کالمز

دیوانوں کی باتیں:‌ سالہ ایک مچھر انسان کو ……

تحریر : شمس الحق قمر  ؔ  

انسان  عجیب  مخمصے  کا شکار  ہے۔    کوویڈ-  19 نے  پوری   دنیا کو  تہہ  بالا کر کرکے   رکھدیا ہے ۔ ایک طرف   دنیا  کےوہ  تمام  لوگ جو  عالمی  وبا    سے  نبرد  آزما ہیں   اور ایک  طرف  میری ذات جو یہ  سمجھتی ہے  تیرے  بغیر یہ دنیا ادھوری ہے   ۔

قصہ یوں ہے کہ  پچھلے دنوں گلگت میں   ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی    ۔ میں  نے آج سے   7 سال قبل اس نوجوان کو پڑھایا تھا ۔  برسوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ ہماری ملاقات عین  اُن دنوں میں ہوئی جب گلگت میں  کرونا کے صرف تین  کیس منظر عام پر آئے تھے اور  لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر  سر چھپانا  شروع کیا تھا  ۔  ہم بڑے تپاک سے  ملے  مصافحہ کے بعد   میں  نے پوچھا ” بھائی کہاں  غائب ہو  عرصے سے  نظر نہیں آ رہے ہو؟ ”   انہوں نے جواب دیا   ” سر میں چائنا میں تھا  کل ہی آیا   ہوں ”    اُن کی زبان سے لفظ  چائنا  سن کر میرے  اوسان خطا ہوئے     کیوں کہ  ہم   باقاعدہ  طور پر بغل گیر ہوے تھے ۔   اب میں غیر ارادی   طور پر  سماجی  فاصلہ قائم  کر چکا  تھا  یعنی اپنی  جگہے سے   کم از کم  تین قدم   پیچھے  ہٹا  ہوا  تھا  ۔      اُن سے حال احوال  یوں  پوچھا  ” اچھا  چائنا میں کہاں رہتے تھے ”  وہ بولے ” سر میں ووہان میں  پی  ایچ ڈی  کر  رہا ہوں  ”   ووہان کا نام سنتے  ہی میرے پاؤں کے نیچے سے  زمین نکل گئی   ۔

اس کے بعد  مجھے یاد نہیں کہ  میں نے  دوبارہ  اُس سے معانقہ کیا یا  نہیں  لیکن مجھے  یہ  ضرور یاد ہے کہ    جس جگہے پر  میری  اُن  سے ملاقات ہوئی تھی ٹھیک اُسی نکڑ  پر   کیش اینڈ کیری  اسٹور  کےاندر      بیٹھے   دکاندار سے   سینی ٹائزر خرید کے  اضطراب کے عالم میں  اپنے ہاتھوں میں مل رہا تھا ۔   میں مکمل  ہوش میں اُس وقت آیا  جب  دکاندار نے  مجھے  جھنجھوڑ کر  کہا  ” ارے  بھائی     کیا کر رہے ہو یہ تو آپ نے   پانچ  مرتبہ لگالیا ”     میں نے اپنے آپ کو  سنبھالنے کی ہزار جتن کی  لیکن بے سود ۔   سرا سیمگی  کے عالم  میں بھاگم  بھاگ  گھر کو سدھارا ۔

یاد رہے کہ  میں  پریشانی کی حالت میں  ہمیشہ گھر یا کسی  قریبی  بیت الخلا  کی جانب     دوڑتا ہوں کیوں  کہ ایسی حالات      میں مجھے   حاجت رفع کی شدید طلب ہوتی ہے ۔ یہاں چونکہ   مناسب جگہ نہیں تھی  لہذا   سیدھا  گھر پہنچا    اور اپنے آپ کو ہلکا  کرنے کے بعد    آنے والے حالات پر  سوچنا  شروع کیا ۔  گھر والوں کو  میں نے کچھ نہیں بتایا  البتہ   گھر والوں کے بے جا  استفسار  پر  اتنا  ضرور کہا  کہ جسم  میں  تھوڑی سی   نقاہت  اور ساتھ   زکام کی شکایت ہے آج   میں زرا جلدی سوؤں گا ۔

