کالمز

یہ سب یاسین میں ہی  کیوں ؟؟؟

اِس کو اِتفاق کہے یا پھر سازش، یاسین میں ہونے والے ہر ترقیاتی کام ادھوراے ہی رہ جاتے ہیں ۔
کوئی کام وقت مقررہ پر پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ۔ عوام اپنے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں ۔ علاج معالجے کی سہولت موجود نہیں ، سڑکیں کھنڈرات بن چکی ہیں ۔
جو سڑکیں زیر تعمیر ہیں اِن کو بھی مقررہ وقت پر مکمل ہونے تھیں،لیکن وہ منصوبے بھی التواء کا شکار ہیں، ستمبر کے بعد  تارکول کا سیزن بھی عموماً  آف ہوتا ہے ۔ اگلے سال انہی  نا مکمل منصوبوں کو بجٹ کی کمی کا بہانہ بنا کر ٹال دئیےجاہیں گے اور یہ منصوبے ماضی کے قصے بن جاہیں گے ۔ یہ سب  حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے اور مسلسل مختلف حربے استعمال کر کے اور حلیے بہانوں سے  عوام کی آنکھوں میں دھول جونک رہیں ہیں۔ اور یہ سلسہ ہنوز جاری ہے۔
دوسری طرف یاسین میں ثانوی تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔کوئی نظام موجود نہیں،طاؤس میں موجود گورنمنٹ بلڈنگ جس کو معلوم نہیں کس نے خود سے ڈگری کالج کا درجہ دے رکھا ہے، حالانکہ گلگت بلتستان حکومت نے اِس بلڈنگ کو اِنٹر کالج بھی بنانے کا نوٹیفکیشن تا حال جاری نہیں کیا ہے ۔
کالج کے باہر گونمنٹ کالج لکھ کر بڑا سا  بورڈ آویزاں کیا گیا ہے۔بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ غریب عوام کو بے وقوف بنا کر فیس کی مد میں پیسے بٹورنے کے لئے یہ سب جعلسازی کی جا رہی ہے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ،سیاست دان پوائنٹ سکورنگ کے لئے ایک دوسرے سے گتھم کھتا ہیں۔ اس باہمی چپقلش اور داؤپیچ نے یاسین کو کئی عشروں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اب یہ خطہ مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا ،سیاسی قائدین اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھنے  کی ضرورت ہے تاکہ علاقے میں ترقی کا عمل جاری رہے۔
کچھ عرصہ قبل یاسین کو سب ڈویژن بنانے کا علان تو ہوا تھا تاہم سب ڈویژن کے ثمرات تاحال عوام کو میسر نہیں ہوسکے ۔
ڈومیسائل بنانے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن سب ڈویژن کا کوئی بھی محکمہ یاسین میں کئی نظر نہیں آ رہا۔عوام کے مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست صحیح معنوں میں کیا جائے تو عبادت ہیں ۔اور اگر سیاست کو  انفرادیت تک محدود کر کے ذاتی فائدے کے لئے کیا گیا تو یہ شیطانیت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button