کالمز

وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے نام دورہ سکردو کے موقع پر کھلا خط

شریف ولی کھرمنگی

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب! سب سے پہلے آپ کو دورہ امریکا کے دوران اور اقوام عالم کے نمائندہ پلیٹ فارم پر منعقدہ سالانہ کانفرنس میں اپنی بے مثال تقریر خصوصا ناموس رسول گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسلاموفوبیا، مغربی دوہرے معیارات سمیت کشمیری مسلمانوں کے حق میں واضح موقف کو ، دوٹوک اور مدلل انداز میں بیان کرنے پر مبارکبادی پیش کرتا ہوں۔ اسکے باجود کہ کئی حوالوں سے مزید بہتری کی گنجایش اس تقریر اور مختلف مواقع پر آپکے اظہار خیال میں موجود تھی، آپ کی تقریر کو دنیا بھر میں سراہا گیا جوکہ بطور مسلمان اور ایک ڈی فیکٹو (گلگت بلتستانی) پاکستانی ہم سب کیلئے فخر کا مقام ہے۔ البتہ ہماری خوشی واقعی دیدنی ہوتی اگر مملکت خدادا پاکستان کا گلگت بلتستان کے مسلمان بھی آئینی و قانونی شہری کہلاتے۔ دوسری جانب آپکی تقریر کو امت مسلمہ کی نمائندہ تقریر اور اپکو مسلمانان جہان کے ایک برجستہ لیڈر ہم اسوقت یقینا مان لیتے جب آپ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں انصاف کیساتھ آواز بلند کرتے جبکہ آپکے مدلل اور مضبوط نکات کے ساتھ کی گئی تقریر میں کہیں مظلومین یمن کیلئے دو لفظ بھی شامل نہیں تھا۔ اور خبروں کے مطابق ان کے حق میں قرار داد کی بھی پاکستان کی جانب سے حمایت نہیں کی گئی حالانکہ آپکے اسی خطاب میں آپکی جانب سے مغربی دوہرے معیار اور مفادات والی باتیں بار بار دہرا رہے تھے۔ اس لئے مظلومین یمن پر اسلامی جمہوریہ پاکستان بقول آپکے ریاست مدینہ کے طرز کی حکومت نے مفادات پر مبنی رشتے کو فوقیت دی جوکہ یقینا انہونی اسلئے نہیں کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی بعض ممالک کی بابت اسی اصول کے تحت ملکی مفادات اور تعلقات کو فوقیت دیتے ہوئے ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کے حق میں دوٹوک موقف نہیں اپنایا۔ جبکہ ناموس رسالت اور دہشت گردی و دیگر امور آپکے دلائل قابل صد داد و تحسین رہے۔

اس کھلے خط کی وساطت سے ہم آپکو گلگت بلتستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور اس موقع پر خطہ بے آئین گلگت بلتستان کے بعض چیدہ چیدہ معاملات آپکے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس امید کیساتھ کہ آپ ماضی کے حکمرانوں کی جانب سے کیے گئے وعدے وعید اور خود آپکی اپنی شعلہ بیان تقاریر میں کیے گئے انصاف کے نعروں پر اکتفا کرنے کی بجائے ان گذارشات پر حقیقی معنوں میں عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائیں گے۔

