کالمز

عورت کی مہر وفا سے محروم مرد!

تحریر: امیرجان حقانی

بدبخت ہیں وہ لوگ جو عورت کی مہر وفا سے محروم ہیں.

کتنے بدقسمت  ہیں وہ لوگ جن کی بیٹیاں، بہنیں، مائیں اور بیویاں یہ کہتی پھرتی ہیں.

"اپنی چائے خود بناؤ”
"اپنا کھانا خود پکالو”

واللہ!
میری ماں بھی ایک عورت ہے.
جب میں کراچی سے گاؤں آتا تو،خشک بنڈی کو نسالو کے گوشت کیساتھ میرے لیے الگ پکاتی تھی.
میرے لیے یہ سبزی بناکر جتنی خوشی میری ماں جی کو ہوتی، اس کا حساب نہیں لگایا جاسکتا. جذبات کا حساب اور وزن نہیں کیا جاسکتا.

آج  بھی جب ماں جی سے تب کے کھانوں کا تذکرہ کرتا تو اس کے دو آنسو گر جاتے.

پتہ ہے کیا کہتی ہے؟

کاش! بیمار نہ ہوتی تو روز تجھے اپنے ہاتھوں سے پکا کر کھلاتی.

آج بھی دوپہر کو کھانا نہیں کھایا تھا. مغرب کے قریب گھر پہنچا تو بستر پر لیٹی بیمار ماں بلبلا اٹھی کہ ایک پھلکا جلدی پکاو، میرے منع کرنے پر پھر اپنی گھی کی بالٹی لانے کو کہا، میرے سامنے رکھا. کچھ لقمے تو جلدی کھالو.
ماں جی کا دل رکھنے کے لیے ٹھنڈی روٹی کیساتھ دو لقمے لے لیے.

اُف اللہ!
عورت مارچ کے نام پر ملک میں لگنے والے ان متعفن زدہ نعروں کی وجہ سے اگر کل کی ماں اور بیٹے کے درمیان سے یہ محبت اُڑ گئی تو؟

میری بہنیں اب بھی جب میرے لیے ایک کپ چائے بناتی ہیں تو دن بھر کی تھکن دور ہوجاتی.

میں خدا کو حاضر ناظر مان کر کہتا کہ میری پانچوں بہنیں اب بھی میرے لیے الگ ایک کپ چائے بناتی ہیں. سالوں سے یہی روٹین ہے.جب بھی ان کے گھر جاتا تو وہ یہی کرتیں.
اس چائے میں شکر کی شیرینی سے ان کی محبت کی شیرینی زیادہ ہوتی.

عورت مارچ کے نام پر تم مجھ سے میری بہنوں کی محبت غصب کرنا چاہتے؟

میری بیوی جس اطاعت، مہر وفا اور خلوص سے کھانا دیتی ہے اس کا احساس میں ہی کرسکتا.اور کچھ احساسات، محسوسات نہیں ہوسکتے

اور تم اسکو

"میرا جسم میری مرضی”

جیسے غلیظ نعروں سے نافرمان بنانا چاہتے؟

میری پیاری بیٹی "وجہیہ” 9 ماہ کی ہے.
اس کا سب سے زیادہ خیال میرے والد صاحب رکھتے.
میرے والد بھی  تو مرد ہی ہے نا؟.
پھر اتنی محبت کیوں کرتے ایک عورت ذات سے یعنی پوتی سے؟
روز ایک لقمہ اپنے دیسی گھی کے ڈبے سے وجہیہ کو کھلاتے.اپنے ہاتھوں سے کھلاتے.جس پلیٹ میںں خود کھاتے اسی سے اٹھا اٹھا کر، چھوٹے چھوٹے لقمے بناکر کھلاتے. وجہیہ کے لیے گھر میں سب سے لڑتے. پوتی جو ہے.

پتہ ہے میرے اور ابو کے درمیان کیا مکالمہ ہوتا.
میں ابو سے کہتا
"جب وجہیہ بڑی ہوگی نا تو آپ کو الگ سے کھانا پکانے کی ذمہ داری اس کی ہوگی”
تب میرے ابو کی خوشی دیدنی ہوتی. اُٹھ کر وجہیہ کو گلے لگاتے.. اور کہتے ہیں : میں اپنی پوتی کیساتھ تم لوگوں سے جدا رہو نگا.

ہم باپ بیٹا دونوں وجہیہ کی محبت میں جی رہے ہیں جو ایک عورت ذات ہے. اور ہم مرد.

میری تمنا ہے کہ کب وجیہہ بڑی ہوجائے،
سویرے جاگے. تین کپ چائے بنالے
ایک اپنے ابو کو دے اور ایک دادا کو، اور ایک خود پی لے، میں کالج چلو، وہ سکول چلے. اور دادا گھر میں دونوں کا انتظار کرے.

ظالمو!
ہماری ان معصوم سی خوشیوں کو گندے ترین نعروں سے کیوں چھیننا چاہتے؟

ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟

تم کیا جانو!

ماں کا پکایا ہوا کھانے کی اہمیت بیٹا جانتا،
بہن کی چائے کا حظ  بھائی اٹھاتا،
بیوی کا گرم پھلکا شوہر  اور بیٹی کی بٹی چاہیے کا چسکہ باپ ہی محسوس کرسکتا..