رات کو سوتے وقت    دو پیرا سٹامول اور ایک نیند کی گولی لے  لی    اور  پھر ہر آتی جاتی سانس پر کڑی نگاہ رکھنی شروع کی    کیوں کہ ڈاکٹروں کو کہتے سنا تھا کہ کرونا  کی  پہلی نشانی  میں  سانس  کا  رک رک کے آنا شامل ہے  ۔  احتیاط  کے طور پر  ایک گیلا  کپڑا  بھی  سرہانے  رکھدیا  تاکہ   بخار   کی شدت زیادہ ہونے پر   استعمال  کر سکوں ۔     وہ نیند جو  کسی  زمانے  میں بیٹھے بیٹھے  آجایا  کرتی    آج تارے گننے پر مجبور  کر گئی ۔میں نے موبائل پر نظر دوڑائی تو    رات   کے ایک بجکر  3 منٹ  گزر  گئے تھے ۔    میرے ساتھ ایک  بہت بڑا  مسلہ  یہ بھی ہے کہ  میں جب بھی  نیند کی نیت سے  بستر پہ  جاتا ہوں    تو   نیندیں  اُچاٹ  ہو جایا  کرتی ہیں ۔ اس بار تو نیند  آنے کا سوال ہی پیدا  نہیں ہوتا تھا کیوں کہ   موت  جو  منہ  کھولے سرہانے   منڈلا رہی تھی  ۔

مجھے معاً  خیال آیا کہ میں نماز بہت کم پڑھا کرتا ہوں   کیوں کہ میں  آج تک سمجھتا  رہا ہوں کہ  اللہ  ہماری سمجھ سے  بالا تر  اور بہت  ارفع واعلیٰ  ہے   وہ   سب سے  بڑی اور بخشنے  والی ذات ہے   لیکن  اب کی بار  ایسا  لگتا تھا کہ شاید    وہ  ہم سے بہت ناراض ہے  لہذا دل ہی دل میں  اللہ سے وعدہ کیا کہ اگر زندگی  رہی تو کل سے   نماز  و  بندگی میں با قاعدہ  گی اختیار کروں گا  ، زکوات بھی دوں گا    ، ا گر ہو سکے تو    عمرہ  بھی ادا کروں  گا یہی نہیں بلکہ  مقدس مقامات کی زیارت   بھی کروں گا   ۔ اسی سوچ میں تھا کہ   دور  کسی   مسجد  سے  کسی خوش  گلو  مؤ ذن  نے      دل لبھانے  والی  آواز میں  انسانوں کو  نماز کی طرف  بلا  نا شروع کیا ۔ میں نے سوچا اس  وقت مجھے بھی نماز کے لئے جانا پڑے  گا ۔   میں نماز کی تیا ری کر   ہی رہا  تھا کہ  لوگوں کا ایک  ٹولہ  میری طرف آیا   اُن میں سے کوئی بھی میرا جاننے والا  نہیں تھا     اس  اجنبی ہجوم  میں کچھ خواتین اور کچھ  مرد  شامل تھے  جو کہ سب  سفید  لباس میں ملبوس تھے   ۔     اُنہوں نے   کہا کہ  آج ہم تیرے مہمان ہیں  آج  ہم آپ کے ساتھ آپ کے گھر آئیں گے     ۔ میں کرونا  کے  ڈر سے  انہیں  ”  ہاں ” بھی نہیں کہہ سکتا  تھا   اور ” نہ ” کہنا بھی  مناسب  نہیں تھا  کیوں کہ  یہ سب اجنبی مہمان تھے    ۔   چار و ناچار میں    اُنہیں لیکر اپنے گھر کی  طرف روانہ  ہوا ۔  یہ  غالباً  جون  یا جولائی کا موسم  ہوگا کیوں   کہ ہم سب   ہلکے  لباس میں تھے ۔  میں  اُن سے آگے آگے چل کر جب  ایک گھر میں داخل ہوا   تو کیا دیکھتا  ہوں کہ  یہ   کمرہ  سوئے ہوئے لوگوں سے کھچا کھچ  بھرا ہوا  ہے ۔   مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ یہ تمام  لوگ   ایک جیسے سفید چادر  لپیٹے سوئے ہوئے  تھے  میں  نے انہیں جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی تو    یہ  تمام   لوگ  ایک ساتھ   اپنی اپنی سفید چادریں  سروں پر  اٹھا ئے غصے  سے  جاگ    اُٹھے اور یک زبان ہو کر  بولے  ”  تمہاری وجہ سے قبر میں  بھی سکون نہیں ہے ”  

 میری آنکھ  یکایک کھل گئی  ۔  میرا جسم  پسینے سے  شرابور تھا  ۔ میرے دل کی دھڑکنیں   تیز  ہو چکی تھیں  ۔   میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو  صبح کے  پانچ بجکر  10  منٹ ہو رہے تھے ۔ اپنی حالت  زار دیکھ کر مجھے    ایک مزاحیہ فلم کا   یہ جملہ  یاد  آیا ۔  "سالہ ایک مچھر انسان کو ہجڑا  بنا دیتا ہے” ۔  خوش رہیئے  اور سلامت رہیئے ۔   یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button