وزیر اعظم صاحب ! ہمارا اولین مطالبہ یہ ہے کہ اولین فرصت میں آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کو مکمل آئینی و بنیادی جمہوری حقوق فراہم کرکے نوآبادیاتی حیثیت کو فی الفور ختم کئے جائیں اور ملک کے فیصلہ ساز قانونی و معاشی ادارہ جات میں گلگت بلتستان کو بھی نمائندگی دی جائے۔ اس طرح یہاں کی نئی نسل کو ملک عزیز کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار بننے کی صورت میں ہی آپکی حکومت میں آنے سے قبل اور ابتک کے دعووں میں سچائی نظر آسکتی ہے اور نتیجتا یہ علاقہ بھی اپنے تمام تر وسائل سمیت ملک کا آئینی حصہ قرار پانے پر یہاں کے باسی دنیا بھر میں سر اٹھا کر پاکستانی شہری کہلانے میں فخر محسوس کر سکیں گے۔ اگر مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی وجہ سے آئینی حقوق نہیں دے سکتے تو کم از کم جموں کشمیر کو انڈیا کی جانب سے ابتک جو خصوصی حیثیت اور حقوق فراہم کیے رکھا تھا وہی حیثیت اور حقوق گلگت بلتستان کو فراہم کیے جائیں جس میں (حال ہی میں ختم کئے گئے) بھارتی دستور کے آرٹیکل 37-اے اور 370 سب سے اہم ہیں جنہیں مقبوضہ جموں کشمیر کی عوام کا بنیادی حق سمجھتے ہوئے فوری بحال کرنے کا مطالبہ خود جناب والا عالمی فورمز پر بارہا کر چکے ہیں۔ اس اہم ترین اور دیرینہ مسئلے کی بابت سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات موجود ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان سفارشات اور تمام تر حقوق حقوق کی فوری فراہمی کے احکامات پر تحریک انصاف کی حکومت میں بھی عملدرآمد ابتک ممکن نہ ہونا خود حکمران جماعت اور وزیر اعظم صاحب کے اپنے دعوں اور وعدوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ سو اس تاثر کو ختم کرنے کا ایک یہی رستہ کہ علاقے کی بہتر سہ محرومیوں کو ختم کئے جائیں۔

گلگت بلتستان میں بلدیاتی اداروں کیلئے قانون سازی پر عملدرآمد ہوا اور نہ ہی ایک عرصے سے گزشتہ قوانین کے تحت انتخابات منعقد کرائے گئے۔ بلدیاتی انتخابات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہی سیاست اور حکومت چند افراد اور خاندانوں کے گھروں کی لونڈی بنی رہتی ہے اور نئی قیادت کو ابھرنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ نتیجتا موجودہ حکومت سمیت ہر دور میں علاقے میں حکمرانی کیلئے الیکٹیبکز کی لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کی سیاست کو فروغ مل رہی ہے جوکہ ملکی سیاسی مستقبل کیلئے بہت ہی افسوسناک صورت حال بنتا جارہا ہے۔ سو لوکل سطح پر عوامی امور کی انجام دہی کیلئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وزیر اعظم اختیارات کو نچلی سطح تک منتقلی کے اپنے وژن اور دعوے کے مطابق گلگت بلتستان میں اولین فرصت میں بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کیلئے عملی اقدامات کو یقینی بنائیں اور بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔

وزیر اعظم صاحب ماضی کی حکومتوں نے گلگت بلتستان کو دیگر امور کیطرح پروفیشنل اور جدید تعلیمی سہولیات میں بھی پس پشت ڈالا۔ کسی حکومت نے جہاں کی لاکھوں عوام کیلئے میڈیکل اور انجنیرنگ کالجز کے قیام کو ضروری نہیں سمجھا۔ نتیجتا یہاں کے ذہین طلبہ دیگر صوبوں میں قائم اداروں میں چند کوٹے کی سیٹوں کیلئے مقابلے کرنے پر مجبور ہیں جبکہ طلبہ کی اکثریت شہروں میں نہ جاسکنے، مالی استطاعت کے نا ہونے اور سب سے اہم علاقے میں پروفیشنل ادارہ جات کے نہ ہونے کی وجہ سے پروفیشنل فیلڈز میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ لھذا اس علاقے میں انجنئیرنگ اور میڈیکل کالجز کا قیام عمل لائیں۔

