جس  کے تحت گلگت بلتستان کے  انتظام  و  انصرام وزارت امور کشمیر کو منتقل کر دیے گئے اور  نظم و نسق کا قلمدان حکومت پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کو سونپ دیا گیا۔ اس تمام تر صورت حال سے گلگت بلتستان کے باسیوں کو اندھیرے میں ریکھا گیا۔

جس طرح 28 اپریل  1949 کو گلگت بلتستان کی مسقبل کا سودا سردار ابراہیم، چودھری غلام عباس اور رکن  سندھ اسمبلی مشتاق گورمانی کے ہاتھوں کراچی میں ہوا اس سے گلگت بلتستان کے باسیوں کے لئے  ایک نئی غلامی کی زندگی کا آغاز ہوا یہی نہیں پاکستان کے سابق وزیر اعظم زولفقار علی بھٹو نے جو ظلم و زیادتی گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اسٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے  کی  اس سے  تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان اگلے چند سالوں میں مکمل طور پر اپنی جغرافیائی پہچان کھو بھٹیے گی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے اور قانونی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ نہیں بن سکتا جس کی تردید وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آزاد کشمیر،  مظفر آباد میں اپنی تفریر میں بھی کی۔

لہذا، گلگت بلتستان کے عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ خطے میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول دوبارہ بحال کیا جائے کیونکہ یہی ایک متنازعہ خطے کی اصل پہچان ہے اور پاکستانی حکمرانوں کو سوچنا چاہیے جو قانون انہوں  نے 1970 میں گلگت بلتستان سے ختم کیا تھا  وہ اگست  2019 کو جموں و کشمیر سے بھی ختم ہوا ہے اس پر ان کو قانونی دلائل دینا اچھا نہیں لگتا کیونکہ راہیں آپ ہی نے ہموار کی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کے لوگ اس حق کی حصول کے لئے متحد نہیں ہونگے تب تک یہ حق ہر گز نہیں ملے گا۔ دشمن  جب بھی وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو گلگت بلتستان کا بچہ بچہ مملکت خدا داد پاکستان کی دفاع کے لئے پیش پیش رہے گا۔  آخر میں اس مطالبے کے ساتھ میں اپنی تحریر کو سمیٹ لونگا خدا کے لئے گلگت بلتستان کے اسکولوں میں نئی نسل کو ان کی تاریخ پڑھائی جائے تاکہ وہ اس کو سمجھ سکے اور حق کے لیے آواز بلند کرے۔

خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button