کالمز

محمد حسین،  چترال کا عبد الستار ایدھی

روز صبح تڑکے ڈی ٰایچ کیو ہسپتال چترال کے وارڈوں میں ایک لمبا تڑنگا کرشماتی شخص پھرتی سے ہر مریض کے سرہانے پہنچتا ہے۔۔کمال خلو ص سے مزاج پوچھتا ہے۔پیشانی پہ ہاتھ رکھتا ہے۔تمار داروں کو تسلی دیتا ہے۔۔۔مریض کے سرہانے تازہ پھل اور میوے رکھتا ہے۔۔تیمار داروں سے دریافت کرتا ہے کہ کوئی مسئلہء تو نہیں ۔۔۔ اگر کوئی واقعی میں کسی ضرورت کا سامنا کر رہا ہے۔اس کا مسئلہ حل کرتا ہے۔۔خون کی ضرورت ہو بندوبست کرتا ہے۔غریب مجبور کا چہرہ پڑھتا ہے۔فوراً اس کی مدد کرتا ہے۔کوئی خدا نخواستہ وفات پا چکا ہو۔اپنی گاڑی لاکھڑی کرتا ہے خود ڈرائیور بنتا ہے لاش گھر پہنچاتا ہے کفن دفن کا بندوبست کرتا ہے گویا کہ یہ شخص خدمت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہو۔۔
محمد حسین کی سرگرمیاں دیکھ کر کوئی بھی انہیں  چترال کا عبد الستار ایدھی کہہ سکتا ہے۔
یہ خدمات محمد حسین انیس سو اکہتر سے انجام دے رہا ہے جب چترال واقعی پسماندگی کے خوفناک دور سے گزر رہا تھا۔۔
محمد حسین کا تعلق علاقہ تور کھو کے معزز قبیلہ خوشئے سے ہے۔ علاقہ مہڑپ کے ایک متمول گھرانے میں میر محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔۔ والد ریاست چترال کی انگریز فوج میں ایک قابل ترین انسٹرکٹر تھے۔ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے جب آپ ایک سلامی کے دوران ہوشیار پوزیشن میں آئے تو پاؤں اس زور سے زمین پہ مارا کہ آپ کی ٹانگ فریکچر ہوئی۔۔ریاستی باڈی گارڈ سے ریٹائرڈ ہوئے تو چترال سکاؤٹ میں بطور انسٹرکٹر شامل کیا گیا کیونکہ ان کا متبادل ملتا نہیں تھا۔ انہوں  نے انیس سو ستر میں اپنے خاندان سمیت چترال شہر میں سکونت اختیار کر لی۔نوکری سے فارغ ہو کر کاروبار شروع کیا۔۔
محمدحسین نے ہائی سکول چترال سے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔تعلیم کی قدر تھی مگر انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔۔اس زمانے میں محمد حسین صاحب کے ساتھ اپنی جیپ ہوا کرتی تھی۔جیپ روڑ بن کر کوراغ پہنچی تو محمد حسین گاڑی لے کر وہاں پہنچنے والے پہلے ڈرائیور تھے۔
چترال کے خطر ناک راستے چاچیلی،دوتھان،یار خون تور کھو وغیرہ کے کچے راستے جب نئے بنے ان پہ پہلی دفعہ گاڑی چلانے والوں میں محمد حسین کا نام شامل ہے اور ان پگڈنڈیوں سے اب بھی آپ کی ہمت کی خوشبو آرہی ہے۔سنوغر سے آگے ”تاؤ“ پہاڑی پہ پہلی دفعہ گاڑی لے کے گزرے تو انگریزٹورسٹ جو ان کے سواری تھے ان کی ہمت دیکھ کر ان کو اس زمانے میں دوسو روپے کاانعام دیا۔۔محمد حسین اس لحاظ سے چترال کی living history ، یعنی زندہ تاریخ، کے امین ہیں۔ محمد حسین اپنی جوانی میں نہایت خوبرو جوان ہوا کرتا تھا۔چترال کے مشہور الفتح کلپ کے فٹبال کے لیجنڈ کھیلاڑی ہوا کرتے۔۔