وزیر اعظم صاحب جس اقتصادی راہداری ( سی پیک) سے پورے پاکستان میں انقلاب کے دعوے ہم آئے روز خبروں میں سنتے ہیں اسکا بننا گلگت بلتستان کے بغیر یقینا ناممکن ہے۔ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہے مگر اسکے باوجود افسوسناک امر یہ ہے کہ اس میگا منصوبے کی افادیت سے گلگت بلتستان کو جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ یہاں کوئی اقتصادی زون بنا کر تجارت اور سیاحت کے مواقع فراہم کرنا تو درکنار ، پہلے سے قائم سوست ڈرائی پورٹ کو بھی علاقے سے ختم کرکے صوبہ پختونخواہ کے کسی علاقے میں منتقل کرنے کی خبریں مل رہی ہیں۔ ایسا کرنا یہاں کے تاجروں اور صنعتکاروں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم صاحب یہ آپ پر فرض ہے کہ گلگت بلتستان کو سی پیک کے ثمرات دیگر پاکستانی علاقوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم انکے برابر پہنچانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں اور یہاں کی لاکھوں عوام کو جان بوجھ کر ترقی اور تجارتی مواقع سے محروم رکھنے کی روش کو ترک کی جائے۔

گلگت بلتستان گزشتہ بہتر سالوں سے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔ یہاں مزید احساس محرومی کو بڑھاوا دینا ملک عزیز کے مفاد میں ہرگز نہیں اسلئے عملا ایسے اقدامات بجا لائیں جن سے عوام کا معیار زندگی بلند ہو، بنیادی ضروریات فراہم ہو اور ملکی اہم امور میں برابر کے حصہ دار بنتا ہوا نظر بھی آ جائے۔

گلگت بلتستان کا نوے فیصد علاقہ دیسی اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جہاں کی عوام شہری سہولیات سے مستفید نہیں ہوسکتے اس وجہ سے نئی نسل کو بہتر تعلیمی مواقع بھی میسر نہیں۔ کئی اضلاع میں خصوصا خواتین کیلیے میٹرک کے بعد تعلیم حاصل کرنے کیلئے ادارے موجود سرے سے ہے ہی نہیں جبکہ والدین بچیوں کو میٹرک کے بعد شہروں میں بھی بھیجنے سے قاصر ہیں۔ اس وجہ سے طلبہ کی اکثریت میٹرک کے بعد تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ یہاں ہر ضلع میں کم از کم ایک ایک گرلز ڈگری کالج کے قیام کے احکامات صادر کئے جائیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ نمل کالج میں گلگت بلتستان کے ہونہار اور محنتی طلبہ کیلئے سالانہ بنیادوں پر سیٹیں مختص کروائیں۔ تاکہ یہاں کے معاشی طور پر کمزور محنت کشوں کے طلبہ بھی اس معیاری تعلیمی درسگاہ سے مستفید ہوکر بہتر مستقبل کی جانب بڑھ سکے۔

گلگت بلتستان میں سیاسی بنیادوں پر پر امن اور محب وطن شہریوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں۔ بہت سے افراد پس زندان مقدمات بھگت رہے ہیں تو بیشمار افراد پر حکومت اور انتظامی اداروں نے بلاجواز دہشت گردوں کے لئے بنائے قوانین کے دفعات عاید کئے ہیں۔ شیڈول فور نامی قانون کی زد میں سماجی، سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیات ہی نہیں بلکہ طلبہ بھی ہیں اس سے جہاں علاقے کی پر امن محب وطن عوام کے سماجی امور بلاوجہ پابند ہونے کا سبب بن رہا ہے وہیں انکی عزت نفس مجروح ہونے کا بھی باعث ہے۔ دوسری جانب اس قسم کے قید و بند اور کالے قوانین کے خاتمے سے عالمی سطح پر پر امن گلگت بلتستان میں انتظامیہ اور حکومتی بیجا سختیوں کا بھی تاثر بھی ختم ہوجائیگا۔ لھذا ضروری ہے کہ وزیر اعظم کیجانب سے اپنے دورہ گلگت بلتستان میں تمام سیاسی اسیروں کو ضروری قانونی امور کو بجالاتے ہوئے رہا کرنے اور شیڈول فور نامی دہشت گردی کے دفعات کو اس علاقے سے ختم کرنے کے احکام صادر کئے جائیں۔

