کالمز

آزمائشوں اور مسائل کا شکار نوجوان طبقہ

تحریر : محبوب حسین
انسانی زندگی ارتقا سے ہی آزمائشوں اور مسائل میں گھری ہوئی ہے، مسائل اور آزمائشیں ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، چایے وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، روزگار کا ملک ہو یا بے روزگار، سیاست دان ہو یا بیروکریٹ، سماجی کارکن یو یا مزہبی کارکن، صدر ہو یا وزیراعظم وغیرہ یہ تمام طبقہ کسی بھی پروفیشن سے انکا تعلق ہو مسائل اور ازمائشوں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔
لیکن میں اپنی تحریر میں آپ  سامین کا توجہ کسی ایسے موضوع کی طرف مبضول کروانا چاہتا ہوں جو توجہ طلب ہے جو خصوصا تمام نوجوان طبقہ، طلبہ و طالبات کے لیے نہایت سوچنے کا مقام ہے۔
ہم اپنی ملک پاکستان کی بات کرتے ہے جس میں ایک طالب علم بہت ذیادہ تک و دو محنت کرکے، مختلف مراحل سے گزر کر جیسے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم حاصل کرکے اپنی ماں باب کا جامع پونجا اپنی تعلیمی اخراجات پہ صرف کر کے تمام تعلیمی مراحل طے کر کے ڈگری ہاتھ میں تھامے مارکیٹ میں قدم جماتا ہے۔
پہلی کوشش نوکری کی تلاش جس میں اشتہارات کی جابچ پڑتال، ان لائن ویپ سائڈ کی وزٹ، نیٹ کیفوں کی دستک، انہی کشمکش میں تقریبا 2 سال کا عرصہ بیت جاتا ہے، اسی دوران جب اپنے متعلقہ شعبے میں کسی اشتہار کے زریعے نوکری کا خبر بے روزگار، غم روزگار، روزگار کے پیاسے جوان کو مل جاتی ہے آپ اس بندے کی دوسری کہانی شروع ہوتی ہے۔
وہ کہانی کچھ اس طرح ہے، آب اس نوکری کے لیے اپنی اصل اسناد کی فوٹو کاپیاں بنوانا شروع کرتا ہے، اپنی تصویر بھی کھینچواتا ہے، اور اشتہار میں لکھا ہوا ہے کہ اپنی اسناد کسی گورئمنٹ 17 سکیل کے آفیسر سے تصدیق بھی کروانی ہے، اسی اثنا میں متعلیقہ امیداور کا سر درد بھی ہونا شروع ہوتا ہے آخر ڈگری لیا ہے ماں باب نے اپنے بیٹے پہ کافی پیسے انوسٹ کیے ہیں کہیں نہ کہیں روزی تو کمانا ہےتعلیم پہ ماں باب کے جو پیسے خرچ ہوئے ہیں انکو واپس لوٹانا تو ہے، ان اسناد کی تصدیق کی چکر میں ایک دن کا عرصہ گزر جاتا ہے کیونکہ ہم پاکستانی قوم ہے ہمارے آفیسرز بھی ماشاالللہ ایسے غرور اور تکبر میں بھرے ہوئے ہے کہ انکو  کسی غریب اور بے روزگار کا پرواں اور احساس ہی نہیں ہوتا، بے روزگار تھاکے مارے ان سرکاری دفاتر کا چکر کاٹتا رہتا ہے آخر جا کے کسی افیسر سے تصدیق کرواتا ہے۔ اب سکون کی سانس لیکر اگلے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور یہ راستہ پہلے ان راستوں سے بھی سخت کھٹن ہے، اور ان متعلقہ نوکری کے پیسے بینک میں جمع کرنا ہے لائن میں کھڑا ہوکے وہ رقم بھی بینک میں جمع کر لیتا ہے۔
اب اور کھٹن راستہ بے روزگار کی راہ دیکھ رہی ہے وہ ہے، ان تمام اسناد کو متعلقہ پتہ پہ ارسال کرنا ، تمام اسناد کو لفافے میں لپ کر کے پوسٹ افیس جاتا ہے متعلقہ بندہ بڑی دھمی لہجے میں کہتا ہے کہ ڈاگ بیھج دیا ہے آپ اپنی ڈاگ لیکے کل آجائے اب بندہ جائے تو کہاں ، بہت سوچ و بچار کے بعد ٹی۔سی۔ایس آفیس کی طرف لخت سفر باندھتا ہے، اپنی اسناد ٹی۔سی۔ایس آفیس کے زریعے بیھج دیتا ہے۔ ٹی۔سی۔ایس کے لیے 250 روپے بھی لگ جاتے ہیں۔ اب ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بک شاپ سے دو، تین کتابیں خریدتا ہے، کتابوں کا بل ٹوٹل 1300 روپے۔ اب گھر آکے ٹیسٹ کی تیاری کرتا ہے۔ کافی مہینوں بعد ٹیسٹ شیڈول کا علان ہوا جاتاہے، ٹیسٹ کے لیے ٹوٹل اخراجات لے کے بندہ اپنی منزل پہ پہنچتا ہے، ٹوٹل کرایے کے آخراجات 1000 روپے۔ اب گھر آکے بندہ تھوڑا سکون اختیار کرتا ہے، کچھ دنوں بعد بندے کو بیغام موصول ہوتا ہے کہ ٹیسٹ پاس ہوا ہے لہذا انٹرویو کے لیے آجائے دبارہ سفر باندھتا ہے اخراجات 1000 روپے۔ انٹرویوں بھی اچھا ہوتا ہے اور مکمل اعتماد بھی ہے کہ نوکری مل جائے گی، لیکن بدقسمتی سے اس نوکری کے لیے شارٹ لیسٹ نہیں ہوتا ہے پوچھنے پہ بتایا جاتا ہے کہ اس متعلقہ شعبے میں جو بندے پہلے سے عارضی بنیاد پہ کام کر رہے تھے انکی نوکری پکی ہوگئی ہیں۔ اب بیچارہ ڈگری یافتہ بندہ جائے تو کہاں سوچ و بچار میں مبتلا ہوجاتا ہے، مختلف خیالات زہین میں جنم لی رہے ہوتے ہیں۔ اگر اب تک کا اخراجات دیکھ لے تعلیم اور ڈگری کے علاوہ، فوٹوکاپیاں ٹوٹل رقم، 500، تصویر، ٹوٹل رقم 100، ٹی۔سی۔ایس، 250،کتابیں،1300 رقم، کرایا آنے جانے کے اخراجات 2000 روپے، بینک چلان، 290 روپے۔ اور ایک پوسٹ کے لیے کل اخراجات 4440 روپے، اتنے اخراجات ایک پوسٹ کے لیے ایک بے روزگار امیدوار کے لگ جاتے ہیں اب خود اندازہ لگائے کہ ایک بندہ سال میں کتنے پوسٹ کے لیے اپلائی کرتا ہے اور اسکی سالانہ اخراجات کتنے اتے ہیں۔ بہت ہی سنجدگی سے سوچنے کی بات ہے کہ ایک بندہ پیسے کمائے یا نوکری کی تلاش میں اپنی سال گنوانے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی گنوائے۔ تمام ادارے چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری نوجوانوں کو روزگار دینا انکی اولین فرائض اور زمہ داریوں میں شامل ہے لہذا انکو چاہے کہ انکی مشکلات میں آسانی پیدا کر دیں کیونکہ نوجوان طبقہ ہی کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کے ماند ہوتے ہیں۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button