کالمز

پہاڑوں کے درمیان بکھری جنت

تحریر: حسین علی شاہ غذر

اگر خواہش ہو اور اس کو پوری کرنے کی آپ میں ہمت بھی ہو تو کوئی چیز مشکل نہیں۔ میرے ابو جان کی خواہش بھی ہمیشہ سے شوروغل سے دور قدرت کے حسین مناظر کی آغوش میں کچھ لمحے گزارنے کی ہوتی ہے اس لئے وہ جب بھی وقت ملتا ہے اور صحت ساتھ دیتی ہے تو پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ ضلع غذر کے پہاڑوں کے پیچھے قدرت کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ جہاں کا سبزہ زار دنیا میں شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ آبادی کے بارے میں سوچے تو وہاں موجود بڑے دل والے گڈریوں کے چھوٹے کچے مگر آرام دہ آشیانے ملتے ہیں جو کہ صرف گرمیوں میں آباد رہتے ہیں۔

گاوں میں جب گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے تب یہ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ چاروں طرف لہلہاتی گھاس ایسے نظر آتی ہے جیسے کسی نے اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی ہو۔ ہر طرف جا بجا کھلے پھولوں کی وجہ سے فضا مختلف خوشبووں سے معطر رہتی ہے۔ یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی انسانوں کا خوف نہیں رہتا۔ ہر طرف گونجتی ان کی سریلی آوازیں جب پہاڑوں سے ٹکرا کے لوٹتی ہیں تو دل میں اک عجیب سی رومانیت پیدا کرتی ہیں۔ چھوٹی آبشاروں سے گرنے والا صاف میٹھا پانی پہاڑوں سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے تو پھر ہرطرح ایک موسیقی کا گمان ہوتا ہے۔ سرد ہواؤں کا پہاڑوں کے درمیان سے گزر جانے کی آواز کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جب سرد ہوائیں ان چٹانوں سے ٹکراتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سازو سُر کے کسی ماہر نے رباب کے تاروں پہ ہلکے سے انگلیاں پھیری ہوں اور اس کے رباب کی مدھم آواز اس جگہ گونجتی رہتی ہو۔ اونچے پہاڑوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی جھیلوں کے میٹھے پانی سے جیسے ہی سرد ہواوں کا ٹکراو ہوتا ہے تو پانی کے اند ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ سب دھنیں جب مل جاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید کوئی سنگیت کار بڑا دھیان لگا کر کوئی ایسی شاہکار دھن ترتیب دینے کی سعی کر رہا ہو جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے۔

یہ جگہیں غذر کے پہاڑوں کے پیچھے دنیا کی نظروں سے اوجھل نالے ہیں, جہاں کا سفر آپ کے لئے دنوں کا بھی ہو سکتا ہے اور ہفتوں کا بھی۔ گاؤں میں جون، جولائی کی گرمی میں تپتے بدن کو ان نالوں میں گرم رکھنے کے لئے سلیپنگ بیگس کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرے ابو ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں جو ہر سال ان جگہوں پہ جاتے ہیں اور وہاں کی خوبصورتی کو جی بھی لیتے ہیں۔

عمر کے 65 برس مکمل کرنے کے بعد آج بھی وہ اس بات پہ قائل ہیں کہ ان جگہوں میں ہی جنت ہے اس لئے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وہاں اتنے دن گزارے کہ دوبارہ وہاں جانے کی خواہش دل میں پیدا ہی نہ ہو لیکن انسان میں خواہش کم کیوں ہوجائے بھلا اور وہ بھی تب جب آپ پہاڑوں کے دامن میں رہتے ہوں اور پہاڑوں سے دیوانگی کی حد تک محبت ہو۔

ایسے ہی ایک سفر میں کچھ تصویریں ایک موبائل کمیرے کی آنکھ میں قید ہوگئیں ہیں۔ یہ تصویریں ضلع غذر کے گلمتی نالے کی ہیں, جو گلمتی گاؤں سے لب نالہ اندر ایک دن کی پیدل مسافت پہ واقع ہے۔ ضلع غذر کے اندر دریا کے دونوں اطراف ان نالوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں اگر آپ نے ایک گاؤں کے نالے کی طرف سے سفر کا آغازکیا ہے تو آپ پہلے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے نالے تک جاسکتے ہیں بشرطیکہ آپ پہاڑوں کے درمیان راستہ بھٹک نہ جائے۔ ان جگہوں میں انسان کی آبادکاری کا ابھی دور دور تک کوئی وجود ہی نہیں پھر بھی یہاں ہر جگہےکو ایک نام دیا گیا ہے۔ یہاں پہ بہنے والے نالے، پہاڑ، میدان، جھیلیں، آبشار، جھرنے سب کے نام ہیں۔ یہاں وہ پھول کھلتے ہیں جو اکثر گاوں میں یا کسی بھی باغبان کے باغ میں موجود نہیں ہوتے۔ ایسی جگہیں قدرت کا شاہکار ہیں۔ ان جگہوں میں جا کے انسان خود کو تروتازہ اور پر سکون محسوس کرتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button