گلگت بلتستان کے اکثر اضلاع میں بنیادی طبی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے متعدد بار معمولی امراض میں مبتلا مریض بھی شہروں میں قائم ہسپتالوں تک لاتے ہوئے راستے میں ہی فوت ہوچکے۔ اسلئے ضروری ہے کہ شہروں میں بڑے ہسپتال بنانے کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں معقول طبی مراکز قائم کئے جائیں اور موجود ہپستالوں میں ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف سمیت ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے۔

وزیر اعظم پاکستان اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ گلگت بلتستان کیلئے شہروں سے سفر کرنا انتہائی دقت طلب ہے۔ حالیہ دنوں ڈھائی درجن قیمتی جانیں بس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ضایع ہوگئیں اور متعدد زخمی راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے داخل ہیں۔ جبکہ فضائی سفر کیلئے پی آئی اے کے علاؤہ کسی اور ائیر لائن کو اجازت ہی نہیں دی گئی۔ حیرت انگیز طور پر پی آئی اے دیگر شہروں کیلئے دو ڈھائی گھنٹے سفر کا جو کیرایہ وصول کرتا ہے گلگت بلتستان کیلئے پون گھنٹے کے سفر کا کیرایہ ان سے کئی گنا وصول کرتے ہیں جوکہ نا انصافی کی انتہا، غریب عوام پر ظلم اور علاقے کی سیاحت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ جناب وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ متعلقہ حکام کی وساطت سے شاہراہ قراقرم پر طبی سہولیات سمیت ٹرانسپورٹ کی بہتر اور محفوظ سہولیات کو یقینی بنائیں اور پی آئی اے کی مناپلی کو ختم کرتے ہوئے دیگر ائیرلائنز کو بھی سکردو اور گلگت کیلئے پروازیں چلانے کی اجازت دلائی جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ پی آئی اے کو گلگت بلتستان کے روٹس پر دیگر شہروں کی طرح مناسب اور معقول کیرایہ وصول کرنے کا پابند بنائیں۔

میں اس اوپن خط کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان کو ایک اور اہم نکتے کی جانب متوجہ کرانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ جانتے ہونگے کہ سکردو کا رن وے اور ائیرپورٹ کا ایریا ہر صورت ایک انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسکی اپگریڈیشن کی صورت میں سنٹرل ایشن ممالک اور چایینہ سے ایشیا اور یورپین ممالک کو جانیوالی پروازوں کیلئے بہترین اور کم فاصلے والا ٹرانزٹ روٹ ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کی سیاحت میں بڑے پیمانے میں اضافے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ لھذا اپنی حکومت میں اس اہم ایشو پر توجہ کر کے سیاحت کے اس عظیم موقعے کو کیش کراسکتے ہیں۔ سکردو ائیرپورٹ کی توسیع کرواکر اسے آل ویدر بنوایا جائے اور ہمسایہ دوست چائینہ کیساتھ ملکر اس ائیرپورٹ کو انٹرنیشنل اییرلاینز کیلئے فزیبل بنانے سے جہاں پر امن اور جنت نظیر خطہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی انڈسٹری کو چار چاند لگ سکتا ہے وہیں مقامی عوام کو تجارت اور ملازمت کے بھی بیشمار مواقع مل سکیں گے۔ جوکہ ملک کیلئے زر مبادلے کا بھی بہترین باعث بن سکتا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ان درج بالا اہم امور پر ضرور متوجہ ہونگے اور عملی طور پر اقدامات بجالاکر علاقہ گلگت بلتستان کے عوام کو شکریے کا موقع فراہم کرنے کیساتھ ساتھ عوامی معاملات کیلئے انصاف کیساتھ عملا کام کرنیوالے حکمران ہونے کا ثبوت دینگے۔

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button