کالمز

ساٸیکل آف واٸیلینس

تحریر:اسرارالدین اسرار

اس ظالم ،بدمعاش، زانی، چور، ڈاکو، قاتل، سفاک، مجرم، لوٹیرا اور خبیث کو سرعام پھانسی دو، ان کا سر کاٹو، ان کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردو، ان کو دریا برد کردو، ان کو آگ میں پھینک دو، ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر مار دو، ان کے سر پر ڈنڈے برسادو ، ان کو سرے عام گولی ماردو، ان کے ہاتھ پاوں توڑ دو، ان کو جہنم واصل کردو، ان کو زندہ دفن کردو، ان کی گردن اڑا دو وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ ردعمل ہوتا ہے جو کسی بھی قتل، ریپ، گھریلو تشدد اور دیگر ظلم و زیادتی کے واقعے کے رونما ہونے کے فورا بعد عام اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے سامنے آتا ہے۔ ایسا ردعمل دینے میں سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والے کارکن اکثر پیش پیش ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوٸی فرد درمیانہ اور معتدل رویہ اپناتے ہوۓ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرے کہ مجرموں کو قانون کے کھٹرے میں کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دی جاۓ تو اس کو بزدلی پر مبنی موقف کہا جاتا ہے۔ انسانی حقوق پر کام کرنے والے لوگوں سے بھی اکثر لوگ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ بھی تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت اور تشدد پر مبنی موقف اپناٸیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو گویا وہ اپنا فرض نہیں نبھاتے ہیں۔ یعنی ہر انسانیت سوز واقعے کے بعد جو عمعومی ردعمل سامنے آتا ہے اس میں تشدد کے بدلے تشدد کا عنصر لازمی شامل ہوتا ہے۔ تشدد کے خلاف پرتشدد ردعمل دراصل ہماری تشدد پسند اجتعماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

تشدد کے بدلے میں تشدد کو فرغ دینے کی خواہش کے اظہار کو تشدد کی زنجیر یعنی ”چین یا ساٸیکل آف واٸیلینس“ کہا جا تا ہے۔

تشدد پسندانہ سوچ کے بار بار اور ہر طبقہ فکر کی طرف سے اظہار کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ تشدد ، جرم ، نا انصافی، زیادتی اور قتل و غارتگری کے واقعات سے نفرت کم اور ان جراٸم میں ملوث انسانوں سے نفرت زیادہ کرتا ہے۔ جرم اور مجرم سے نفرت میں فرق ہے ۔ اس فرق کا ادارک نہیں ہونے کی وجہ سے ہم جرم کے ساتھ ساتھ مجرم کا خاتمہ بھی ضرروی سمجھتے ہیں۔ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا تقاضا ہے کہ مجرم کی بجاۓ جراٸم کے خاتمے پر زورہ دیا جاۓ۔ مجرم بھی دیگر انسانوں کی طرح کا ایک انسان ہوتا ہے۔ انسان کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں بہت اچھا جبکہ کسی اور مرحلے میں بہت ہی برا عمل کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ انسان آج برا ہے تو کل اچھا ہوسکتا ہے اور آج اچھا ہے تو کل برا ہوسکتا ہے۔ جو لوگ تشدد کے بدلے تشدد کے حامی ہوتے ہیں ان کے اندر تشدد پسند انسان چھپا ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کے کسی بھی حصے میں اپنی تشدد پسندانہ سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ جو انسان فطرتا تشدد پسند نہیں ہوتا ہے وہ کسی بھی حالت میں تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ سیلف ڈیفنس یا تشدد سے خود کو بچانا کوٸی اور عمل ہے جس میں متاثرہ فرد ہر ممکن کوشش سے خود کو تشدد سے بچاتا ہے وہ حملہ آور کی طرح وحشی نہیں ہوتا۔ تشدد سے نفرت کرنے والا شخص سزا اور جزا کو قانون کے تحت روبہ عمل لانے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قوانین بناۓ اس لۓ جاتے ہیں تاکہ لوگ تشدد کے نتیجے میں خود تشدد کے مرتکب نہ ہوسکیں۔ جبکہ جراٸم کے دیر پا خاتمے کے لۓ معاشرے کی مجموعی تعلیم و تربیت کو ضروری ہوتی ہے۔ ایک سمجھدار اور انسان دوست فرد تشدد کے بدلے تشدد کو فروغ دےکر تشدد کی زنجیر ”ساٸیکل آف واٸیلینس“ کا حصہ نہیں بنتا بلکہ وہ اس تسلسل کو توڈنے کی حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ تشدد کا یہ سلسلہ اگر برقرار رہے تو اس کا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے اور کھبی نہ کھبی اس کو روکنا ضروری ہوجاتاہے۔ جیسے خاندانی دشمنیاں سال ہا سال چلتی ہیں مگر درمیان میں ایک فرد ایسا پیدا ہوتا ہے جو اس تسلسل کو توڑ کر نٸی شروعات کرتا ہے۔ وقتی طور پر لوگ ان کو برا بھلا کہتے ہیں مگر وقت ان کے فیصلے کو سرہاتاہے۔ ایسا شخص سزا پر کم تربیت پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ وہ جراٸم کے خاتمے کا حامی ہوتا ہے مگر جراٸم کے مرتکب انسانوں کے خاتمے کا حامی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کو انسانی فطرت کا ادراک ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے تربیت سے برا انسان اچھا ہوسکتا ہے اور زندگی کے کسی بھی لمحےغلط سوچ اپنانے سے اچھا انسان برا ہوسکتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے بہت سے لوگ کسی برے کام کے بعد پشیمان ہوتے ہیں اور تاحیات اچھاٸی کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس لۓ دنیا کے کٸی معاشروں میں جیلوں کو سزا کا مرکز نہیں بلکہ تربیت کا مرکز بنایا جاتا ہے جہاں جاکر عادی مجرم انسان بن کر باہر نکلتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں عام مجرم جیل جاکر عادی مجرم بن کرباہر نکلتے ہیں۔

یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ ہر تشدد یا سنگین جرم کے کسی بھی واقعے کے بعد جو ردعمل عوامی سطح پر سامنے آتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت آبادی تشدد پسند ہے۔ ایسے لوگ ہر تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے حامی ہوتے ہیں۔ وہ تشدد کے خاتمے کے لۓ دیر پا لاٸحہ عمل سے زیادہ وقتی سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی تسکین اس بات پر نہیں ہوتی ہے کہ آٸندہ ایسا واقع رونما نہ ہو بلکہ ان کی تسکین تشدد کے بدلے تشدد میں ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مجرم کے خاتمے سے جراٸم ختم ہوجاٸیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے جن معاشروں میں تشدد اور قتل کے بدلے قتل ہوتا ہے وہاں یہ جراٸم نسل در نسل چلتے ہیں جبکہ جن معاشروں میں تشدد کے خاتمے کے لۓ تعلیم و تربیت پر زور دیا جاتا ہے وہاں جراٸم کی شرح کم ہوتی ہے۔ علم نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ تشدد پسند شخص علاج کے بعد نارمل انسان بن سکتا ہے جبکہ تشدد زریعے کسی تشدد پسند شخص کو نارمل انسان نہیں بنایا جاسکتا بلکہ تشدد کے نتیجے میں اس کی تشدد پسندی کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔

تشدد پسندی ایک جینیاتی بیماری ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ تشدد پسند ہیں تو بچے بھی تشدد پسند ہونگے اور یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہے گا۔ اگر معاشرہ تشدد پسند ہے تو یہ عمل اگلی نسلوں میں منتقل ہوگا۔ تشدد کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے میں خاندان کی اکاٸی سمیت تعلیمی ، مذہبی اور سیاسی اداروں کے علاوہ میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ ادارے تشدد پسند لٹریچر ، تقاریر، تصاویر، ویڈیوز اور فلموں و ڈراموں کے ذریعے اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ راقم نے کل ہی ایک اہم میڈیا چینل کے صبح کے پروگرام میں ایک تشدد کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوۓ خاتون اینکرکو غصے میں لال پیلی ہوتے ہوۓ یہ کہتے سنا کہ جس پر بھی تشدد ہو اس کو چاہیۓ کہ جو چیز ہاتھ لگ جاۓ اس سے سامنے والے کو دے مارے حتی کہ آنکھ نکالنے سے گریز نہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوٸی ہے جو اس بچی پر تشدد کرنے والی خاتون کو لات مارے۔ حالانکہ اس س قبل وہ یہ بھی کہہ چکی تھی کہ تشدد کرنے والی خاتون کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے اگر وہ اسی بات پر قاٸم رہتی تو وہ لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے گناہ سے بچ جاسکتی تھی۔ وہ اس واقعے کے بعد اپنے غصے پر قابو پانے سے قاصر تھی جس کے نتیجے میں بجاۓ متاثرہ افراد کو اپنی حفاظت کے گر سکھاتی اور تشدد کے خاتمے کے لۓ کوٸی عقلی اور دانشمندانہ مشورہ دیتی وہ خود تشدد کی تعلیم دے رہی تھی۔