ان کی جوانی کمال کی بے داغ رہی۔۔کبھی سگریٹ تک نہیں پی۔کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔کبھی اس کے ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔۔چترال کی عظیم روایات کا پابند رہا۔عورت مر د،بوڑھا بچہ،مزدور مستحق،مریض تندرست سب آپ کے بہترین اخلاق اور کردار کے معترف رہے۔خدمت میں آپ ہمیشہ پہلی صف میں رہے۔۔
محمدحسین نہایت خوش ا خلا ق اور خوش مزاج ہیں۔۔آپ کا حلقہ یاران بہت بڑا ہے۔دسترخوان اس سے بھی بڑا ہے۔۔آپ نے اپنے خاندان کو اس روایت پہ زندہ رکھا ہے۔۔آپ کے پانچ بیٹے تین بیٹیاں اپنے حسن اخلاق سے ثابت کرتے ہیں کہ واقعی وہ ایک عظیم روایتی خاندان کے پروردہ ہیں۔اس کی اخلاق اور کردار مثالی بنایا گیا ہے۔محمد حسین میکی (کھوار میں میکی ‘چچا’ کو کہتے ہیں) کی صحت قابل رشک ہے۔۔بہت سحر خیز ہیں۔صبح کی نماز کے بعد بازار آکر مشہور ہوٹل ملفت خان محروم کے ہوٹل میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کپ کالی چائے پیتے ہیں صدیق خان اپنے مستقل گاہگوں کو یہ کالی چائے بنا کے پیش کرتا ہے یہ ان کی گاکوں کے ساتھ عقیدت ہے۔۔
محمد حسین میکی وہاں سے سیدھا ہسپتال جاتے ہیں جس کاذکر کیا گیا پھر اپنی دکان میں آکرناشتہ کرتے ہیں میکی ٹیکسالی کھوار زبان کے ماہرتصور ہوتے ہیں۔باذوق با ادب ہیں کھوار زبان کے شعراء ادباکا دل سے احترام کرتے ہیں۔چترالی روایات کو جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ا س کو بہت تشویش ہے کہ آج کے چترالی نوجوانوں کو چترالی روایات کا پاس لحاظ نہیں۔ان کی دکان خالص اشیاء کے لیے مشہور ہے لوگ خالص چائے کی پتی خریدنے کے لیے اور کہیں کم کم جاتے ہیں۔آپ کا بھرا پورا خاندان ہے سب بیٹے کام کرتے ہیں۔۔محمد حسین میکی کو اس کے خلوص اور خد مت خلق نے معاشرے کا ایک کردار بنا دیا ہے جس کے ذکر کے بے غیر شاید چترال کی تاریخ نا مکمل ہو۔آپ واقعی دردل کے واسطے پیدا ہوئے ہیں دوسروں کے لئے جینا انسانیت کا معیار ہے لیکن اس معیار تک پہنچنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں۔آپ اپنی زات میں انجمن ہیں۔آپ کی زات ایک خوشبو ہے۔۔آپ کی شخصیت ایک روشنی ہے اور آپ کا اخلاق ایک قابل تقلید معیار ہے۔
آپ جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں چھوٹے شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کردار بھی چھوٹے لگتے ہیں اگر محمد حسین میکی کسی بڑے شہر میں ہوتے تو دوسرے عبد الستار ایدھی ہوتے۔یہ چترال کی عظمت ہیں اور گلشن انسانیت کے وہ پھول جس کی وجہ سے دنیامعطر ہے۔۔ایک خاموش کردار۔۔ستائش اور صلہ سے بے پرواہ ایک ہیرو۔ جس کی تعریف نہ کرنا اپنے آپ پہ ظلم ہے۔۔میرا چترال ان ہستیوں سے خالی نہیں۔۔۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button