تم جب ان سب جذبات سے عاری ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟
ہم نے تو تم سے یہ لطیف جذبات نہیں چھینے نا؟

تم خود مغرب کی خودساختہ تہذیب کے دلدل میں پھنسے ہو.

ہمیں کیوں پھنسانا چاہتے؟

کیا تم ہمیں اپنی حال پر رہنا دے سکتے؟ ہاں تو
پھر معاف کیجے ہمیں.
اپنا کچرا خود اٹھائے پھرو، ہم اس کے متحمل نہیں.

بخدا!
اس مرد  سے بڑا مظلوم کوئی نہیں ہوگا جو  ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے خلوص و محبت اور مہر وفا سے محروم ہو.
میں تو اس سوچ کے احساس سے ہی کانپ جاتا.

ارے یار!
یہ تو بتاو کہ یہ کیسا ایجنڈا اور سلوگن ہے
عورت تو اُم ہوا کی عفت کام نام ہے. کیا تم بنت ہوا سے یہ عفت چھیننا چاہتے؟
عورت تو حضرت ھاجرہ کا صفی و مروہ میں حضرت اسماعیل کی محبت میں چکر کاٹنے کے اور تڑپنے کا نام ہے.

عورت کا پوچھتے ہو  تو جان لیجے!
عورت خدیجۃ الکبری کی مہر وفا اور سیدہ عائشہ کے چبائے ہوئے مسواک کی شیرینی کا نام ہے. یہ مہر وفا اور شیرینی صرف ہادی دو عالم ہی بیان کرسکتے ہیں جو دنیا کا سب سے اعلی وافضل مرد ہے.

عورت کا پتہ پوچھتے ہو تو سیدہ فاطمہ الزھرا کی سیرت دیکھ لو، جس کے لیے نبی کی بانہیں کھلتی، رداء بچھتی، علی کا دل دھڑکتا، حسن و حسین اپنی اماں پر جان نچھاور کرتے، اور وہ ان سب سے احترام سمیٹتی.

اے میری بہنو!

واللہ تم
اُم ھوا کی عفت ہو
حضرت ہاجرہ کی دھڑکن ہو
خدیجۃ الکبری کی مہر وفا ہو
سیدہ عائشہ کی خلوص و محبت ہو
فاطمۃ الزھرا کی آمین ہو
بس تم اپنی قدر پہچان لو.
جان لو! تم سے تمہارا اعزاز چھینا جارہا ہے.

یاد رکھیے!

اگر آپ کے ایجنڈے میں یہ شامل ہوتا کہ
عورت کو عزت سے جینے کا حق دو
عورت کو انسانیت کا درجہ دو
عورت کو تعلیم دلاو
عورت کی مہر ادا کرو
عورت کو بیٹے پر ترجیح نہ دو
عورت کا علاج کراو
عورت کو اعلی ترین نان نفقہ کا بندوبست کرو
عورت کو بہترین گھر دو
عورت کو  اعلی لباس دو
عورت کا معاشی حق تسلیم کرتے ہوئے والدین کے ترکے سے مکمل حصہ دو
عورت کی عفت بچاؤ
عورت کو ونی اور کاروکاری سے بچاو
عورت کا تمدنی حق یعنی مرضی سے نکاح کا حق دو
عورت کو گھر کی ملکہ بناو
عورت کو نامحرم کی غلیظ نظروں سے بچاو
اور
عورت کو اظہار رائے کی آزادی دو

غرض ان سب باتوں کے لیے نیشنل اور پروونشل اسمبلیوں سے قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے. تو
واللہ میں گلگت میں عورت مارچ کا پہلا کارکن ہوتا اور ان حقوق کے لیے ہر ایک سے ٹکراتا مگر نہیں جناب آپ کے سلوگن بہت ہی مبہم ہیں.

"عورت کو آزادی دو”

کس سے آزادی اور کیسی آزادی؟
نکاح سے آزادی؟
مشرقی عورت اسکا سوچ بھی نہیں سکتی.

بتاو کیا اسلام آباد کے سڑکوں میں برہنہ ہونے کا نام آزادی ہے؟

کیا حیض کے نیکر دیواروں پر چپکانے کا نام آزادی ہے؟

کیا بوڑھے باپ کی عزت خاک میں ملانے کا نام آزادی ہے؟

کیا بھائی کی الفت سے دور بھاگنے کا نام آزادی ہے؟

کیا شوہر کی رفاقت سے فرقت کا نام آزادی ہے؟

کیا بیٹے کی خدمت سے خود کو محروم کرکے سویٹ ہاوس میں جانے کا نام آزادی ہے؟

سچ یہ ہے کہ عورت کے حقوق اور آزادی کے نام پر کی جانی والی سرگرمیاں اتنی مبہم، خفیہ اور غیر فطری ہیں جس کی کوئی معقول توجہیہ نہیں کی جاسکتی.

وہ مرد کیسے ہونگے نا جو یہ سب سہہ رہے ہونگے اور خاموشی  سے اپنی آیندہ کی نسلوں کو ان لطیف جذبات سے محروم کرنے کا سبب بن رہے ہونگے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button