یہ حالت دیگر نام نہاد انسان دوست اور پڑھے لکھے لوگوں کی بھی ہے جو ہر واقعے کے ردعمل میں خود غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور انجانے میں تشدد کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ ردعمل ہمارا روایتی ردعمل ہے جو بیک وقت معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے آتا ہے۔ یہ ردعمل پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ گویا ہمارا پورا معاشرہ تشدد پسند بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہم ہر واقعے کے بعد انجانے میں تشدد کے بدلے تشدد کو فروغ دینےمیں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ معاشرے سے تشدد کا خاتمہ بھی ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہے جیسے ہم روز اپنی زمین پر کانٹے بوتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ کانٹوں کی جگہ پھول اگ آٸیں۔ یہ این خیال است و محال است و جنون کے مصداق ہے۔

ہمیں بحثیت انسان تشدد سے نفرت کرنا چاہۓ ۔ اگر ہم تشدد سے نفرتے کرتے ہیں تو ہمیں اس کی تاٸید کرکے اس کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہۓ۔ ہمیں چاہۓ کہ تشدد کرنے والوں کے خلاف انتقاما تشدد کی حمایت نہ کریں ۔ ہم تشدد سے نفرت کا اظہار یو ں کریں کہ کوٸی بھی شخص کسی بھی حالت میں تشدد نہ کرے حتی کہ تشدد کےبدلے میں بھی تشدد نہ ہو۔ تشدد کو روکنے کی زمہ داری ریاست کے سپرد کیا جاۓ ۔ سزا کا مطالبہ ریاست سے کیا جاۓ مگر قانون سے مطالبہ کرتے وقت خود سزا کا تعین نہ کریں یعنی یہ نہ کہیں کہ اس کا سر پھاڑا جاۓ، مارا جاۓ ، الٹا لٹکا یا جاۓ بلکہ یہ کہا جاۓ کہ جو قانون میں درج ہے وہ سزا دی جاۓ۔ دوسری طرف تشدد سے نفرت کرتے ہوۓ تعلیمی، مذہبی، سیاسی سمیت دیگر اداروں اور میڈیا میں تشدد کے واقعات سمیت تشدد کی خواہش کے خاتمے کے لۓ تبلیغ کی جاۓ۔ نظام انصاف میں پاۓ جانے والے سقم کی نشاندہی اور قانون کو جھنجوڑنے کی تگ و دو ضرور کی جاۓ مگر اس سے زیادہ معاشرے کی تعلیم و تربیت پر ذور دیا جاۓ۔ گھروں میں ایک دوسرے کو تشدد سے روکا جاۓ ۔ تشدد کرنے والوں کے ساتھ ذہنی مریضوں کا سلوک کیا جاۓ اور ان کا نفسیاتی علاج کی طرف توجہ دی جاۓ۔ اسی طرح ہی ہم تشدد اور جراٸم کا دیر پا حل نکال سکتے ہیں وگرنہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ ہر فرد تشدد کا خاتمہ تشدد میں ڈوھونڈتے ہوۓ محض تشدد کو فروغ تو دے سکتا ہے اس کا خاتمہ یا انسداد نہیں کر سکتا۔ تشدد کی زنجیر ”چین آف واٸیلیس“ کو توڑنا معاشرے کی مجموعی سوچ کو بدلے بغیر ممکن نہیں۔ ہر تشدد کے واقعے کے بعد روایاتی ردعمل سے گریز کرتے ہوۓ علمی ، ساٸنسی اور عقل و دانش پر مبنی ردعمل دیا جاۓ تو وہ بہتری کی طرف ایک قدم ثانت ہوسکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button